Narrated 'Aishah:
The Prophet (ﷺ) judged that the produce is produce is for the responsible one.
[He said:] This Hadith is Hasan Sahih, Gharib as a Hadith of Hisham bin 'Urwah (a narrator).
[Abu 'Eisa said:] Muslim bin Khalid Az-Zanji reported this Hadith from Hisham, from 'Urwah. Jarir reported it from Hisham as well. It is said that the narration of Jarir has Tadlis in in it, that Jarir committed the Tadlis, he did not hear it from Hisham bin 'Urwah.
As for the meaning of the produce is for the responsible one, he is the man who purchased the slave then the slave produced for him, and he found some defect in him so he returned him to the seller. Then the produce (of his work) is the purchaser's. In cases similar to this, the produce is for the responsible one.
[Abu 'Eisa said:] Muhammad bin Isma'il called this Hadith Gharib, as a narration of 'Umar bin 'Ali (one of the narrators). I said: Do you think that he committed Tadlis? He said: No .
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ . قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عن هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَرَوَاهُ جَرِيرٌ، عنْ هِشَامٍ أَيْضًا. وَحَدِيثُ جَرِيرٍ يُقَالُ: تَدْلِيسٌ دَلَّسَ فِيهِ جَرِيرٌ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَتَفْسِيرُ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ، هُوَ الرَّجُلُ يَشْتَرِي الْعَبْدَ، فَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا، فَيَرُدُّهُ عَلَى الْبَائِعِ، فَالْغَلَّةُ لِلْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْعَبْدَ لَوْ هَلَكَ هَلَكَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي، وَنَحْوُ هَذَا مِنَ الْمَسَائِلِ يَكُونُ فِيهِ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ فائدہ کا استحقاق ضامن ہونے کی بنیاد پر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- امام ترمذی کہتے ہیں: محمد بن اسماعیل نے اس حدیث کو عمر بن علی کی روایت سے غریب جانا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا آپ کی نظر میں اس میں تدلیس ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ۳- مسلم بن خالد زنجی نے اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔ ۴- جریر نے بھی اسے ہشام سے روایت کیا ہے، ۵- اور کہا جاتا ہے کہ جریر کی حدیث میں تدلیس ہے، اس میں جریر نے تدلیس کی ہے، انہوں نے اسے ہشام بن عروہ سے نہیں سنا ہے، ۶- «الخراج بالضمان» کی تفسیر یہ ہے کہ آدمی غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو بیچنے والے کے پاس لوٹا دے، تو غلام کی جو مزدوری اور فائدہ ہے وہ خریدنے والے کا ہو گا۔ اس لیے کہ اگر غلام ہلاک ہو جاتا تو مشتری ( خریدار ) کا مال ہلاک ہوتا۔ یہ اور اس طرح کے مسائل میں فائدہ کا استحقاق ضامن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