عہد حاضر میں ماحولیاتی آلودگی ،ناقص غذا اور علاقہ میں
طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نت نئی بیماریاں اور امراض ابھر رہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک کوہسار میں کسی کو کینسر، الرجی، شوگر اور اسی طرح کے موذی
امراض کے بارے میں پتہ بھی نہیں تھا اب تو نوبت بہ ایں جا رسید کہ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سو میں سے پانچ افراد کینسر کا شکار ہو کر اذیت ناک بلکہ کربناک زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں۔ شوگر تو اتنی عام ہو گئی ہے کہ اس موذی مرض سے محفوظ
لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، اب فالج ہی نہیں دماغی فالج بھی
عام ہے، ہمارے دوست اور سرکل بکوٹ کے صحافی طارق نواز عباسی کی اہلیہ دماغی
فالج میں مبتلا ہو کر بستر سے لگ گئی ہیں جبکہ راقم الحروف کی والدہ مرحومہ
اس مرض سے چھہ برس قبل جاں بحق ہو گئیں ےھیں، ہمارے ایک اور دوست اور
لونگال کے رہائشی کبیر عباسی کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ خون کے ایک ایسے
مرض میں مبتلا ہیں جس میں کسی بھی وقت ان کی آنکھوں، کانوں، ناک اور منہ سے
خون جاری ہو جاتا ہے اور انہیں ہسپتال کی ایمر جنسی میں ماہر ڈاکٹر سے
انجکشن لگوانا پڑتا ہے، ہائی سکول بیروٹ کے سابق پرنسپل اور معروف ماہر
تعلیم امتیاز احمد عباسی کی والدہ مرحومہ کو جلد کا ایسا مرض لاحق تھا کہ
ان کا ہورا وجود ہی زخمی ہو گیا تھا۔ الغرض کوہسار میں ایسے ایسے امراض
سامنے آ رہے ہیں جو کبھی سنے تھے نہ ہی ان سے کوئی آشنائی ہی تھی۔
سرکل بکوٹ کی حد تک بات کی جائے تو نہایت ہی افسوسناک صورتحال سامنے آتی
ہے، شمالی سرکل بکوٹ تو پسماندہ ہے ہی، جنوبی سرکل بکوٹ کی صورتحال بھی
کوئی قابل رشک نہیں ہے، سرداران ملکوٹ کی آبائی یونین کونسل پلک ملکوٹ میں
جہاں سے وہ گزشتہ تیس برس سے نان سٹاپ منتخب ہوتے آ رہے ہیں اسی کے مقام
کھیرالہ کے بی ایچ یو میں پٹھانوں کے کھوتے بندھے ہوئے ہیں، شکر ہے وہ ان
سے ابھی بار برداری کا کام لیتے ہیں ذبح کر کے اہلیاں علاقہ کو کھانے کیلئے
پیش نہیں کئے ہیں، ایوبیہ ہسپتال میں مریضوں اور ڈاکٹروں کے بجائے گائے اور
بکریاں گھومتی ہوئی نظر آتی ہیں جبکہ گورنری کی حامل اس یونین کونسل کے
دونوں ہسپتالوں میں زچہ بچہ سینٹر اور لیبارٹری سمیت طبی سہولیات تو ایک
طرف، سر درد کیلئے ڈسپرین بھی دستیاب نہیں ہے۔ نزدیکی یونین کونسل بیروٹ
میں گزشتہ دس سال سے بی ایچ یو کی عمارت تعمیر کے اس عمل سے گزر رہی ہے جس
کا شاید صبح قیامت تک تکمیل کا کوئی امکان نہیں، متعلقہ ٹھیکیدار فنڈز نہ
ہونے کا رونا رو رہا ہے جبکہ یہ بی ایچ یو اس وقت اہلیان بیروٹ کی طبی
ضروریات مرکزی جامع مسجد کے تہہ خانہ میں پوری کر رہا ہے، یہاں پر علاج
زخمیوں کی مرہم پٹی اور پولیو قطروں تک محدود ہے، بعض دفعہ یہاں پر ہفتوں
داکٹر موجود نہیں ہوتا اور مقامی فارما سسٹ ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کے توکل
پر دکھی انسانیت کی نہ صرف خدمت کرتے ہیں بلکہ اپنی ہٹی پر دستیاب انگریزی
ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔ اہلیان بیروٹ کو خاقان عباسی مرحوم کی طرف سے
ایک سہولت یہ بھی حاصل ہے کہ ان کا قلعہ گرائونڈ حد پر واقع دیول بی ایچ یو
سے نہ صرف علاج ہو جاتا ہے بلکہ ادویات بھی مفت مل جاتی ہیں، بیروٹ خورد
