جمہوریت اور اس کے مبنیِ کفر فاسد اصول

1۔ SECULARISM یعنی لادینیت
2۔ LIBERALISM یعنی آزادی
3۔ NATIONALISM یعنی قوم پرستی
4۔ PEOLE'S SOVEREIGNTY یعنی جمہور کی حاکمیت

مغربی تہذیب نے اسلامی روایات اور طرز کو مسخ کرنے کیلئے کئی قسم کے خطرناک ترین خاموش مہلک ہتھیار، نظریے ،حکمت عملی، اور اصول مرتب کیے ہیں جن پر سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس میں شعور بیدار ہو اور ان کے خلاف صف آراء ہو کر بنیان مرصوص سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوں۔ان اصولوں اور حکمت عملی میں چار انتہائی خطرناک ترین اصول اور مہلک ترین ہتھیار یہ ہیں جن کا رخ ملت اسلامیہ کی طرف ہے اور خاص نشانہ اور ہدف دین محمدی ﷺ ہے۔
1۔ SECULARISM یعنی لادینیت
2۔ LIBERALISM یعنی آزادی
3۔ NATIONALISM یعنی قوم پرستی
4۔ PEOLE'S SOVEREIGNTY یعنی جمہور کی حاکمیت
1۔ سیکولرزم SECULARISM یعنی لادینیت
سیکولرزم جمہوریت کا ایک اہم جزو ہے اس کی شرح یہ ہے کہ اگر کسی کا ضمیرگواہی دیتا ہے کہ خدا ہے اور اس کی پرستش کرنی چاہیے تو وہ اپنی زندگی میں انفرادی حد تک بخوشی اپنے خدا کی عبادت کرے،اگر کسی کا ضمیر مانتا ہے کہ کوئی رسول ہے ،کوئی آسمانی کتاب یا صحیفہ ہے اور اس پر ایمان رکھنا چاہیے تو وہ بس ان پر ایمان اور یقین اپنی ذات کی حد تک ہی محدود رکھے اور اسے دوسروں تک لے جانے کی جرات نہ کرے،ان کے ساتھ اپنا صرف پرائیویٹ تعلق رکھے باقی دنیا اور اس کے معاملات سے خدا، رسول اور کتاب و مذہب کے کسی قسم کے تعلق کو جوڑنے کی کوشش نہ کرے اگر کوئی ایسا کرنے کی جسارت کرے گا تو وہ مذہبی انتہا پسند قرار پائے گا۔
میں نے سیکولرزم کو معانی کئی معروف ڈکشنری میں تلاش کیا کہ اس کی تہہ کو پہنچاجائے۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری کے مطابق ’’سیاسی و معاشرتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت کا نام سیکولرزم ہے‘‘۔ امریکن ہری ٹیج ڈکشنری کے مطابق ’’اجتماعی معاملات مذہب کو شامل کیے بغیر چلانے کا نام سیکولرزم ہے‘‘۔ آکسفورڈ ، مریم ویبسٹرز اور دیگر معتبر انگریزی لغات کے مطابق سیکولرزم کی تعریف یہی ہے کہ مذہب اور خدا اگر ہیں بھی تو انفرادی زندگی تک، اس سے آگے جانے کی ان کو اجازت نہیں۔
اس نظریہ کی بنیاد پر جس نظام زندگی کی عمارت اٹھتی ہے اس میں انسانوں کا آپس میں اجتماعی معاشرتی تعلق اور انسان اور دنیا کے تعلق کی تمام صورتیں خدا ، رسول اور کتاب و مذہب سے آزاد ہیں۔دین ہے تو اس سے آزاد، معاشرت ہے تو اس سے آزاد، تعلیم و تہذیب ہے تو اس سے آزاد، کوئی دینی قوانین، اصول و ضوابط ہیں تو اس سے آزادکر کے انسان کو خود مختاری کا درس دیتا ہے کہ جو انسان سوچے، سمجھے ، جو اس کا دل چاہے ، اس کی طبیعت، اس کا نفس جس خواہش کا اظہار کرے کر گذرے ، دنیا کی کوئی چیز اس کی راہ میں روکاوٹ اور مانع نہ ہو۔ زندگی کے بے شمار مختلف پہلوؤں میں جو کچھ بھی طے کیاجائے اپنی خواہش اور دانست کے مطابق طے کیا جائے۔ ملک چلانے کا آئین و دستور ہے تو لوگوں کی اجتماعی خواہش کے مطابق بنے، پارلیمنٹ میں قانون سازی کرتے وقت انسانوں کے خیالات، سوچ، فکر اور خواہش کو مدنظر رکھا جائے اور کسی مذہب، دین یا کتاب کی طرف نہ دیکھا جائے ان امور کے متعلق خدا نے بھی کچھ اصول اور احکام مقرر کیے ہیں یا نہیں۔ یعنی سیکولرزم اس نظریہ کا نام ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کو کسی بھی دین اور مذہب کے معاملات سے بالکل الگ تھلگ کر کے رکھا جائے اور چلایا جائے۔ جمہوریت کا یہ تصور انفرادی زندگی میں تو کسی خدا ، رسول اور کتاب کو ماننے کی اجازت دیتا ہے لیکن اپنے اجتماعی معاملات اس خدا اور دین کے حوالے کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ کسی مذہب کو اپنے اوپر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دیتاہاں اگر کوئی بھی مذہب اس کے تابع رہنا چاہے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ۔
اگر اپنی اجتماعی زندگی میں انسان خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی خود مختاری اختیار کرے تو یہ اپنے خالق، مالک اورحاکم سے اس کی کھلی بغاوت ہے۔ اور پھر اس بغاوت کے ساتھ یہ دعویٰ کہ ہم اپنی انفرادی زندگی میں خدا کو اور اس کے دین کو مانتے ہیں ، صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔ اس سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایک شخص فرداً فرداً تو خدا کا بندہ ہو مگر الگ الگ بندے جب مل کر معاشرہ بنائیں تواس کے بندے نہ رہیں بلکہ خود قادرمطلق اور خودمختار بن جائیں اور اجتماعی معاشرت کے قانون اپنی سوچ اور خواہش کے مطابق ترتیب دیں۔ جبکہ اس پوری کائنات کا خالق، مالک و مختار اللہ واحد ہے اور وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ اس کے بنائے ہوئے اجتماعی معاشرت کے قانون کو مانا اور اسی پر نظام حکومت چلایا جائے۔لیکن موجودہ نظام جمہوریت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نظام میں مذہب کیلئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔
حکیم الامت حضرت اقبال رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
جب دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے تو وہ ظلم، ستم، جبر اور زیادتی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتایعنی مذہبی اخلاقیات سے اگر کوئی طرز حکومت خالی ہوگا تو وہ چنگیزیت بمعنی ظلم و جبر ہی رہ جائے گا۔ اسلام باقی مذاہب سے یکسر مختلف ہے۔ یہ وہ دین ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ یہ ایک مکمل دین ، ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔یہ کسی بھی ملک، ریاست اور معاشرہ کیلئے ایک مکمل آئین بھی ہے اور ایک مکمل دستور بھی اور لائحہ عمل بھی۔اس کے ہوتے ہوئے اگر کوئی نام نہاد مسلمان آئین و دستور بنانے کی بات کرے تو وہ عقل کا اندھا، اللہ و رسول ﷺ کا باغی، مغرب کا ایجنٹ اور نفس کا بندہ ہی ہو سکتا ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ خواہ وہ سیاست ہو، تجارت ہو، شادی بیاہ کے معاملات ہوںیا انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول و ضوابط ہوں کوئی شعبہ اسلام سے باہر نہیں رہ سکتا، اسلام ہر شعبہ ہائے زندگی کے رہنما اصول دیتا ہے۔ اسلام ریاست کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺسے باغی ہو کر نظام زندگی چلائے۔اسلام ریاست سمیت کسی کی ماتحتی قبول نہیں کرتا۔ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک منظم جماعت بنانے کی دعوت دیتا ہے جس کا کام نہ صرف انفرادی و اجتماعی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی پیروی کرنا اور کرانا ہو بلکہ پورے کے پورے دین کو بطور نظام زندگی نافذ و غالب کر دینے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ وہ سیکولرز م کی طرح اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس کے غلبے کی راہ میں جو بھی رکاوٹ آئے اسے بزور قوت دور کر دویا کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اختیار کر کے کچھ مان کر کچھ اپنی منوا کر معاملہ ختم کر دو۔ اسلام تو کہتا ہے کہ اس وقت تک لڑتے رہو، مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے ثبت قدم رہو جب تک کہ اسلامی نظام حیات پوری دنیا میں غالب نہ آ جائے۔
اسلام اور سیکولرازم ایک ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ اسلام کا مطلب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت جبکہ سیکولرازم کا مطلب ہے بندوں کی حاکمیت ،بندوں کے اداروں، بندوں کی خواہشات و مطالبات کی حاکمیت۔ کوئی آدمی اگر ہندو، عیسائی اور بدھ مت ہو تو سیکولر رہ سکتا ہے لیکن مسلمان بیک وقت سیکولر اور مسلمان نہیں رہ سکتا۔ ایسا کرنے کے لیے قرآن اور سیرت رسول ﷺکے ایک بہت بڑے حصے کا واضح انکار کرنا پڑے گا۔جبکہ دین کے تو ایک واضح نکتے کا انکار بھی کفر ہے اور خدا کے سخت غصے اور غیظ و غضب کا باعث۔جیسا کہ قرآن کریم سخت انتباہ و ڈانٹ پلاتے ہوئے فرما رہا ہے
اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبِعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ
یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِیْ الْحَےٰوۃِ الدُّنْےَا وَ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ
ےُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِo (البقرۃ 85:2)
’’کیا تم کتاب الٰہی کی کچھ باتوں پر تو عمل کرتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو ؟ یاد رکھو! اللہ کے دین کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کرنے والوں کیلئے دنیا میں ذلت ورسوائی اورآخرت میں بد ترین عذاب کے سوا اورکچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘
جو لوگ مسلمان ہوئے ایمان لائے اللہ جلاشانہ پر، اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر اور جن کا آخرت میں یوم حساب، جزا و سزا پر یقین ہے انہیں اللہ کریم دین میں پوری طرح داخل ہو جانے کی نصیحت فرما رہے ہیں۔
یَّاأَیُّھَا الَّذِینَ آمَنْوا اَدْخُلُوا فِیْ السِّلمِ کَافَّۃً وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ اِنَّہُ لَکُمْ عَدْوٌّ مُّبِیْنٌo فَاِنَّ زَلَلْتُمْ مِّن بَعدِ مَا جَاءَ تُکُمُ البَیِّنَاتُ فَاعْلَمُوْاَنَّ اللَّہَ عَزِیْزٌحَکِیْمٌ o (البقرۃ 208)
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ اور شیطان کے گمراہ کن راستوں کی پیروی نہ کرو ، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔پھر اگر کھلے دلائل پہنچ جانے کے بعد تم (راہ حق سے) پھسل جاؤ تو (اچھی طرح) جان لوکہ اللہ زبردست ہے (تم اس سے کے غضب سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے ) اور وہ حکیم ہے ۔(عذاب میں تاخیر اس کی حکمت پر مبنی ہے )۔
مسلمان ہونے کے لئے صرف کلمہ طیبہ کا اقرار کر لینا شرط نہیں ہے ۔پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونا مقصد ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کی جو حدود متعین فرما دی ہیں، ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی میں ایمان و اسلام کا ایسا مظاہرہ کیا جائے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے جس پر کفر اور منافقت کی چھاپ ہو۔ اسلام کی تمام ممنوعات سے بچا جائے اور احکامات پر عمل کیا جائے یہ ایمان کی اصل ہے۔ دین اسلام کی بعض باتوں کو قبول کر کے ان پر عمل کرنا اور بعض باتوں کو جان بوجھ کر چھوڑنا یہ ایمان والوں کا کام نہیں ہے، یہ اہل حق کا طریقہ نہیں ہے یہ اہل کتاب کی خصلت ہے جو کہ مردود ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات کسی درجے بھی قابل قبول تو درکنار قابل برداشت بھی نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ذات و صفات میں ، اس کے احکامات و ہدایات میں ، اس کے حقوق و اختیارات میں ، اس کے عطا کردہ دین اور ضابطہ حیات میں کسی جگہ بھی کسی دوسرے کو شریک کیا جائے۔قرآن دین میں پورے کے پورے داخل ہو جانے کی تلقین کرتا ہے ۔ خداکا دین پوری کی پوری انسانی زندگی پر محیط ہے اور ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور پورے کا پورا واجب الاطاعت ہے، اس کاکوئی حصہ اختیاری نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ اتنا تو مانوں گا ، اتنے پر تو عمل کروں گا اور اتنے پر نہیں کروں گا، ان ان معاملات کی حد تک تو اس کی پیروی کروں گا اور ان کے سو اباقی معاملات میں اپنی یا کسی اورکی مرضی پر چلوں گا۔ خدا کے دین میں سودے بازی اور کمی بیشی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ تو زندگی بسر کرنے کا ایک متعین طریقہ ہے اور ہر شعبہ زندگی کیلئے واضح احکام و ہدایات جاری کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یا اس پر چلا جائے یا اس کو چھوڑ کر کسی اور طریقے پر عمل کیا جائے۔ اللہ رب العزت نے تو پوری انسانیت کو یہ دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا ہے ۔
وَ مَن یَّبتَغِ غَیرَ الاَ سلَامِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الاٰ خِرَِ مِنَ الخٰسِرِینَo (آل عمران:85)
اور جو اسلام کے سوا کو ئی اور دین لے کر(رب کی بارگاہ میں )آئے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔
جس معاشرہ کا نظام لادینیت یا دنیاوی اصولوں پر چلتا ہے اس میں خواہشات کی بنا پر روز اصول بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں، جس طرح ہم آئے روز آئین میں ترمیم کی بات سنتے رہتے ہیں کہ آج آئین کے فلاں آرٹیکل میں ترمیم ہو رہی ہے۔ فلاں آج کے حالات کے مطابق صحیح نہیں رہا اس لیے تبدیلی ناگزیر ہے۔آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ انسانی تعلقات کے ایک ایک گوشے میں ظلم، بے انصافی، بے ایمانی اور آپس کی بے اعتمادی گھس گئی ہے۔ تمام انسانی معاملات پر انفرادی، طبقاتی،قومی اور نسلی خود غرضیاں مسلط ہوگئی ہیں۔ دوانسانوں کے تعلق سے لیکرقوموں کے تعلق تک کوئی رابطہ ایسا نہیں رہا جس میں ٹیڑھ نہ آگئی ہو۔ ہرایک شخص نے، ہر ایک گروہ نے، ہر ایک طبقے نے، ہر ایک قوم اور ملک نے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں، جہاں تک بھی اس کا بس چلا ہے، پوری خود غرضی کے ساتھ اپنے مطلب اور مفاد کے مطابق اصول اور قاعدے بنالیے ہیں۔ خدا کے بندے بننے کی بجائے اپنے نفس، خواہشات اور مفاد کے بندے بن گئے ہیں۔ پس لادینی اور دنیاویت کاماحصل صرف یہ ہے کہ جو بھی اس طرز عمل کو اختیارکرے گا بے لگام، بدمست، غیر ذمہ دار اور نفس کا بندہ ہوکر رہے گا خواہ وہ ایک شخص ہو یا ایک گروہ یا ایک ملک اور قوم یا مجموعہ اقوام۔
اسلام کئی صدیاں دنیا کا غالب نظام زندگی رہا۔ مسلمانوں نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر ایک لمبا عرصہ حکومت کی۔ حکومت اور اقتدار چھن جانے کے بعد اسلام نے باقی مذاہب کی طرح کمپرومائز نہیں کیا کہ ان ان معاملات کی حد تک مجھے رہنے دو اور باقی معاملات میں اپنی اجتماعی سوچ کو اپنا لو۔بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرکے اس کے ماننے والوں نے پھر اپنے قدموں پر کھڑا ہونا شروع کر دیاہے اور اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے دنیا کی تمام سیکولر طاقتیں آج مل کر پوری دنیا کے مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچارہی ہیں، ثقافتی اور تہذیبی یلغار کی جارہی ہے، علمی طور پر شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اسلام کے ماننے والوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ باقی مذاہب کی طرح آپ بھی اسلام کو ایک محدود مذہب تصور کرلیں۔ ریاستی معاملات میں مذہب کو نہ لائیں۔ لیکن تمام تر کمزور ی کے باوجود آج پوری دنیا میں اسلامی تحریکیں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ خود مغربی اداروں کے مطابق اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر علاقے میں ایک مضبوط قوت کے طور پر بھی سامنے آرہا ہے۔کئی ممالک میں تو یہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ بہت جلد آباد ی کا تناسب الٹ جائے گا یعنی آج کی اکثریت کل کی اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ وہ وقت دور نہیں جب اسلام ماضی کی طرح پھر پوری دنیا میں غالب آ جائے گا۔ اس قوت کو روکنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
2۔ لبرل ازم LIBERALISM یعنی آزادی
لبرل جس کا مطلب ہے ’’آزاد، جو غلام نہ ہو‘‘ ہر طرح کی سوچ، فکر اور فہم سے آزاد۔ ہر طرح کے دین کے احکامات و روایات کی پابندی کی قید سے آزادمطلق و خود مختار ریاست کو لبرل ریاست کہتے ہیں۔شروع میں اس لفظ کا معنی ایک آزاد آدمی ہی تھا۔بعد میں یہ لفظ ایک ایسے شخص کے لیے بولا جانے لگا جو فکری طور پر آزاد، تعلیم یافتہ اور کشادہ ذہن کا مالک، روشن خیال اور اعتدال پسند ہو۔اٹھارھویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اس کے معنوں میں خدا یا کسی اور مافوق الفطرت ہستی یا مافوق الفطرت ذرائع سے حاصل ہونے والی تعلیمات سے آزادی بھی شامل کر لی گئی، یعنی اب لبرل سے مراد ایسا شخص لیا جانے لگا جو خدا اور پیغمبروں کی تعلیمات اور مذہبی اقدار کی پابندی سے خود کو آزاد سمجھتا ہو، انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار کرسکے کوئی چیز اس کی راہ میں روک ٹوک نہ کرنے والی نہ ہو۔یہ تصور انسان کو اپنی ذات کا مقتدر اعلیٰ اور مجموعی طور پر ریاست کے تمام انسانوں کو ریاست کا مقتدر اعلیٰ بنتا ہے ۔
