توہین رسالت کا قانون

پاکستان میں قادیانیوں کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح ملک سے توہین رسالت ﷺ کا قانون ختم کرایاجائے تاکہ ان کو کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ چونکہ توہین رسالت کا قانون اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور اس قانون کی موجودگی میں وہ اپنے گمراہ کن عقائد کی اعلانیہ تبلیغ نہیں کرسکتے ہیں اسی لیے وہ توہین رسالت کے قانون کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں اورگزشتہ سال پنجاب میں ہونے والے دوواقعات کے بعد جس طرح گورنرپنجاب‘ نام نہاد این جی اوزاورایک اقلیتی رکن اسمبلی کی جانب سے اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کیاگیاہے اس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ ان واقعات میں کہیں قادیانی لابی تو ملوث نہیں ہے اور وہ اس طرح کے عیسائی مسلم فسادات کی آڑ میں اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ جب بات قادیانیوں کی آتی ہے تو یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہت سے لوگوں کے نزدیک قادیانیوں کا مسئلہ صرف چند عقائد تک محدود ہے اور وہ لوگ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک قادیانیوں کے خلاف بات کرنا تفرقہ پھیلاناہے۔ ان حضرات کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ قادیانیوں کو مسلمان سمجھنے کی غلطی کرنے سے پہلے ان کے عقائد ولٹریچرکا مطالعہ کریں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ آیا یہ واقعی مسلمانوں کا گروہ ہے یا امت مسلمہ کے غداروں کا گروہ ہے۔ یادرکھیں کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور بطور مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نبی اکرمﷺ آخری نبی ہیں آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکاہے ۔ اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو فرد عقیدہ ختم نبوت کو نہیں مانتا وہ امت مسلمہ سے خارج ہے کجا یہ کہ کوئی فردخودنبوت کا دعویٰ کردے۔ کراچی وحیدرآباد میں علماءکو مجبورکیاجارہاہے کہ قادیانیوں کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔ گزشتہ سال کراچی میں لیاقت آباد دس نمبرپر واقع جامع مسجد شہداءکے خطیب قاضی احمدنورانی کو خطبہ جمعہ سے روک دیاگیا اور مسجدکمیٹی کو مجبورکیاگیاکہ وہ ان کو مسجد میں خطبہ کی اجازت نہ دے۔ قاضی احمد نورانی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ایک جمعہ کو اپنے خطبے میں متحدہ کے قائد الطاف حسین کے بیان کی مذمت کی تھی اور لوگوں کو قادیانی عقائدکے بارے میں بتایاتھا۔ رواں ماہ لیاقت آباد دونمبرکی ایک اور مسجد رحمانیہ میں بھی یہی کہاگیاکہ جمعہ دواکتوبرکو نماز جمعہ کے بعد رحمانیہ مسجد کے خطیب کے ساتھ تلخ کلامی کی گئی اور ان کو زدوکوب کیاگیا۔ ان کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ قادیانیوں کی مذمت کررہے تھے۔ اسی دن حیدرآباد میں بھی ایک مسجد میں خطیب صاحب کو اردومیں تقریرنہیں کرنے دی گئی اورنمازیوں کو جمعہ کی نمازکی ادائیگی سے روکاگیا اور صرف مخصوص لوگوں کو مسجد میں نمازاداکرنے دی گئی۔ (اخباری رپورٹ) اپریل 1974ءبمطابق ربیع الاول 1394ءمکہ مکرمہ میں تمام اسلامی ممالک ودیگر ممالک کی مسلم تنظیموں کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقدہوا‘ اس اجتماع میں قادیانیت کے بارے میں جو قرارداد منظورکی گئی۔ اس کا متن ہم ذیل میں پیش کررہے ہیں۔ قادیانیت ایک باطل فرقہ ہے جو اپنے اغراض خبیثہ کی تکمیل کے لیے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کی بنیادوں کو ڈھاناچاہتاہے۔ اسلام کے قطعی اصولوں سے اس کی مخالفت ان باتوں سے واضح ہے۔ (الف) اس فرقہ کے بانی کا دعویٰ نبوت کرنا۔ (ب) قرآنی آیات کی تحریف (ج) جہاد کے باطل ہونے کا فتویٰ دینا۔ قادیانیت کی داغ بیل برطانوی سامراج نے رکھی اور اسی نے اسے پروان چڑھایا۔ وہ سامراج کی سرپرستی میںسرگرم عمل ہے۔ قادیانی اسلام دشمن قوتوں کا ساتھ دے کر مسلمانوں کے ساتھ غداری کرتے ہیں اور ان طاقتوں کی مدد سے اسلام کے بنیادی عقائد میں تحریف وتبدیل اوربیخ کنی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً (1) دنیا میں مساجد کے نام پر اسلام دشمن طاقتوں کی کفالت سے ارتداد کے اڈے قائم کرنا۔ (ب) مدارس‘ اسکولوں‘ یتیم خانوں اور امدادی کیمپوں کے نام پرغیرمسلم قوتوں کی مدد سے انہی کے مقاصدکی تکمیل۔(ج) دنیابھرکی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تحریف شدہ نسخوں کی اشاعت وغیرہ۔ ان خطرات کے پیش نظرکانفرنس میں طے کیاگیاکہ دنیابھرکی ہراسلامی تنظیم اورجماعتوں کا فریضہ ہے کہ وہ قادیانیت اور اس کی قسم کی اسلام دشمن سرگرمیوں کی ‘ ان کے معابد‘یتیم خانوں وغیرہ کی کڑی نگرانی کریں اور ان کی تمام درپردہ سیاسی سرگرمیوں کا محاسبہ کریں اور اس کے بعد ان کے پھیلائے ہوئے جال‘ منصوبوں اور سازشوں سے بچنے کے لیے عالم اسلام کے سامنے انہیں پوری طرح بے نقاب کیاجائے۔ نیز۔ (الف) اس گروہ کے کافر اور خارج ازاسلام ہونے کا اعلان کیاجائے اوریہ کہ اس وجہ سے انہیں مقامات مقدسہ حرمین وغیرہ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جاسکے گی۔ مسلمان قادیانیوں سے کسی قسم کا معاملہ نہیں کریں گے اور اقتصادی‘ معاشرتی‘ اجتماعی‘ عائلی‘وغیرہ ہرمیدان میں ان کا بائیکاٹ کیاجائے گا۔ (ب) کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ قادیانیوں کی ہرقسم کی سرگرمیوں پرپابندی لگائیں۔ ان کے تمام وسائل وذرائع کو ضبط کیاجائے اور کسی قادیانی کو کسی اسلامی ملک میں کسی بھی قسم کا ذمہ دارانہ عہدہ نہ دیاجائے۔ (ج) قران مجید میں قادیانیوں کی تحریف کی تحریفات سے لوگوں کوخبردارکیاجائے۔ اور ان کے تمام تراجم قرآن کا شمارکرکے لوگوں کو ان سے متنبہ کیاجائے اور ان کے تراجم کی ترویج کا انسداد کیاجائے۔ قادیانیوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجاتاہے اور ان کے ساتھ تعصب برتاجاتاہے۔ جب کہ قادیانیوں کے حامی وہمدرد لوگ اس پروپیگنڈے سے متاثرہوکر یاجان بوجھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ”انتہا پسندعلمائ“ نے اپنی اجارہ داری کے لیے اپنے مخالف فرقے کو امت مسلمہ سے خارج قراردے دیاہے۔ ایسی سوچ رکھنے والے دراصل مسلمانوں کے مختلف گروہوں اورغیرمسلم گروہ میں فرق نہیں محسوس کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جس طرح شیعہ‘ سنی ‘حنفی ‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی ‘بریلوی ‘ دیوبندی‘ اہلحدیث وغیرہ مسلمانوں کے مختلف فرقے ہیں اسی طرح قادیانی بھی ان کے نزدیک مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہے۔ ان کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بات بھی عرض کردیں کہ مسلمانوں نے تو بہت بعد میں جاکر قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں کا نوٹس لیا‘ اور کافی عرصے کے بعد اس گروہ کو غیرمسلم قراردینے کا مطالبہ کیا جبکہ خود قادیانیوں کی جانب سے روزاول سے ہی خودکو مسلمانوں سے الگ امت کا تصورکیاجاتاہے۔ 30 جولائی 1931ءکے الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک اور تقریر شائع ہوئی ہے جس میں وہ اس بحث کا ذکرکرتے ہیں جو مرزا غلام احمد کی زندگی میں اس مسئلہ پر چھڑگئی تھی کہ احمدیوں کو اپنا ایک الگ مدرسہ دینیات قائم کرنا چاہیے۔ یا نہیں؟ اس وقت ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ ”ہم میں اور دوسرے مسلمانوں میں چند مسائل کا اختلاف ہے‘ ان مسائل کو حضرت مسیح موعودنے حل کردیاہے اور ان کے دلائل بتادیے ہیں ‘ باقی باتیں دوسرے مدرسوں سے بھی سیکھی جاسکتی ہیں ۔“ دوسرا گروہ اس کے برعکس رائے رکھتا تھا۔ اس دوران میں مرزا غلام احمد آگئے اور انہوں نے یہ ماجرا سن کر اپنا فیصلہ سنادیا اس فیصلے کو خلیفہ صاحب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں ”یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا چند اور مسائل میں ہے‘ آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات‘ رسول کریمﷺ قرآن ‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰة‘ غرض آپ نے تفصیل سے بتایاکہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے۔“ (رسالہ الفضل 30 جولائی 1931ءبحوالہ قادیانی مسئلہ ازمولانا ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ 10)۔ ”حضرت مسیح موعودنے غیراحمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھاہے جو نبی کریم نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیراحمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں‘ ان کو لڑکیاں دینا حرام قراردیاگیا‘ ان کے جنازے پڑھنے سے روکاگیا‘ اب باقی کیارہ گیا جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں؟ تعلقات دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک دینی‘ اوردوسرے دنیوی‘ دینی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے سویہ دونوں ہمارے لیے حرام قراردیے گئے ہیں۔ اگرکہوکہ ہم کوان کی ان لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں توکہتاہوں نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے‘ اور اگریہ کہو کہ غیراحمدیوں کو سلام کیوں کیاجاتاہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم نے یہودتک کو سلام کا جواب دیاہے۔ (خطاب مرزا محمود الفضل جلد 9نمبر13 بحوالہ قادیانیت ایک دہشت گرد تنظیم ازمحمدخالد متین صفحہ نمبر55‘ قادیانی مسئلہ ازمولانا ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ نمبر12) ۔ ”ہمارا یہ فرض ہے کہ غیراحمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور نہ ان کے پیچھے نمازپڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی منکرہیں“۔(انوارخلافت 90 ازمرزا محمود حوالہ ایضاً) کیونکہ غیراحمدی بلا استثناکافرہیں تو ان کے چھ ماہ کے بچے بھی کافرہوئے اور جب وہ کافرہوئے تو احمدی قبرستان میں ان کوکیسے دفنایا جاسکتاہے“۔ (اخبارپیغام صلح جلد 24 نمبر49 تین اگست 1936ئ) ”کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود(مرزا) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعودکانام بھی نہیں سنا وہ کافرہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں “۔ (آئینہ صداقت کا صفحہ 35 ازمرزا محموداحمد) اور”ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتاہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو تو مانتاہے مگر محمد(ﷺ) کو نہیں مانتا یا (محمدﷺ) کوتومانتاہے پرمسیح موعودکو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافراوردائرہ اسلام سے خارج ہے“۔ (کلمتہ الفضل صفحہ 110‘ مرزا بشیراحمد بن مرزا غلام احمدقادیانی مندرجہ ریو یوجلد 4 مارچ‘ اپریل 1915ئ) ”خداتعالیٰ نے میرے اوپر ظاہرکیاہے کہ ہرشخص جس کو میری دعوت پہنچی اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں “ (تذکرہ صفحہ 600‘ الہام مارچ 1906ئ) مندرجہ بالا تحریروں سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ قادیانیوں کوغیرمسلم قراردینا‘ اورسمجھنا علماءکی انتہا پسندی نہیں ہے بلکہ ابتداءہی سے قادیانی فرقہ خودکو مسلم امت سے الگ سمجھتا آیاہے اور اپنے پیروﺅں کوبھی یہی تلقین کرتاہے کہ وہ غیراحمدی کو کافرسمجھیں۔ ان عقائد کے بعد کون ایسا مسلمان ہوگا جو ان کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھنے کے بجائے مسلمانوں کا ہی ایک گروہ سمجھے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فتنہ قادیانیت اور قادیانیت نوازوں کے شرسے محفوظ رکھے۔ قادیانیوں کی سازشوں کوناکام بنائے ۔ آمین زندگی رہی تو اس موضوع پر مزید چیزیں آپ لوگوں کے علم میں لائیں گے۔
Rashid Ahmed
About the Author: Rashid Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.