Narrated `Abdur-Rahman bin `Auf: I got an agreement written between me and Umaiya bin Khalaf that Umaiya would look after my property (or family) in Mecca and I would look after his in Medina. When I mentioned the word 'Ar64 Rahman' in the documents, Umaiya said, I do not know 'Ar-Rahman.' Write down to me your name, (with which you called yourself) in the Pre-Islamic Period of Ignorance. So, I wrote my name ' `Abdu `Amr'. On the day (of the battle) of Badr, when all the people went to sleep, I went up the hill to protect him. Bilal(1) saw him (i.e. Umaiya) and went to a gathering of Ansar and said, (Here is) Umaiya bin Khalaf! Woe to me if he escapes! So, a group of Ansar went out with Bilal to follow us (`Abdur-Rahman and Umaiya). Being afraid that they would catch us, I left Umaiya's son for them to keep them busy but the Ansar killed the son and insisted on following us. Umaiya was a fat man, and when they approached us, I told him to kneel down, and he knelt, and I laid myself on him to protect him, but the Ansar killed him by passing their swords underneath me, and one of them injured my foot with his sword. (The sub narrator said, `Abdur-Rahman used to show us the trace of the wound on the back of his foot. )
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كَاتَبْتُ أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ كِتَابًا بِأَنْ يَحْفَظَنِي فِي صَاغِيَتِي بِمَكَّةَ ، وَأَحْفَظَهُ فِي صَاغِيَتِهِ بِالْمَدِينَةِ ، فَلَمَّا ذَكَرْتُ الرَّحْمَنَ ، قَالَ : لَا أَعْرِفُ الرَّحْمَنَ ، كَاتِبْنِي بِاسْمِكَ الَّذِي كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَكَاتَبْتُهُ عَبْدَ عَمْرٍو ، فَلَمَّا كَانَ فِي يَوْمِ بَدْرٍ خَرَجْتُ إِلَى جَبَلٍ لِأُحْرِزَهُ حِينَ نَامَ النَّاسُ ، فَأَبْصَرَهُ بِلَالٌ ، فَخَرَجَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مَجْلِسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ ، فَقَالَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ : لَا نَجَوْتُ إِنْ نَجَا أُمَيَّةُ ، فَخَرَجَ مَعَهُ فَرِيقٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي آثَارِنَا ، فَلَمَّا خَشِيتُ أَنْ يَلْحَقُونَا ، خَلَّفْتُ لَهُمُ ابْنَهُ لِأَشْغَلَهُمْ ، فَقَتَلُوهُ ، ثُمَّ أَبَوْا حَتَّى يَتْبَعُونَا ، وَكَانَ رَجُلًا ثَقِيلًا ، فَلَمَّا أَدْرَكُونَا ، قُلْتُ لَهُ : ابْرُكْ ، فَبَرَكَ ، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ نَفْسِي لِأَمْنَعَهُ فَتَخَلَّلُوهُ بِالسُّيُوفِ مِنْ تَحْتِي ، حَتَّى قَتَلُوهُ وَأَصَابَ أَحَدُهُمْ رِجْلِي بِسَيْفِهِ ، وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ يُرِينَا ذَلِكَ الْأَثَرَ فِي ظَهْرِ قَدَمِهِ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : سَمِعَ يُوسُفُ صَالِحًا ، وَإِبْرَاهِيمُ أَبَاهُ .
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے صالح کے دادا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اور اس کے درمیان لکھوایا کہ وہ میرے بال بچوں یا میری جائیداد کی جو مکہ میں ہے، حفاظت کرے اور میں اس کی جائیداد کی جو مدینہ میں ہے حفاظت کروں۔ جب میں نے اپنا نام لکھتے وقت رحمان کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں رحمن کو کیا جانوں۔ تم اپنا وہی نام لکھواؤ جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ چنانچہ میں نے عبد عمرو لکھوایا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر میں ایک پہاڑ کی طرف گیا تاکہ لوگوں سے آنکھ بچا کر اس کی حفاظت کر سکوں، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور فوراً ہی انصار کی ایک مجلس میں آئے۔ انہوں نے مجلس والوں سے کہا کہ یہ دیکھو امیہ بن خلف ( کافر دشمن اسلام ) ادھر موجود ہے۔ اگر امیہ کافر بچ نکلا تو میری ناکامی ہو گی۔ چنانچہ ان کے ساتھ انصار کی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہو لی۔ جب مجھے خوف ہوا کہ اب یہ لوگ ہمیں آ لیں گے تو میں نے اس کے لڑکے کو آگے کر دیا تاکہ اس کے ساتھ ( آنے والی جماعت ) مشغول رہے، لیکن لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور پھر بھی وہ ہماری ہی طرف بڑھنے لگے۔ امیہ بہت بھاری جسم کا تھا۔ آخر جب جماعت انصار نے ہمیں آ لیا ا تو میں نے اس سے کہا کہ زمین پر لیٹ جا۔ جب وہ زمین پر لیٹ گیا تو میں نے اپنا جسم اس کے اوپر ڈال دیا۔ تاکہ لوگوں کو روک سکوں، لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوار کی ضربات لگائیں اور اسے قتل کر کے ہی چھوڑا۔ ایک صحابی نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں کو بھی زخمی کر دیا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اس کا نشان اپنے قدم کے اوپر ہمیں دکھایا کرتے تھے۔