جبکہ اقتدار اعلیٰ صرف اسی ہستی کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور صرف وہی ہے جو یہ جانتا کہ اس نے انسان کو کیوں اور کس لیے پیدا کیا اور صرف اسی کے پاس انسان کی فطرت کے متعلق مکمل علم ہے۔ اس تصور نے غلط طریقے سے اقتدار اعلیٰ کا منصب حاصل کرکے اپنی خدائی کا اعلان کر دیاہے اور اس حق کو چھین لیا جو صرف اور صرف اس ذات کے لیے مخصوص ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے۔انسان نے خود کوتو پیدا نہیں کیا بلکہ اسے پیدا کیا گیا ، انسان خود سے اپنی زندگی کا مقصد نہیں جانتا اورنہ ہی انسان کے پاس اپنی فطرت سے متعلق مکمل اور صحیح علم موجود ہے۔ انسان اس قابل ہی نہیں کہ خود اپنے آپ پر مقتدر ہو بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بھی دوسری پیدا کی گئی یا بنائی گئی چیز خود پر مقتدر نہیں ہوتی یعنی وہ یہ نہیں جان سکتیں کہ انھیں کیوں بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کا انکار کرنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ انھوں نے خود اپنے آپ کو تخلیق کیا ہے، لہٰذا انسان کے لیے مقتدر ہونے کا دعویٰ کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جس طرح انسان نے یہ دیکھا کہ اسے پیدا کیا گیا ویسے ہی اسے اِس بات کی جستجو کرنی چاہیے کہ کس نے اسے پیدا کیا ہے تا کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی عظمت کا معترف ہوسکے کیونکہ وہی اصل مقتدر ہے۔
لبرل ازم مذاہب کا دشمن ہے یہ براہ راست مذاہب سے ٹکراتا ہے کیونکہ لبرل ازم انسان سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کو وہ خود کو صرف اور صرف لبرل تصور کا پابند بنائے۔مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے۔ کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرے۔ مذہب انسان کو ایک مخصوص نظم و ضبط کا پابند کرتا ہے چاہے وہ نظم و ضبط اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہو یا صرف اخلاقی اور روحانی مسائل تک محدود ہو۔ لبرل ازم اللہ سبحانہ و تعالی کی جگہ انسان کو رب بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کا نقاب کو مسترد کرنا لبرل ازم کے عین مطابق ہے۔ نقاب اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ انسان نے خود کو اپنے رب کی خواہش کا پابند کردیا ہے اور یہ چیز پورے لبرل مغربی دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے چاہے ان تمام ممالک نے اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان مذہب کا پابند نہیں ہوسکتا۔ ایک لبرل انسان مذہب کی کچھ باتوں پر عمل یا اجتناب اختیارکرسکتا ہے لیکن ایسا وہ اپنی مرضی اور خواہش کے تحت ہی کرتا ہے۔
لبرل انسان اپنے رب کی نہیں بلکہ خود اپنی پرستش کرتا ہے۔ یہ اس مقتدر کی پرستش ہے جسے اس نے خود اپنے لیے چناہے کہ اس نے کس طرح سے سوچنا ہے اور اپنی خوشی کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ خود کو اس بات کا پابند سمجھتا ہے بلکہ وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس کی خواہش رکھتا ہے۔ لبرل انسان اس بات میں خوشی محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی مسلمان کو نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ شراب پیتا ہوا ،ہر قسم کی ضلالت، لہو و لعب میں پڑا، ناچ گانا کرتے ہوئے بھی دیکھے۔ لبرل اس طرح کے مسلمان کو اعتدال پسند اور روشن خیال سمجھتا ہے، جس سے اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذہب میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک حقیقی لبرل انسان اس شخص سے شدید نفرت کرتا ہے جو خود کو اپنے رب کے سامنے مکمل طور جھکا دیتا ہے۔
لبرل ازم یعنی آزادی تباہ کن، باغیانہ اور مفاد پرستی کا تصور ہے جو انسان کو اپنی خواہشات اور مفاد کے تحت چلنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ایک جھوٹا فلسفہ ہے جس نے کئی نسلوں کو دھوکہ دیا اورعملاً طاقتور کو اقتدار اعلیٰ دے کر دنیا میں جبر اور استحصال کا ماحول پیدا اور عام کیا۔ یہ تصور پہلے بھی عیسائی اور اسلامی تہذیبوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے جنہوں نے دنیا پر ہزار سال سے بھی زائد عرصے تک اپنی بالادستی برقرار رکھی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے لبرل ازم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔اب اس تصور کودوبارہ اسلام کو ایک بالادست قوت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
برطانوی فلسفی جان لاک وہ پہلا شخص ہے جس نے لبرل اِزم کو باقاعدہ ایک فلسفہ اور طرزِ فکر کی شکل دی۔یہ شخص عیسائیت کے مروّجہ عقیدے کو نہیں مانتا تھا اور نہ ہی خدا کو منصف گردانتا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ بنی نوعِ انسان کو آدم کے اس گناہ کی سزا ایک منصف خدا کیوں کر دے سکتا ہے جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔عیسائیت کے ایسے عقائد سے اس کی آزادی اس کی ساری فکر پر غالب آ گئی اور خدا اور مذہب پیچھے رہ گئے۔ انقلابِ فرانس کے فکری رہنما والٹئیراور روسو اگرچہ رسمی طور پر عیسائی تھے مگر فکری طور پر جان لاک سے متاثر تھے۔ انہی لوگوں کی فکر کی روشنی میں انقلابِ فرانس کے بعدفرانس کے قوانین میں مذہبی اقدار سے آزادی کے اختیار کو قانونی تحفّظ دیا گیا ۔ یہی یورپ کی خدا سے برگشتہ فکر ہے جس کی ذرا سخت قسم لبرل اِزم اور کچھ نرم سیکولر اِزم ہے۔ یہ لبرل ازم اور سیکولرازم ہی ہے جس نے موجودہ دور کے عصری تعلیمی اداروں میں ’’تصور وحی کی نہی‘‘ جیسے تعلیمی نظام کو فروغ دینے پر مجبور کیا ہے۔ نتیجتاً ہر خاص و عام، مادیت اور نفسانی خواہشات میں مبتلا ہوگیا۔
لبرل ازم بذات خود ایک دین ہے جو مغرب کے آزاد، روشن خیال، اعتدال پسند، نفس پرست ذہنوں کی تخلیق کردہ ہے۔ لبرل ازم کا تصور ہر جمہوریت میں پایا جایا ہے، جمہوریت اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتی اور لبرل ازم جمہوریت کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہریت کی مساوات کی بنیاد پر جمہوریت کا جنم لبرل نظریات اور تحریک کا نتیجہ ہے ۔تمام افراد کو بلا تفریق یہ حق حاصل ہے کہ وہ ریاست کے سیاسی انتظام کے لئے اہل قیادت منتخب کر سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک ہوں یا دیگر،دونوں ہی لبرل ازم اور سیکولرازم کی جکڑ بندیوں میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک کے بیشتر سیکولر اور لبرل حکمراں ذاتی مفادات کے پیش نظر مغربی طاقتوں کے ہمنوا بلکہ آلہ کاربنے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ خدا، رسول، قرآن اور اسلام کا نام لیتے ہیں مگر عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ سے بدکتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک آدمی بیک وقت مسلمان اور سیکولر یا لبرل ہو سکتا ہے۔ہمارے حکمران اکثر و بیشتر یہ بات کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کو سیکولر یا لبرل ہونا چاہیے اس کے بغیر ترقی نا ممکن ہے، اگر یہ نہ ہو تو دنیا میں عزت اور وقار نہیں ملے گا۔مشرف اپنے دور میں نعرہ لگاتا رہا روشن خیال ، اعتدال پسندی کا جس کے پیچھے لبرل تصور ہی تھا جو خداوند کریم اور اس کے دین سے کھلی بغاوت ہے۔میاں صاحبان بھی اکثر پاکستان کو سیکولر و لبرل بنانے کا عزم کرتے رہتے ہیں۔
3۔ نیشنل ازم NATIONALISM یعنی قوم پرستی
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور

