ڈیفالٹ پراسس

انسان کو اشرف المخلوقات کہاگیاہے۔قدرت نے اسے بے پناہ طاقت بھی بخشی او ربے انتہا بے بسی بھی۔اگر وہ ٹکرلینے پہ آتاہے تو بڑے بڑے پہاڑوں سے جا ٹکراتاہے۔اگر وہ کم ہمتی پہ آئے تو ایک چھوٹے سے کاکروچ سے چھپتا پھرے۔انسان کی تمام عمر اسی بہادری اور بے ہمتی کی تصویر ہے۔قدرت اس کی ہمت او رکم ہمتی سے بے خبر نہیں۔اس لیے نظام حیات کو ایک خاص طرز سے ترتیب دیا گیا۔انسان کی طاقت کو مد نظر رکھ کر نظام حیات میں ہزاروں مداخلتوں کی بھی گنجائش رکھی۔یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ ایک کم ہمت اور جلد حوصلہ ہار جانے والا ہے۔نظام حیات کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ایک طرح کا خود کارسسٹم بھی قائم کردیا۔یہ بندو بست رکھا گیاکہ اگر ایک عرسہ تک کوئی تحرک،کوئی ہلچل نہ ہو تو بھی نظام رواں دواں رہے۔اپنی لگی بندھی ڈگر پر چلتارہے۔اس ڈیفالٹ پراسس کی اپنی ایک ترتیب ہوتی ہے۔یہ ترتیب انسانی ضروتوں اور جزبات سے بے نیاز ہوتی ہے۔اس کی اپنی چال ہوتی ہے، اپنا مقصد۔انسان جب بھی غیر فعال ہوایا بے گانگی میں گھرا۔نظا م حیات اسی ڈیفالٹ پراسس کے مطابق چلنے لگا۔جب تک کوئی بڑی مداخلت یا ہلچل نہ ہوئی یہ ڈیفالٹ پراسس جاری رہتاہے۔پاکستان میں بھی معاملات ایک عرصے سے ڈیفالٹ پراسس پر چل رہے ہیں۔حقیقی حکمرانوں کی بے ہمت اور کمزور پرفارمنس سے جو خلا پیدا ہوا۔اسے یہ ڈیفالٹ پراسس اپنے انداز میں پر کرتارہا ہے۔ریاستی اداروں کے اس بے سمت اور بے ترتیب چلنے سے مطلوبہ نتائج برامد نہیں ہو پارہے۔وہ ہلچل جو اس ڈیفالٹ پوزیشن سے معاملات کو نکالنے اور اپنے مطلوبہ ڈگر پر ڈالنے کے لیے درکار ہے ہم مہیان نہیں کرپارہے۔اس سبب ادارے غیر فعال او ربوجھ بنتے چلے جارہے ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دھرنے کے پیچھے ہم نہیں۔اگر ایسا ثابت ہوجائے تو استعفیٰ دے دوں گا،دھرنے والوں کے چار مطالبات تھے۔بعد میں ایک رہ گیا۔پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے۔ٹیلی ویژن پرتبصرے کرنے والے ریٹائرڈ آفیسر زہمارے ترجمان نہیں۔آئین میں فوج کے کردار سے مطمئن ہوں َ۔آپ لوگ پالیسی بنائیں۔ہم عمل کریں گے۔ملک میں صدارتی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

آرمی چیف نے پارلیمنٹ کو سب سے بڑا قرار دیا ہے۔کہا ہے کہ پالیسی بنائیں۔ہم عمل کریں گے۔ان کی باتیں بڑی خوش کن ہیں۔انہوں نے پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھے لوگوں پر ساری ذمہ داری ڈال دی ہے۔تمام معاملات کے سموتھ انداز میں چلنے کا تاثر دیاہے۔آپ کی باتیں بڑی خوش کن ہیں۔مگرکیا زمینی حقائق ان سے میل بھی کھاتے ہیں۔یو وہ کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ دھرنوں میں فوج کے کسی کردار کے ثبوت نوشتہ دیوار تو نہیں ہیں۔مگر جانے کیوں کچھ لوگ قصدا دھرنوں میں فوج کے رول کا تاثر دینے میں کامیاب رہے۔اس قدر تسلسل سے پاک فوج کو دھرنوں میں ڈسکس کیا گیا۔جو دھرنوں کی پشت پناہی ہونے کا تصور پیدا کرتارہا۔دھرنا اول نہیں ہوا تھا۔اس سے قبل ہی فوج کو معاملات میں گھسیٹے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔جب علامہ طاہر القادری وطن واپس آئے تو انہوں نے باوجود ملک میں آئین حکومت اور ادارے ہونے کے باغیانہ روش اختیا ر کرتے ہوئے صرف اور صر ف آرمی سے مدد کی رٹ لگائے رکھی۔بعد میں عمران خاں نے بھی یہی پراپیگنڈا کیا۔ تحریک انصا ف نے دھرنے کے دوران روزانہ کی بنیا د پر تھرڈ ایمپائر کی انگلی کا ذکر کیا تو تب بھی کچھ لوگ دبے دبے الفاظ میں دھرنے والوں کو کسی کی سپورٹ کی بات کیا کرتے تھے۔اب جب کہ فیض آباددھرناختم ہوا توتب بھی معاہدے پر فوج کے شکریے کا ذکر ضروری خیال کیا گیا۔ تاریخ دھرنے والوں کی فوج کے حق میں مدح ثنائی سے بھری پڑی ہے۔جانے کیوں یہ ادارہ کنفیوژن کیااس دور میں خاموش رہا۔یہ خاموشی دھرنے والوں کوکسی نیم رضامندی کاپیغام دے کر حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ان دنوں مسلم لیگ ن کی حکومت کو جو مشکلات درپیش ہیں۔کچھ لوگ اس کے بارے میں بھی منفی پراپیگنڈا پھیلارہے ہیں۔غیر ضروری طور پر فوج کے ساتھ کھڑے ہونے کی بیان بازیاں کرکے فوج اور حکومت کے درمیان کسی جنگ کا تاثر دیا جارہاہے۔کچھ ایسی تصویر دکھائی جارہی ہے جیسے نوازشریف کو فوج کسی طور برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔باجوہ صاحب کے ادارے کی طرف سے جب تک موقع کی مناسبت سے بروقت وضاحت نہ جاری ہوگی۔کچھ شیطان صفت لوگ ا س کی خاموشی اور چپ کو اپنا الوسیدھا کرنے کا ذریعہ بناتے رہیں گے۔جب معاملات پر لاتعلقی اور خاموشیاں طاری ہوجائیں تووہ ڈیفالٹ پراسس کے مطابق چلنے لگتے ہیں۔ڈیفالٹ پراسس اپنی وضاحتیں او رسمتیں متعین کرتاہے۔اور وہی کچھ ہوتا رہتاہے جو آج ہورہا ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124649 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.