میں دوسرا بی ایچ یو علاج گاہ سے زیادہ ضلعی ہیلتھ حکام کا ریسٹ ہائوس بنا
ہوا ہے، ڈاکٹر اور ادویات یہاں بھی مقدر والے کو ہی دستیاب ہوتے ہیں، بکوٹ
کا بی ایچ یو ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے مقامی ایل ایچ وی اور ایک چوکیدار کے
رحم و کرم پر ہے، اس کے باوجود کہ ڈی ایچ او ڈاکٹر ظفیر چوہدری اسی بکوٹ کے
فرزند کوہسار ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ طبی سہولیات کے استفادہ کیلئے
اہلیان سرکل بکوٹ جائیں تو کہاں جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سرکل بکوٹ میں انسانی زندگی کی لازمی اور بنیادی طبی و تعلیمی سہولیات نہ
ہونے کی وجہ سے معمولی وسائل رکھنے والا کنبہ بھی اس خطہ جنت نظیر کو
الوداع کہہ کر راولپنڈی اور کراچی جیسے آلودہ شہروں میں ہجرت کو ترجیح دیتا
ہے، قیام پاکستان سے ملک کے پہلے پارلیمانی انتخابات تک سرکل بکوٹ پر یو سی
بوئی کے پاکستان مخالف کانگریسی سٹیک ہولڈر سردار حسن علی خان کی حکمرانی
تھی جبکہ دیگر یونین کونسلوں میں ان کے نائیبین ذیلی حکمران بنے ہوئے تھے،
پاکستان سے پہلے وہ اپنے انگریز آقائوں کی مخالفت میں بولنے والوں کو ان
سفید چمڑی والوں کے حوالے کر کے منٹگمری (ساہیوال) میں عافیہ صدیقی کو
امریکہ کے حوالے کرنے والے پاکستانی حکمرانوں کی طرح انعام میں مربعے وصول
کرتے تھے، مقامی طور انگریز کے مراعات یافتہ یہ وطن فروش لکھ پتی رئیس
کہلاتے تھے اور ان کی چھتوں پر برطانوی یونین جیک لہرایا کرتا تھا، وہ اپنے
ذاتی باغیوں کو سیدھا کرنے کیلئے ان کے گھر اور لیتریاں بھی نذر آتش کر
دیتے تھے، ان کو تو اس بات سے کوئی غرض ہی نہیں تھی کہ کوئی جئے یا مرے،
سرکل بکوٹ پر تنی ظلم و ستم کی یہ سیاہ رات ملک کے پہلے الیکشن میں حضرت
پیر عتیق اللہ بکوٹی نے اپنے علاقے کے پہلے ایم ایل اے (اس وقت سرحد اسمبلی
قانون ساز اسمبلی تھی) بن کر تار تار کی اور پھر یہاں ایک نیا سویرا طلوع
ہوا، انہوں نے سرکل بکوٹ کی ہر یونین کونسل میں ایک بی ایچ یو، آر ایچ سی،
ایک مڈل سکول اور سوار گلی بوئی روڈ جیسے منفرد منصوبے صوبائی حکومت کو پیش
کئے، اس وقت صوبے کے تیسرے گورنر صاحبزادہ محمد خورشید اور پہلے مسلم لیگی
وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان تھے، تیئیس اپریل انیس سو ترپن کو ان کی حکومت
ختم کر دی گئی اور سرکل بکوٹ کے یہ منصوبے پائپ لائن میں ہی رہ گئے، فیلڈ
مارشل صدر ایوب خان کے عہد میں بنیادی جمہوریتوں کا ڈول ڈالا گیا، سرکل
بکوٹ اور لورہ سے سردار عنایت الرحمان مغربی پاکستان اسمبلی کے ایم این اے
منتخب ہوئے اور حق نمائندگی بھی ادا کر دیا، سرکل بکوٹ اور لورہ کی کم از
کم نصف یونین کونسلوں میں بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز قائم ہوئے، لوگوں کو
روزگار اور مریضوں کو شیشے کی بوتلوں میں صحتیابی کیلئے نیلے پیلے مائع و
بد ذائقہ بلکہ بدبودار شربت پینے کو ضرور ملے، اس وقت ماحول بھی صاف تھا
اور امراض بھی کم تھے اس وجہ سے لوگ بیمار بھی کم ہی ہوتے تھے۔ مقامی نیم
حکیموں کے ککھ اور عطائی ڈاکٹروں کے انجکشن ہی لوگوں کو سفر آخرت پر روانہ
کرنے کیلئے کافی ہوتے تھے، اسی کی دہائی کے وسط میں ایبٹ آباد کے گورنر
جنرل نما جدونوں سے مایوس لوگوں نے سرداران ملکوٹ کے سر پر تاج سلطانی رکھا
جنہوں نے گزشتہ تین عشروں میں نئے طبی و تعلیمی ادارے تو ایک طرف، اس طویل