ساقی نے بنا لی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

قوم پرستی، وطن پرستی، قوم کا مفاد، وطن کا مفاد یہ مغرب کی تیسری یلغار ، تیسری تخریب کاری ہے جوسیکولرزم اور لبرل ازم کے بعد امت مسلمہ پر کی گئی۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا مسلم امہ الگ الگ قومیتوں اور ان کی سرزمین مختلف چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جائے اور ان میں واحد امہ کا تصور، مرکزیت ، اتحاد و یکجہتی ، باہمی تعاون و بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی ہمدردی و خیر خواہی کا جذبہ بالکل ختم ہو جائے تاکہ ان کو قابو میں اور اپنے زیر تسلط رکھنا آسان ہو۔ یہ سب اپنے الگ الگ وطنوں اور قومیتوں کو پروان چڑھانے کا سوچیں، ان کے دوسرے مسلمان بھائی خواہ ڈوب رہے ہوں، بھوکے پیاسے مر رہے ہوں یا ان پر آگ و آہن کی بارش کی جا رہی ہو ، کوئی دوسرا آکر ان کی مدد و حمایت نہ کرے۔
مختلف قومیں اپنی اپنی سیاست و مصلحت ، اچھے برے کی آپ ہی مالک و مختار ہوں، نیکی وہ ہے جو قوم کیلئے مفید ہو،خواہ وہ جھوٹ ہو،بے ایمانی ہو، دین سے دوری ہو، اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی ہو، ظلم ہو،فراڈ ہو یا اور کوئی ایسا فعل ہو جو دین و اخلاق میں بدترین گناہ سمجھا جاتا ہو اور بدی وہ ہے جس سے قوم کے کسی مفاد کو نقصان پہنچے خواہ وہ سچائی ہو،انصاف ہو، وفائے عہد ہو، ادائے حق ہو یا اور کوئی ایسی چیز ہو جس کا دین میں حکم ہو لیکن اگر وہ قوم اور و طن کے کسی مفاد کے خلاف جاتا ہو تو اسے انجام دینا گناہ تصور کیا جائے۔ ملک کے افراد کی حب الوطنی اور محبت و اخلاص کا پیمانہ یہ ہونا چاہیے کہ ملک و قوم کا مفاد ان سے جس قربانی کا مطالبہ بھی کرے خواہ وہ جان و مال اور وقت کی قربانی ہو یا ضمیر و ایمان کی، اخلاق وانسانیت کی قربانی ہو یا شرافت نفس کی، بہرحال وہ اس میں دریغ نہ کریں اور متحد و منظم ہوکر ملک و قوم کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کوپورا کرنے میں لگے رہیں اور دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنی قوم و ملک کا جھنڈا بلند کرنے کا جذبہ رکھیں۔
یہ مغرب کا وہ وطن کا خدائی شرکیہ تصور ہے جس نے آج پوری امتِ مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومی، نسلی ، لسانی اور جغرافیائی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ امت پر خلافت عثمانیہ کے دور سے اس کی یلغار شروع کی۔ خلافت عثمانیہ کو توڑنے کیلئے اس کی ریاستوں میں میر صادق میرجعفر ، اپنے تابع فرمان ایجنٹ تلاش کیے اور افراد کوحب الوطنی اور قوم پرستی پر اکسایا۔مصری ، شامی ، عراقی، سعودی،یمنی،عمانی، لبنانی، اردانی، ایرانی ، افغانی سب کو درس دیا کہ تمہاری اپنی قومی شناخت ہے ، کلچر ہے، ثقافت ہے ، لسانیت ہے تم ترکی کے زیر اثر خلافت میں کیا کر رہے ہو ؟اس کے زیر اثر تمہارے ا پنے ملک و قوم کا مستقبل کیا ہے؟ کیا تم نے ہمیشہ ایک مرکز پر دوسری قوموں کا غلام بن کر رہنا ہے ؟ الگ الگ ہو کے خود مختاربنو، اپنی اپنی قوم و طن کی شناخت بناؤاور اپنی تمام تر تگ ودؤ اور صلاحیتیں اپنے ملک و قوم کو پروان چڑھانے میں صرف کرو۔ یوں یہ تصور اور درس دے کراہل مغرب نے امت کی مرکزیت کو توڑا، خلافت کو ختم کیا، ایک دوسرے کے احساس ، ہمدردی کے جذ بات کو کچل کر خاک میں گاڑ دیا اور ان کی غیرت کا جنازہ نکال دیا۔اورپھر اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ پوری امت کو چھوٹی چھوٹی خودمختاری ریاستوں میں بانٹ کر ان ریاستوں میں بھی انتشار اور نفرت کے بیج بونا شروع کر دئیے لسانی و نسلی بنیادوں پرکہ تم عربی ہو ، تمہاری نسل دوسروں سے اعلیٰ و برتر ہے، تم فارسی ہو،تم ازبک ہو، تم ترکش ہو، تم کرد ہو، تم افغانی ہو، تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امت کو الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹ کے قومی، لسانی، نسلی ، قبائلی غرور ڈالا جا رہا ہے کہ تم ان کے مفاد کے خلاف کسی کے آگے نہ جھکنے، سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہ ہونا خواہ وہ تمہارا حقیقی خدا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانہ دین نبوی ﷺ ہے
مسلمانوں کو پہلے تو وطن و قوم کے نام پر مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیاپھر مسلمانوں کو مختلف دینی اور مذہبی عقائد میں تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ مختلف آئمہ دین کے قائل و مقلیدلوگوں کو اکسایا کہ تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی ہو، اور صرف یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے کئی کئی جماعتیں اور گروہ بنا دئیے۔ ہر کسی کا اپنا امیر و امام مقرر کیا کہ تم اپنا الگ الگ مسلک، عقیدہ کا نظام، سسٹم اور تحریکیں چلاؤ اور ایک دوسرے کے مخالف جذبات کو بھڑکاؤ اور اتحاد و یکجہتی کی وباء تک نہ پھیلنے دو۔ آج ہر کوئی اپنی قوم، اپنے رنگ، اپنی نسل اور اپنے نظریے کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ برتری صرف اس کے ہاں پائی جاتی ہے اور باقی سب کمتر ہیں۔ یہی تفاخر اور غرور آگے چل کر نفرتوں، چپقلشوں، مقابلوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرجاتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا امن برباد ہوتا جا رہاہے۔
تعمیر کیلئے تخریب کرنا ، مسلمانوں میں انتشار و مخالفت کے جذبات کو بھڑکاناکفار، یہود و نصاریٰ کی پرانی روش ہے جو حضور ﷺ کے ظاہری دور سے ہی چلی آتی ہے مگر افسوس کہ مسلمان چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود اپنے ازلی دینی دشمنوں کے نہیں پہچان سکے اور نہ ہی ان کی تیز دھار یلغار کے طریقے کو سمجھ سکے۔ابتداء سے لے کر آج تک کے مسلمان انہی زہریلے سانپوں سے ڈستے چلے آئے اور آج تک اسی عطارکے لونڈے سے دواء لینے پر مصر ہیں۔
حضور ﷺ کے ظاہری دور میں یہود میں مرشاس بن قیس نامی شخص مسلمانوں سے سخت دشمنی رکھتا تھا اس نے جب انصار میں محبت اور الفت کا معاملہ دیکھا تو اس نے ایک یہودی نوجوان سے کہا کہ تم ان کے درمیان بیٹھ کر جنگ بعاث کا ذکر کرو جو ماضی میں انصار کے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان لڑی گئی تھی تاکہ ان کی محبت اور الفت قوم پرستی کے جذبے سے مغلوب ہوکر ختم ہوجائے۔ اس نوجوان نے مسلمانوں میں بیٹھ کر وہی ذکر چھیڑا اور آگ بھڑکائی یہاں تک کہ انصار کے دونوں قبائل میں سخت کلامی شروع ہوگئی اور ہتھیار اٹھا کرپھر جنگ کرنے تک اتر آئے۔ یہ خبر جب حضور ﷺتک پہنچی تو آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف لائے اور فرمایا اے مسلمانوں! یہ کیا حرکت ہے کہ تم جاہلیت کے دعوے کرتے ہو حالانکہ میں تمہارے اندر موجود ہوں اور خدا نے تمہیں ہدایت دے دی اور اسلام کی بزرگی بخشی اور جاہلیت کی سب باتیں تم سے ختم کردیں اورتمہاری آپس میں محبت اور الفت قائم کردی۔ اس وقت دونوں گروہوں کو معلوم ہوا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ تھا جس میں ہم مبتلا ہوگئے تھے پھر وہ رو پڑے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے لگے۔اسی طرح کا واقعہ ایک غزوہ میں رونما ہوا جب ایک انصاری اور مہاجر صحابی کے درمیان کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو دونوں نے اپنی اپنی قوم کو مدد کیلئے بلایا اس پر باہم لڑائی کی نوبت آپہنچی تو رسول اللہ ﷺنے ان کے اس قوم پرستی پر مبنی فعل کو جاہلیت کا نعرہ قرار دیا۔ اس کے بعد ان صحابہ کرام کے درمیان صلح ہوگئی اور وہ قوم پرستی کے اس نعرے پر نادم ہوئے۔
