Narrated Masruq: One day I went to Ibn Mas`ud who said, When Quraish delayed in embracing Islam, the Prophet I invoked Allah to curse them, so they were afflicted with a (famine) year because of which many of them died and they ate the carcasses and Abu Sufyan came to the Prophet and said, 'O Muhammad! You came to order people to keep good relation with kith and kin and your nation is being destroyed, so invoke Allah I ? So the Prophet I recited the Holy verses of Sirat-Ad-Dukhan: 'Then watch you For the day that The sky will Bring forth a kind Of smoke Plainly visible.' (44.10) When the famine was taken off, the people renegade once again as nonbelievers. The statement of Allah, (in Sura Ad- Dukhan -44) refers to that: 'On the day when We shall seize You with a mighty grasp.' (44.16) And that was what happened on the day of the battle of Badr. Asbath added on the authority of Mansur, Allah's Apostle prayed for them and it rained heavily for seven days. So the people complained of the excessive rain. The Prophet said, 'O Allah! (Let it rain) around us and not on us.' So the clouds dispersed over his head and it rained over the surroundings.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ : إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ ، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ ، فَقَرَأَ : فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سورة الدخان آية 10 ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَزَادَ أَسْبَاطٌ : عَنْ مَنْصُورٍ ، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُقُوا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَكَا النَّاسُ كَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ : اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتِ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِهِ فَسُقُوا النَّاسُ حَوْلَهُمْ .
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابوسفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہو گا الآیہ ( خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا ) لیکن وہ پھر کفر کرنے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا ( ترجمہ ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے استسقاء کی ( مدینہ میں ) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم حوالينا ولا علينا» کہ اے اللہ! ہمارے اطراف و جوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے اردگرد خوب بارش ہوئی۔