Narrated Anas bin Malik:
My paternal uncle was absent from the fighting of Badr, so he said: 'I was absent from the first fight the Messenger of Allah (ﷺ) fought with idolaters, so if Allah grants me to participate in a fight with the idolaters, then Allah will see what I will do!' So on the Day of Uhud, when the Muslims were driven back he said: 'O Allah! Indeed I am innocent before you of what these people - meaning the idolaters - have done, and I beg of You to excuse these people for what they have done - meaning the Companions. Then he went forward and met up with Sa'd. He said: 'O my brother! Whatever you do, I am with you!' But he was not able to do the same as him. He was found with more than eighty wounds, between blows with the sword, thrusts of a spear, or arrow wounds. We would say: 'It was about him and his companions that (the following) was revealed: 'Of them some have fulfilled their vow, and some of them are still waiting, but they have never changed in the least (33:23). (One of the narrators) Yazid said: Meaning this Ayah.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ، فَقَالَ: غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكِينَ، لَئِنْ اللَّهُ أَشْهَدَنِي قِتَالًا لَلْمُشْرِكِينَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ كَيْفَ أَصْنَعُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْكَشَفَ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ هَؤُلَاءِ، يَعْنِي الْمُشْرِكِينَ وَأَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ يَعْنِي أَصْحَابَهُ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَلَقِيَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: يَا أَخِي مَا فَعَلْتَ، أَنَا مَعَكَ فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَصْنَعَ مَا صَنَعَ، فَوُجِدَ فِيهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَةٍ بِسَيْفٍ وَطَعْنَةٍ بِرُمْحٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ، فَكُنَّا نَقُولُ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ نَزَلَتْ: فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ سورة الأحزاب آية 23 قَالَ يَزِيدُ يَعْنِي هَذِهِ الْآيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ عَمِّهِ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے چچا ( انس بن نضر ) بدر کی لڑائی میں غیر حاضر تھے، انہوں نے ( افسوس کرتے ہوئے ) کہا: اس پہلی لڑائی میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے لڑائی میں غیر موجود رہا، اب اگر اللہ نے مشرکین سے مجھے کسی جنگ میں لڑنے کا موقع دیا تو اللہ ضرور دیکھے گا کہ میں ( بے جگری و بہادری سے کس طرح لڑتا اور ) کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کی لڑائی کا موقع آیا، اور مسلمان ( میدان سے ) چھٹ گئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جسے یہ لوگ یعنی مشرکین لے کر آئے ہیں اور ان سے یعنی آپ کے صحابہ سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے، اس کے لیے تجھ سے معذرت خواہ ہوں، پھر وہ آگے بڑھے، ان سے سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی ملاقات ہوئی، سعد نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ جو بھی کریں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں، ( سعد کہتے ہیں ) لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ میں نہ کر سکا، ان کی لاش پر تلوار کی مار کے، نیزے گھوپنے کے اور تیر لگنے کے اسّی ( ۸۰ ) سے کچھ زیادہ ہی زخم تھے، ہم کہتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آیت «فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر» اتری ہے۔ یزید ( راوی ) کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ( پوری ) آیت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- انس بن مالک کے چچا کا نام انس بن نضر رضی الله عنہما ہے۔