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو واحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے یہ قوم پرستی اسلام کی واحدت کو پاراپارا کردیتی ہے۔ ہمارے آقاو مولا ﷺ نے قوم پرستی، وطن پرستی کے نعرہ کو عملی طور پر خاک میں دفن کر دیا اور دین کو قوم اور وطن پر فوقیت دی ، دین کی اشاعت و تنفیذ کی خاطر اپنے وطن، قوم اور قبیلے تک کو ترک کر دیا۔ جبکہ ہم وطن اور قوم اور مفاد کی خاطر اپنے دین تک کو ترک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ایک مسلمان ان سب باتوں سے پہلے ایک مسلم ہے، جس نے بھی اللہ رب العزت کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا اور کلمہ پڑھا اور اس کی منشوعات کو پورا کیا وہ مسلمان ہو گیا اب اس کی جان و مال دوسرے مسلمان پر حرام ہوگئی اور حضور ﷺ نے سچا مومن مسلمان اس شخص کو قرار دیا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور پھر حضور ﷺ نے ایک مسلمان کی جان مال، عزت وآبرو اور عزت نفس کے تحفظ کوبیت اللہ کے تحفظ و حرمت سے بھی زیادہ بڑھ کر قرار دے دیا۔حضور ﷺ کا بیت اللہ شریف کی تکریم و حرمت سے بڑھ کر قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی غلطی سے بھی کسی مسلمان کی تنزلی و رسوائی کی جسارت نہ کر سکتے ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ آج کا مسلمان کعبے کی حرمت پر تو اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کو تیار ہے مگر اس سے بڑھ کر تکریم کے لائق مسلمانوں کی شہ رگیں کانٹے پے تلا ہے؟
ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے اور سب سے قیمتی چیز ایمان ہے اور ایمان کااولین تقاضا ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی جان ، مال، عزت و آبرو، مفاد کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دے اور کسی صورت ان سے پیچھے نہ ہٹے، ان کا سایہ ان دوسرے مسلمان بھائیوں پر بادل کے سائبان اور آسمان کی چھت کی طرح چھایا رہے ، وہ کسی بھی میدان میں خود کو تنہا اور بے یارو مددگار تصور نہ کریں۔
ہمارا دین اسلام کسی ذات پات، رنگ ،نسل اور قومیت کی فضیلت ، دولت کی کثرت اور سرحدی زمینی حقائق کو نہیں مانتا بلکہ صرف اورصرف تقویٰ اور پرہیزگاری کو ہی فضیلت کامعیار قرار دیتا ہے اورقوم پرستی کی بنیاد پر رونما ہونے والے اختلافات کا قلع قمع کرتا ہے ۔دین اسلام اپنے ماننے والوں کو علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچاتا ہے اور انہیں ایک ہی لڑی میں پرو کر بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کی تلقین کرتا ہے۔ہمارا دین ہمیں ایک قوم پرست گروہ بننے کی بجائے ایک امت بننے کا حکم دیتا ہے جو خالصتاً اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر اٹھے اور دنیا میں حق وصداقت کا پرچار کرے۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات ہمیں ہرقسم کے امتیاز سے بچ کر خالصتاً اللہ کا ہوجانے کی دعوت دیتی ہیں۔ یہ بات ہمارے لئے شرم کا باعث ہے کہ ہمارے پاس رشد و ہدایت کا نور،انوارات کا سرچشمہ ہوتے ہوئے بھی ہم نسلی، لسانی، قومی،علاقائی نفرتوں کے چپقلش میں پھنسے ہیں۔ اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں فیض یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر سے ہرقسم کے تعصبات اور امتیازات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے معاشرے کی یہ ضرورت ہے کہ نسلی اور قومی امتیازات کیخلاف دین اسلام کی ان تمام تعلیمات کو عام کیا جائے اور معاشرتی نظام کو عدل اور مساوات کے اسلامی اصولوں کے تحت استوار کیا جائے۔اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیں سیرت طیبہ اور خلافت رشدہ سے بہترین نصاب اور رول ماڈل کہیں اور نہیں مل سکتا، اور نہ اس سے بہتر دستور، نہ اس سے اچھا ضابطہ،نہ اس سے عمدہ طریق حیات کہیں سے مل سکتا ہے۔
آج یہود و نصاریٰ نے باہم مل کر نہایت ہوشیاری و چالاکی سے ہمارے راستوں میں اتنے زیادہ کانٹے اورجال بچھا دیے ہیں کہ ان کو کاٹنا مشکل سے مشکل تر ہوتاجارہا ہے اور مسلمانوں میں علم و شعور کی کمی کی وجہ سے اس عصبیت کو بہت چرچہ مل رہا ہے اور لوگ قوم پرست، خود غرض، خود نما، مفاد پرست رہنماوں، حکمرانوں کے دنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔یہ قوم پرست رہنماء کس کے کہنے پر امت کو باہم متحارب کرنے کی ناپاک جسارت کررہے ہیں، یہ اس دنیا میں تو شاید کچھ ذاتی فوائد حاصل کرلیں مگر ان ظالموں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ ایک انسان کی زندگی بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے اور ایک انسان کو بلاوجہ قتل کرنا گویا پوری انسانیت کا قتل کرنا ہے اور امت میں فتنہ پیدا کرناقتل سے بھی بدتر ہے اور قوم پرستی کی دعوت جاہلیت کی دعوت ہے۔قوم پرستی ایک خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی ہونا بہت ضروری ہے تبھی ہم اس خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان لے سکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی ہی نہیں پوری امت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں کررہے؟
عرب معاشرہ جو قوم پرستی کے رنگ میں رنگا ہوا تھاخالصتاً تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں قومیت کے بجائے وحدتِ امت کے فلسفے سے آشنا ہوا اور اس میں ایک مثال قائم کی، صحابہ کرام کی جماعت میں حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ، روم کے صہیب رضی اللہ عنہ،فارس کے سلمان رضی اللہ عنہ اور اشعرقبیلہ کے موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو وہی مقام حاصل تھا جوکسی بھی قریشی اور مقامی صحابہ کا تھا ۔ صحابہ کرام نے قومیت کے بدبودار اثرات کو زائل کیا۔ مختلف اقوام سے متعلقہ افراد رشتہ اسلام کی لڑی میں باہم جڑ کر کفر کے مقابل سیسہ پلائی دیوار بنے تو اللہ کی نصرت اتری اور بہت کم عرصہ میں اسلام چہار سمت پورے عالم میں پھیل گیا۔ آج بھی امت کے غلبے کا راز یہی ہے کہ’’ قومیت‘‘ کے تفرقوں میں بٹنے کی بجائے ’’امت‘‘ بننے کو ترجیح دیں۔ جب مسلمان قوم بٹنے کے بجائے ایک امت بنے گی تو ان کے غلبے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ یہ ایک سچی مومن و مسلم امت سے اللہ کریم کا سچا وعدہ ہے تو پھر اے مسلماں! اٹھ کھڑا ہو۔ قم باذن اللہ، قم باذن اللہ
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