ترین دور حکمرانی میں سرکل بکوٹ میں جو بی ایچ یوز اور سکول موجود بھی تھے
وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹا دئے گئے، اب پیچیدہ امراض کا شکار اہلیان سرکل
بکوٹ ایک طرف اپنی بے بسی دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف جھولیاں پھیلا کر
اپنے ان حکمرانوں کو دل کھول کر بددعائیں دے رہے ہیں۔
مقامی نون لیگی سٹیک ہولڈرز ایم پی اے سردار فرید خان کی سرکل بکوٹ میں
فعالیت کے گن گاتے تھکتے نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ اس کا کیا فائدہ کہ ان کی
سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں میں آنیاں جانیاں بیماروں کو ڈسپرین کی ایک
گولی بھی دینے سے قاصر ہیں، اعلانات کے باوجود یہاں کے زلزلہ سے متاثرہ
متروک سکولوں کی ایک اینٹ بھی فنڈز اور ٹھیکوں کی منظوری کے باوجود نہیں
لگائی جا سکی ہے، یہ بھی شنید ہے کہ گورنر کے پی کے سرکاری کے بجائے ذاتی
حج کے بعد سرکل بکوٹ کے مزید اربوں روپے کے منصوبہ جات کا افتتاح کرنے والے
ہیں، یہ ایک مستحسن بات ہے مگر اس کا افتتاح ایسے نہ ہو جس طرح ایم پی اے
فرید خان نے چار ماہ پہلے اپنی دھواں دھار تقریر میں ہائی سکول بیروٹ کا
افتتاح کیا تھا مگر چار ماہ گزرنے کے بعد بھی اس سکول کا ایک پتھر بھی لگ
سکا نہ اکھڑ سکا البتہ چوکیدار کی موجودگی میں سکول کے مزید دو دروازے، تین
کھڑکیاں اور سیلنگ چوری ہو چکی ہیں، پتھر پہلے ہی ٹھکانے لگائے جا چکے ہیں۔
جہاں تک ایم این اے کا تعلق ہے ، ڈاکٹر اظہر جدون نے سرکل بکوٹ کو ہمیشہ
اپنے پیشروئوں کی طرح غلاموں کی ایک کالونی سمجھا ہے جہاں پر وہ تبدیلی آب
و ہوا اور دل پشوری کرنے کیلئے دورہ کی زحمت فرماتے ہیں، انہوں نے اپنی ایم
این اے شپ کے ان دو سالوں میں صرف بوئی میں ایک کالج کے قیام کا بوگس اعلان
کیا تھا، اگرچہ انہیں نئے مالی سال کے پہلے مہینے یعنی جولائی میں وفاقی
حکومت نے ایک کروڑ روپے کا فنڈ دیا تھا مگر ہم اہلیان سرکل بکوٹ بھی کتنے
سادہ لوح ہیں کہ اس فنڈ کی آس لگائے بیٹھے ہیں جس کا سٹیٹ لائف انشونس
پالیسی کی طرح سب سے پہلا حق اس کا ہے جس نے یہ فنڈ وصول کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ آخر
امیدوار کروڑوں روپے لگا کر الیکشن کیوں لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تو میرے عزیز ہم
وطنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلیان سرکل بکوٹ کا اصل کام ایبٹ آباد اور پشاور کے مکین
سرکل بکوٹ کے حکمرانوں کا ان کی آمد پر فلک شکن نعروں کی گونج میں استقبال
کرنا، ان کے سریے والے گلے میں اصل اور کاغذی پولوں کے ہار ڈالنا، ان کے سر
پر پگ رکھنا اور ان کیلئے دستر خوان سجانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان کی من مرضی ہے
کہ وہ اس خدمت گذاری کے عوض جاتے جاتے کسی ترقیاتی منصوبے کیلئے اپنے
چہیتوں کی وساطت سے آپ کی سماعتوں کو فنڈز دینے کے اعلان سے خوش کر
دیں۔۔۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاحبو، تم اگلی نسلوں تک انتظار کرو کسی تہن ساتھرے
کا۔۔۔۔۔۔ جو امام مہدی کی طرح تمہاری اور تمہاری اگلی نسلوں کی تقدیر بدلنے
آئے گا۔۔۔۔ تو بائیو۔۔۔۔ اب ذرا نہیں، پورا سوچئے اور اپنے مقدر کے حق میں
فیصلہ کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب نہیں تو کبھی بھی نہیں۔ |