چودھری غلام عباس مرحوم اور آج کے'' سیاسی استاد'' !

اس مرتبہ چودھری غلام عباس مرحوم کی برسی کے موقع پر یہ عجیب بات ہوئی کہ آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے مرحوم رہنما کے مزار پہ منعقدہ مسلم کانفرنس کے جلسے میں شرکت کی اور اسی دن کشمیر ہائو س اسلام آباد کے سبزہ زار میں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کے زیر اہتمام برسی کے حوالے سے جماعتی جلسہ کیا گیا۔چودھری غلام عباس مرحوم کی برسی کی تقریب کے موقع پر ان کے مزار پہ منعقدہ مسلم کانفرنس کے جلسے سے آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم نے بھی خطاب کیا اورمزار کی تعمیر نو اور چودھری غلام عباس مرحوم کی رہائش گاہ کو محفوظ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔بقول آ زاد کشمیر کی سیاست سے وابستہ ایک سیاست دان کے کہ گزشتہ چند عشروں میں نظریاتی سیاست کرنے والے سادہ افراد کو کیا پتہ تھا کہ سیاست کیا ہوتی ہے،سیاست تو یہ ہوتی ہے جو بقول ان کے وہ بذات خود کر تے چلے آ رہے ہیں۔ واقعی آزاد کشمیر کی سیاست کرنے والے ایسے ہی چند دیگر سیاست دان چودھری غلام عباس مرحوم کے'' سیاسی استاد'' ثابت ہو رہے ہیں۔چودھری صاحب کو اگر '' سیاست'' کا پتہ ہوتا تو آج ان کے گھر کو قائم رکھنے اوران کے مقبرے کی زمین بچانے کی فکر لاحق نہ ہوتی ۔ چودھری صاحب کو اگر آج کے آزاد کشمیر کے بالخصوص چند سیاست دانوں کی ''استادی'' سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل ہوتی تو آج چودھری صاحب کا خاندان '' کاروبار سیاست'' میں ڈنکے بجا رہا ہوتا۔کبھی کبھی تو ترس بھی آتا ہے کہ کیسے بیوقوف تھے کہ نظرئیے پر باکردار انداز میں چلتے رہے اور اپنے ساتھیوں کو بھی چلانے کی کوشش کرتے رہے،یہ تو آج کے چند سیاست دان بطور خاص جانتے ہیں کہ سیاست کیا ہوتی ہے ، کس کس کے ساتھ کیسے کیسے کی جا سکتی ہے اور اس سیاست سے 'ملٹی پرپز'' مفادات کیسے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔چودھری غلام عباس مرحوم کو اگر اپنی زندگی میں ایسے استاد سیاست دانوں کی استادی میسر ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ وہ جسم پر چولا اور گلے میں مالائیںپہن کر دنیا سے سنیاس لے لیتے کہ ایسے سیاست دانوں کے ہوتے انہیں سیاست ہی نہیں امور دنیا کو بھی ترک کر دینا چاہئے۔

کشمیر ہائوس میں منعقدہ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے جلسے میں '' وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار'' کے عنوان سے ایک قرار داد پیش اور منظور کی گئی۔یہ قرار داد خوشامدی انداز میں غیر مناسب طور پر غلط بیانی کے انداز میں تیار کی گئی، جس سے مسلم لیگ(ن) آزادکشمیر میں مروج طرز فکر و عمل کے احوال و اطوار بھی واضح ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔ کیا وزیر اعظم آزاد کشمیر،صدر مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر کی قیادت سے متعلق کوئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں کہ جو مکمل اعتماد کے اظہار کی ضرورت محسوس کی گئی؟اس قرار داد میں دعوی تو کیا گیا ہے لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ آزاد کشمیر حکومت نے کس طرح تحریک آزادی کشمیر کو عالمی سطح پر'' موثر طریقے'' سے اجاگر کیا ہے؟کشمیر ہائوس میںچودھری غلام عباس کی برسی کے حوالے سے منعقدہ جلسے کو یوں ایک تاریخی اجتماع قرار دیا گیا جس طرح ہمارے پرائیویٹ ٹی وی چینل تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بریکنگ نیوز کا دھماکہ کرتے ہیں یا جس طرح ہمارے بعض سیاست دانوں کے زیر اہتمام ملین مارچ کیا جاتا ہے۔ کیا آزاد خطے میں واقعی اچھا حکومتی نظم ونسق قائم ہو گیا ہے؟ کیا واقعی میرٹ کی بحالی ہو چکی ہے؟ اگر واقعی ایسا ہو گیا ہے تو آزاد کشمیر کے عوام کو اجتماعی طور پر شکرانے کے نفل ادا کرنے چاہئیں۔لیکن اگر حکومتی عہدیداران کے بیانات کو ہی دیکھ لیں تو ایسی صورتحال نہیں ہے کہ جس کا اس قرارداد میں دعوی کرتے ہوئے جناب وزیر اعظم ،ان کی کابینہ کے وزرا اور اراکین اسمبلی کو مبارکباد پیش کی گئی ہے۔کیا حکومتی عہدیداران ، وزراء اور ارکان اسمبلی کی مالی مراعات میں غیر معمولی اضافہ بھی مالی ڈسپلن کے قیام کے ناگزیر تقاضوں میں شامل ہے؟اس قرار داد میںکس بے باکی سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ جموں و کشمیر لبریشن سیل کو اس کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے اقدامات کئے گئے ہیں ! اور اس'' کارہائے نمایاں '' پر خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔اب یہ واضح نہیں ہے کہ کشمیر لبریشن سیل کے قیام کے مقاصد کی بات ہو رہی ہے یا ان مقاصد کی بات ہو رہی ہے کہ جو ہر حکومت اپنے اپنے انداز میں کشمیر لبریشن سیل کی تقدیر بنا دیتی ہے؟

خدارا مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر میں خوشامدی،نمائشی ، غلامانہ اطاعت کے طریقوں کی ترویج نہ کی جائے۔مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر کو نواز شریف سے وابستہ گروپ کے ساتھ ساتھ ایک حقیقی سیاسی جماعت بنانے کے تقاضوں پر بھی توجہ دی جائے۔ یہ کہنا بے جا نہیں کہ مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کی مرکزی باڈی غیر فعال،مجلس عاملہ جلسہ عام ہے اور جماعت کو مروجہ تنظیمی سیاسیاصولوں، طور طریقوں کے بجائے کلی طور پر پارلیمانی پارٹی کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر میں اچھی روایات قائم کرنے پر بالکل بھی توجہ نہیں دی گئی۔غیر سنجیدہ نمائشی انداز،دھکم پیل کی سیاست،چل چلائو کا انداز۔ آزاد کشمیر میں اس جماعت کا قیام اصول پر مبنی واضح مقصد کے عزم سے وجود میں لایا گیا تھا لیکن اس میں بھی وہی طور طریقے نظر آتے ہیںکہ جن کی وجہ سے مسلم کانفرنس خراب اور برباد ہوئی ،بلکہ اس معاملے میں مسلم کانفرنس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ عہدیداربنائے جانے کے باوجود آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کو حقیقی طورسیاسی جماعت بنانے پر توجہ نہیں دی گئی اور گروپوں کی سیاست ہی محیط ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609689 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More