نظّارہ دیرینہ پھر سے زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی! تو خاک میں اس بت کو ملادے

4۔ PEOLE'S SOVEREIGNTY یعنی جمہور کی حاکمیت
جمہور کی حاکمیت، لوگوں کی مطلق العنانی یعنی لوگوں کا خدا کے ہم پلہ قادر مطلق، مختار کل ہونا۔ جس طرح اللہ کریم قادر مطلق ہے جو چاہے کر سکتا ہے اسی طرح لوگوں کی اجتماعی سوچ، اجتماعی خواہش باہم مل کر ملک میں جو چاہے کر سکتی ہے، اپنی ضرورت کے مطابق جو چاہے قانون بنا سکتی ہے، جو چاہے قانون توڑ سکتی ہے خواہ وہ قرآن و حدیث کا فرمان ہی کیوں نہ ہو اور اس کا اصل مقصد ہی کاشانہ دین نبوی ﷺ میں غارت گری یعنی چھپ کر حملہ کرنا ہی ہے۔دین کے اصولوں کو توڑ کر لوگوں کو اپنی خواہش نفس کا تابع فرمان بنانا جمہوریت کے ہر اصول کی اصل منشاء ہے۔
جمہور کی حاکمیت (Sovereignty of the People )کے نظریہ کو ابتداء میں بادشاہوں اور جاگیر داروں کے اقتدار کی گرفت توڑنے کے لیے پیش کیاگیا تھا اور اس حد تک بات کسی طرح درست تھی کہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقہ کو لاکھوں کروڑوں انسانوں پر اپنی مرضی مسلط کردینے اور اپنی اغراض کے لیے انہیں استعمال کرنے کاکوئی حق نہیں ہے۔ ایک ایک ملک اور ایک ایک علاقے کے باشندے اپنے آپ حاکم اور اپنے آپ مالک ہیں۔ اسی نظریہ پر ترقی کر کے جمہوریت نے اب جو شکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی مرضی کی مختار کل ہے۔ اس کی مجموعی خواہش کو پابند کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے نہ قرآن نہ سنت نہ حدیث نہ کوئی فقہ۔ اخلاق ہو یا تمدن، معاشرت ہو یا سیاست، ہر چیز کے لیے برحق اصول وہ ہیں جو قومی خواہش سے طے پائیں، اور جن اصولوں کو قوم کی رائے عامہ رد کردے وہ باطل ہیں۔ قانون اور حکومت قوم کی مرضی پر منحصر ہے، جو قانون چاہے بنائے اور جس قانون کو چاہے توڑ دے یا بدل دے۔ حکومت قوم کی رضا کے مطابق بننی چاہیے، قوم ہی کی رضا کااسے پابند ہونا چاہیے اور اس کی پوری طاقت قومی خواہش کو پورا کرنے میں صرف ہونی چاہیے۔
یہ چوتھا اصول جمہور کی حاکمیت پہلے تینوں اصولوں کے ساتھ مل کر اس بلا کی تکمیل کردیتا ہے جسے موجودہ تہذیب میں جمہوریت کہتے ہیں۔ یہ چاروں تھیوریز، آئیڈیاز اور اصول مغرب کے پیش کردہ ہیں جو ناصرف ہمارے دین ، بلکہ ہر باشعور انسان کی عقل و فہم سے بالا تر انتہائی فرسودہ ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ پہلے تو سیکولر یعنی دین کی نجکاری، پرائیویٹ صرف اپنی ذات کی حد تک،پھر لبرل یعنی دین سے آزادی، لادینی نے ان لوگوں کو خدا کے خوف اور اخلاق کے مستقل اصولوں کی گرفت سے آزاد کرکے بے لگام اور غیر ذمہ دار اور بندہ نفس بنادیا ، پھرنیشنل ازم یعنی قوم پرستی نے ان کو شدید قسم کی قومی خود غرضی اور اندھی عصبیت اور قومی غرور کے نشے سے بدمست کردیا، اور اب یہ جمہوریت انہی بے لگام بدمست بندگانِ نفس کی خواہشات کو قانون سازی کے مکمل اختیارات دیتی ہے اور حکومت کا واحد مقصد یہ قرار دیتی ہے کہ اس کی طاقت ہر اس چیز کے حصول میں صرف ہو جس کی یہ لوگ اجتماعی طور پر خواہش کریں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کی خود مختار صاحب حاکمیت، اور باغی قوم کا حشر دنیا و آخرت میں حقیقی حاکم، مالک کل، مختار کل کے سامنے کیا ہو گا جس کے دین سے بغاوت پر مبنی نظام اپنایا؟ دنیا میں تو حقیقی قادر مطلق نے اس کے متعین کر دہ دین سے منہ موڑنے پر جو وعدہ فرمایا
فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ ےَضِلُّ وَلاَ یَشْقٰیo وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِےْشَۃً ضَنْکًا (طہ)
جس نے میری ہدایت (قرآن مجید) کی پیروی کی وہ نہ بہکے گا، نہ بھٹکے گااور نہ بد نصیب و بد بخت ہو گا، اور جس نے میرے ذکر (متعین کردہ ضابطہ حیات) سے انحراف کیااس کے لیے اس کی معیشت، زندگانی تنگ کر دی جائے گی۔
یہ تنگ زندگانی اور معیشت کا ضنکابجتا اس وقت ہمارے سامنے ہے جو پوری دنیا میں روز بروز مسلمانوں پر زندگانی تنگ ہوتی جا رہی ہے تما م تر وسائل و ذرائع اور افرادی قوت ہونے کے باوجود۔ جب اسی طرح دنیا میں ساری متمدن قومیں اسی ڈھنگ پر سیکولر،بے دینی، قوم پرستی اور جمہوریت کے اصولوں پر منظم ہوں اور اپنی من پسند خواہشات اور ارادوں کے تابع ہوں اور اپنی اپنی غرض اور مفادات کی جنگ لڑیں گی تو دنیا بد مست درندوں کا میدانِ جنگ نہ بنے گی تو اورکیابنے گی؟ جب کوئی ملک دینی اصولوں سے قطعی نظر مفاد پرستی اور خود غرضی کا قانون اپنائے گا تو اس کا ہر ہر شہری بھی مفاد پرست اور خود غرض ہی ثابت ہو گا اور اپنے مفاد کی تکمیل کیلئے دوسروں اور نسبتاً کمزور لوگوں کے حقوق کو غصب کرے گاتو پھر دنیا میں امن کیونکر قائم ہو گا جب کوئی امن و سلامتی کا ضابطہ ، اخلاقی رویہ ،حسن معاملات،برتاؤ اور برداشت کا کوئی اصول ہی نہ ہو؟ یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں اس نظامِ جمہوریت کو انتہائی فاسد اور کفر پر مبنی نظام سمجھتاہوں جوان چاروں مغربی مکاتب فکر کے اصولوں کی بنیادہے۔ میری عداوت اور دشمنی لادینی قومی جمہوری نظام سے ہے، خواہ اس کے قائم کرنے اور چلانے والے مغربی ہوں یا مشرقی، غیر مسلم ہوں یا نام نہاد مسلمان، جہاں، جس ملک اور جس قوم پر بھی یہ مسلط ہوگی، دنیا و آخرت میں رسوئی اور قہر خداوندی اس کا مقدر ہو گا۔
ذرا غور سے پڑھیے کہ یہود کی خفیہ دستاویزات ’’ The Protocols of the Learned Elders of Zion‘‘ میں جمہوریت بارے کیا لکھا ہے؟
’’نادان عوام سیاستدانوں کی ذہانت اور فطانت کو بڑی عقیدت اور ا حترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے تشدد تک کو مستحسن سمجھتے ہیں۔ یہ شیطانیت ہی ہے لیکن ہے کتنی ذہانت کے ساتھ۔ آپ اگر چاہیں تو اسے ایک چال کہہ سکتے ہیں لیکن ذرا سوچئے تو سہی یہ چال کتنی عیاری اورمکاری سے ساتھ چلی گئی۔اور کتنے شاندار طریقے سے مکمل کی گئی ہے۔ کتنی دیدہ و دلیری اور بیباکی کے ساتھ۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام ممالک یہ جدید ڈھانچہ قائم کرنا چاہیں گے جس کا منصوبہ ہم نے تیار کیا ہے۔۔۔۔۔ انتخابات، جنہیں ہم نے بڑی محنت اور جانفشانی سے بنی نوع انسان کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں جلسے کرا کرا کے اور گروہوں کے درمیان معاہدے کرا کے ذہین نشین کروایا ہے یہی انتخابات دنیا کی تخت نشینی کے حصول میں ہماری مدد کریں گے۔‘‘
(Protocols # 10 ۔ اقتدار کی تیاری، عام رائے دہندگی)
جمہوریت جس پر آج دنیا کا سیاسی ، معاشی نظام ، انتظامی نظام چل رہا ہے اس کے پیچھے چھپے مغرب کے یہ چار بنیادی حقائق اور اصول جو آپ کے سامنے رکھے یہ کسی بھی مہلک ہتھیار سے زیادہ خطرناک اور کارگر ثابت ہوئے ہیں، اہل مغرب جنہیں کسی بھی مہذب تہذیب کو کچلنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ان مہلک نظریات نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچایا، اس دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں،لوگوں کی مجموعی خواہش نے مل کر جس بدی کا مطالبہ کیا وہ انہیں قانونی طور پر میسر کی گئی۔ یوں پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔ترکی کی عظیم اسلامی خلافت عثمانیہ کو کچل کر ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں یہی ہتھیار استعمال ہوئے اور عظیم ریاست اسلامیہ ٹکڑوں میں بکھیر کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر دیا اور اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں لایا گیا، اسلامی ریاستوں کے سینہ پر یہودی ریاست خنجر کی طرح گھونپ دی گئی، اور اس کا نقشہ بھی بالکل خنجر نما ہی ہے جو ہر باشعور مسلمان کو واضح پیغام دے رہا ہے کہ یہ دھرتی اسلام کے سینہ پر خنجر مغرب کا گھونپا ہوا، مغرب کی نوازش، مغرب کا احسان و کرم ہی ہے اس کے باوجود مسلم حکمران خدا و ررسول ﷺ کو چھوڑ کر اسے اپنا خیرخواہ گردانتے ہیں اور اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مصر ہیں۔
دیکھ مسجد میں شکستہ رشتہ تسبیح شیخ
بت کدے میں برہمن کی پختہ زمناری بھی دیکھ
کافروں کی مسلم آئینی کا بھی نظارہ کر
اور اپنے مسلموں کی مسلم آزاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
