Abu Sa'eed said:
I was accompanied by Ibn Sa'eed- either performing Hajj or 'Umrah - the people departed, and he and I were left. When I was alone with him I trembled and felt frightened of him because of what the people were saying about him. When I halted I said to him: 'Put your belongings near that tree.' he saw a sheep, took out a cup, and went to milk, it. Then he came to me with some milk and said to me: 'Drink Abu Sa'eed!' But I loathed drinking anything from his hand because of what the people were saying about him. So I said to him: 'It is very hot today, and I would not like to drink milk.' So he said to me: 'O Abu Sa'eed, I think I should take a rope, tie it to the tree, then hang myself because of what the people are saying about me. You see those who may be unaware of some narrations, while you are not unaware of them. You people are the most knowledgeable among the people of the Ahadith of the Messenger of Allah, O people of the Ansar! Did the Messenger of Allah not say: He is a disbeliever while I am a Muslim? Did the Messenger of Allah not said: He is sterile, having no children while I have left my children behind in Al-Madinah? Did the Messenger of Allah not say: [He will not enter or] Makkah [and Al-Madinah] are not lawful for him and am I not from the inhabitants of Al-Madinah, and who is the one who accompanied you to Makkah?' By Allah, he continued talking like this until I said: 'Perhaps he has been falsely accused' then he said: 'O Abu Sa'eed! By Allah, I can inform you of some information that is true, by Allah! Verily, I know him, I know his father, [and I know] where he is at this time in the land.' So I said: 'May the rest of your day be but grief.'
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا، وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِكْتُ أَنَا وَهُوَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَلَمَّا نَزَلْتُ، قُلْتُ لَهُ: ضَعْ مَتَاعَكَ حَيْثُ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ، فَاسْتَحْلَبَ ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ، فَقَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ، اشْرَبْ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ، وَإِنِّي أَكْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ، قَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ، هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُوثِقَهُ إِلَى شَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي، وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَى عَلَيْكُمْ، أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ كَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ أَوْ لَا تَحِلُّ لَهُ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ، أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَكَ إِلَى مَكَّةَ، فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيءُ بِهَذَا حَتَّى قُلْتُ فَلَعَلَّهُ مَكْذُوبٌ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ، وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنَ الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج یا عمرہ میں ابن صائد ( ابن صیاد ) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اور ہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تو لوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اور اس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا، چنانچہ جب میں سواری سے اترا تو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو، پھر اس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اور جا کر دودھ نکال لایا، پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پینا پسند نہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے ( یعنی دجال ہے ) چنانچہ میں نے اس سے کہا: آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا: ابوسعید! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اور گلا گھونٹ کر مر جاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بدگمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں؟ انصار کی جماعت! کیا آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سب سے بڑے جانکار نہیں ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دجال کے بارے میں ) یہ نہیں فرمایا ہے کہ وہ کافر ہے؟ جب کہ میں مسلمان ہوں، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے؟ اس کی اولاد نہیں ہو گی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو گا؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں؟ اور اب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جا رہا ہوں، ابو سعید خدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا: شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا: ابوسعید! اللہ کی قسم! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ اللہ کی قسم! میں دجال کو جانتا ہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہٰ میں ہے تب میں نے کہا: تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