مغرب کے ان عیارو مکار خاموش ہتھیاروں نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔ اسلام سے خلافت چھیننے میںیہ ہتھیار، اسلام سے مرکزیت چھیننے میںیہ ہتھیار ، مسلمانوں سے اسلامی طرز زندگی،اسلامی نظریہ حیات، اسلامی اصول و ضوابط، اسلامی اقدار و روایات،اسلامی تمدن چھیننے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں کو دین سے دور اور بیزار کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اسلامی اخوت، بھائی چارہ، ایک دوسرے کی ہمدردی، احساس، الفت و محبت کے جذبہ کو ختم کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اللہ و رسول ﷺ کی محبت اور دینی لگاؤ ختم کرنے میں یہ ہتھیار، مسلمانوں سے اسلامی فکراور غیرت کو خاک برد کرنے میں مغرب کے یہ خاموش ہتھیار استعمال ہوئے ۔اتنا کچھ دیکھنے کے باوجود ہم کتنے احمق اور کند ذہن ہیں جانوروں سے بھی بد تر کہ ابھی تک مغرب کی اس یلغار اور اس کی مکاری و عیاری کو سمجھ نہیں سکے اور ہمارے کم ظرف حکمران آج بھی بڑے سلیقے اور فخر سے ان کا نام لیتے، اپنی دم کٹوانے وہاں جاتے اور قوم کو ان پر آمادہ اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ حق بات بولتے ہیں، نہ حق سنتے ہیں نہ حق سمجھتے ہیں، کان، آنکھ، زبان اور دل و دماغ رکھتے ہیں مگر ان سے کام نہیں لیتے۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِےْنَ لَا ےَعْقِلُوْنَ o
’’ اور بیشک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے بدتر ہیں وہ لوگ جو حق بات سے بہرے اور گونگے بنتے ہیں جو عقل نہیں رکھتے۔‘‘
لَھُمْ قُلُوْبٌ لَا ےَفْقَھُوْن بِھَا وَلَھُمْ اَعْےُنٌ لَا ےُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَا ےَسْمَعُوْن بِھَا اُوْلٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَo
’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے ، ان کے پاس کان ہیں مگر ان سے سننے کاکام نہیں لیتے، یہ تو نرے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں۔
یہ بد نصیب خدا کے دین کے ساتھ کھلی بغاوت اور عداوت پر مبنی نظام’’ جمہوریت ‘‘کے لئے سب کچھ کرنے اور ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں مگر خدا کے دین کیلئے کچھ کرنے کا نام لیں تو انہیں موت پڑتی ہے اور ان کی نظریں فوراً اپنے حقیقی آقا اور مالک و مختار خداامریکہ و یورپ کی طرف جاتی ہیں کہ دین کی بات اور پھر وہ بھی ’’اسلام‘‘ نہ نہ اس کا نام لینے سے وہ (ان کے باطل خدا)نہ صرف ناراض بلکہ غضب ناک ہو ں گے اور حقیقی خدا کی ناراضگی اور غضب ناکی کا انہیں نہ کوئی ڈر ہے نہ کوئی احساس کہ اس نے بھی کوئی حساب کتاب لینا ہے اگر وہ دنیا میں کسی مصلحت کے تحت ان کو ڈھیل دے رہا ہے تو آخرت میں تو ایک ایک قطرہ خون، ایک ایک پائی مال،ملکی وسائل، اور ریاست کے ایک ایک فرد کے حقوق کا ان سے حساب لے گا کہ تمہیں ذمہ داری دی تم نے ان کے حقوق کا کہاں تک تحفظ اور دفاع کیااور معاشرہ کے ایک ایک فرد کو کہاں تک سہولتیں اور امن و سکون فراہم کیا،یہ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ حساب کتاب ہلکا ہوگا۔ اگریہ لوگ آخرت کے حساب کا خوف نہیں رکھتے اور ان کے دلوں میں حقیقی خدا کے خوف سے زیادہ امریکہ و یورپ کا خوف ہے تو ماننا پڑے گا کہ ان کا یوم حساب پر اعتقاد ، ایمان اور یقین ہی نہیں ہے۔
خدا کے دین کے ساتھ کھلی بغاوت اور انحراف کے نظام جمہوریت پر قربان ہو کر اگر ان کا کوئی مر جائے تو اسے قوم کے شہید کا رتبہ دیتے ہیں اور عوامی مقامات کو ان کے ناموں سے منسوب کرتے ہیں تاکہ خدا کے دین کے غدار کا نام باقی رہے۔ کس خدا اور رسول نے یہ سنددی کہ خدائے حقیقی کے سچے دین اور اس کے رسول ﷺ کی شریعت کاملہ کے خلاف خاموش جنگ اور بغاوت، دینی اصولوں سے انحراف اور غداری کے نظام پرقربان ہونے اور جان دینے والا شہید ہے؟ کیا کوئی بتا سکے گا اس خدا کا نام جو حقیقی خدا کے حقیقی دین سے انحراف کرنے اور کرانے والے کو شہید کہتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا آیات کے مستدرک اور مخاطب ہم سب آج کے مسلمان، اور خاص طور پر ہمارے نااہل ، کم ظرف اور احمق حکمران ہیں جن میں ذرا شعور اور سمجھ ہی نہیں، ان کے پاس دل ہیں سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان سنتے نہیں، بہرے، گونگے، اندھے جانور۔ کئی صدیاں بیت گئیں انہیں ذلیل و خوار ہوتے اور دن بدن پستی کی طرف جاتے ہوئے لیکن ابھی تک ہم مغرب کی یلغار اور طریقہ واردات اور ان کے خاموش ہتھیاروں کے خلاف قوم میں شعور اور فہم پیدا نہیں کرسکے اور نہ ان کے مد مقابل صف آراء ہوئے بلکہ ان کا شکار ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہم عملی زندگی میں انہی کو اپنائے ہوئے ہیں۔
اے لوگو! اے اللہ عزوجل اوراس کے پیارے رسول ﷺپر ایمان کا دعویٰ کرنے والو!بتاؤ کہ ہم نے مظلوم ، بے سہار ااور بے قصور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں ظالم کی اتنی مدد کی اور روئے زمین پر ، رب کریم کی کائنات پر طاغوت ، سرکش شیطان ، سامراجی قوتوں کی حکمرانی اور اجارہ داری قائم کرنے میں ہم نے اب تک کتنی معاونت کی ؟ کیا ایک مسلمان دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے دین کی بالادستی قائم کرنے کی بجائے شیطان کی حکمرانی اور بالادستی قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان ہر وہ کام جو وہ اپنے رب کے ا حکام و ہدایات اور حدود سے قطع نظر کر کے کسی اور طریقے پر انجام دیتا ہے تو شیطان ہی اس کا آقا ہے اور وہ اس کا آلہ کار اور ایجنٹ ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی بجائے اس کی نافرمانی کے طریقے کو دنیا میں رائج کرنے اور معاشرہ میں اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتاہے۔
ہم مسلمانوں کے پاس خالق کائنات کا دیا ہوا ایک مستقل اور مکمل طرز زندگی اور نظام حیات موجود ہے جو ہر قسم کی خامیوں، کوتاہیوں سے نہ صرف پاک ہے بلکہ اتنا بلنداور ترقی یافتہ بھی ہے کہ جہاں انسانی عقل و دانش کی منزل ختم ہوتی ہے وہاں سے بہت آگے اس کی ابتدا ہوتی ہے۔جمہوریت کے دعویدار بھی اس بات کا برملااعتراف کرتے ہیں کہ جمہوریت خامیوں سے پر ہے او رمسلمہ اقدار کے حصول میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے لیکن جاننے کے باوجود ہم اس کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ، ہم نے اپنے اچھے برے اور قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار چند پارٹیوں اور سیاسی دوکانداروں کو سونپ رکھا ہے جنہوں نے آمریت کے رنگ کو جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ڈھانپ رکھا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی نام نہاد جمہوریت کے نام پر لوٹ رہا ہے تو کوئی اسلام کے نام پر۔ جس کو عوام کو بیوقوف بنانے کا زیادہ طریقہ آتا ہے وہی زیادہ لوٹ مار کر کے لے جاتا ہے۔ ابھی تک تو عوام نے اصل جمہوریت نہ ہی دیکھی ہے نہ ہی چکھی ہے۔
خلافت کا آغاز انسانی زندگی کا ہم زماں ہے ۔ بہ عبارت دیگر مشیت الٰہی نے جب پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کے وجود خاکی کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو ساتھ ہی ملائکہ کو یہ وعید سنائی
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِےْفَۃً ط
’’میں زمین پر اپنا نائب ( خلیفہ ) مقرر کرنے والا ہوں۔‘‘
تخلیق آدم کا مقصد کرہ ارض پر خلافت الٰہی کا قیام تھا ۔ گویا کہ اللہ رب العزت نے چاہاکہ زمین پر تمام مخلوقات کی بھلائی و بہتری کیلئے اپنا نائب اور خلیفہ بھیج دیں تا کہ وہاں کی زندگی اور دیگر معاملات کو قدرت الٰہی کے دھارے میں شامل کر کے ان کیلئے راحت و آسودگی کا سامان فراہم کرے۔ قرآنی آیات اور احادیث نبوی ﷺ سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ خلافت اللہ تعالیٰ کے احکامات و ہدایات کی تعمیل ،فرمانبرداری اور اطاعت کو مضبوط اور موثر بنانے کیلئے ایک میکانیزم (Mechanism) کا نام ہے ، اس کا سربراہ جسے عرف عام میں خلیفہ یاامیرالمومنین کا کہا جاتا ہے محض احکام الٰہی کی تعمیل اور تنفیذ کانگران ہوتا ہے وہ سوائے اپنے رب کے احکام و ہدایات اور سیرت طیبہ یا نصوص کی روشنی میں اجتہاد کے علاوہ اپنی طرف سے کوئی حکم یا قانون نافذ نہیں کر سکتا،اس کے بر عکس جمہوریت ، ملوکیت اور آمریت انتہائی مردود، فرسودہ اور ناقابل اعتبار شیطانی نظام کے داعی ہیں اور یہ امت مسلمہ کی طرزِ زندگی سے کسی صورت بھی مطابقت و موافقت نہیں رکھتے ۔حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

خلافت فقر با تاج و سریراست
زہے دولت کہ پایاں ناپذیر است

جوان بختا ! مدہ از دست این فقر
کہ جزا و پادشاہی زد و میر است

یعنی خلافت در حقیقت تاج و تخت کے ساتھ فقیری و درویشی کا نام ہے اورخلافت وہ عجیب دولت ہے جو زوال ناپذیر ہے ۔ اے جوان بخت ! اس فقر در خلافت کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دینا کیونکہ اس کے بغیر سلطنت اور بادشاہت جلد مر مٹنے والی چیزیں ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں ۔

خلافت بر مقام ما گواہی است
ملو کیت ہمہ مکر است و نیرنگ

حرام است آنچہ برما پادشاہی است
خلافت حفظ ناموس الٰہی است

یعنی خلافت ہماری رفعت و شان ، عزت و وقار اور علوم ومقام پر گواہ ہے اور جو چیز ہم پر حرام ہے وہ پادشاہی(ملوکیت ) ہے ، جمہوریت و ملوکیت سب مکر و چالاکی اور فریب ہے جبکہ خلافت ناموس الٰہی کی محافظ اور پاسبان ہے۔
حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ ان خود غرض ملوک و سلاطین سے تنگ آکر اس امید میں تھے کہ ایک فقیر بے کلاہ ، بے گلیم ایک نہ ایک دن ضرور ان خود غرضوں سے مشت و گریباں ہوگا۔ جمہوریت ، ملوکیت اور آمریت سے الجھ جائے گا اور ان کی جعلی خدائی کوزمین بوس کرکے چراغ خلافت کو اپنے خون سے روشن کرے گا ۔

در افتد با ملوکیت کلیمے
گہے با شد کہ بازی ہائے تقدیر

فقیرے بے کلاہ بے گلیمے
بگیر دکار مرمر از نسیمے

اے ملت اسلام کے درخشاں اقبال!
ہم تیری امنگوں کا نشان بن کے رہیں گے
اے لوگو ! اٹھو ، اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم ان خود غرض ملوک و سلاطین سے الجھ جائیں، ان سے تصادم مول لیں ، ان کے غرور و تکبیر کو خاک میں ملا دیں ، قرآن و سنت کو جلوہ گر کریں ، دنیا میں حقیقی عالمی اسلامی فلاحی انقلاب برپا کریں ، دنیا کو امن و سلامتی ،سکون و اطمینان کا گہوارہ بنائیں ،دنیا میں حقیقی عالمی اسلامی فلاحی نظام حیات کی بنیاد رکھیں اور حق کی بالا دستی قائم کریں ۔
تمام مسلمان ، تمام فرقے ، تمام گروہ ، تمام اسلامی ریاستیں اپنے تمام باہمی اختلافات اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے نام پر ، ان کی رضا کی خاطر ، صرف اور صرف اسلام اوراہل اسلام کی عظمت ، سربلندی، عزت ووقار اور سلامتی و بقاء کی خاطر ایک مرکز پر اکٹھے ہو جائیں ، آپس میں باہمی تعاون، اتحاد ، اتفاق،اخوت ،ہمدردی و مساوات کو فروغ دیں کیونکہ آج جتنی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے شاید کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھی ۔

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 102 Articles with 119106 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More