Narrated `Abdullah bin Abu Qatada Al-Aslami: That his father said, One day I was sitting with some of the Prophet's companions on the way to Mecca. Allah's Apostle was ahead of us. All of my companions were in the state of Ihram while I was a non-Muhrim. They saw an onager while I was busy repairing my shoes, so they did not tell me about it but they wished I had seen it. By chance I looked up and saw it. So, I turned to the horse, saddled it and rode on it, forgetting to take the spear and the whip. I asked them if they could hand over to me the whip and the spear but they said, 'No, by Allah, we shall not help you in that in any way.' I became angry and got down from the horse, picked up both the things and rode the horse again. I attacked the onager and slaughtered it, and brought it (after it had been dead). They took it (cooked some of it) and started eating it, but they doubted whether it was allowed for them to eat it or not, as they were in the state of Ihram. So, we proceeded and I hid with me one of its fore-legs. When we met Allah's Apostle and asked him about the case, he asked, 'Do you have a portion of it with you?' I replied in the affirmative and gave him that fleshy foreleg which he ate completely while he was in the state of Ihram .
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كُنْتُ يَوْمًا جَالِسًا مَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلٍ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَازِلٌ أَمَامَنَا وَالْقَوْمُ مُحْرِمُونَ وَأَنَا غَيْرُ مُحْرِمٍ ، فَأَبْصَرُوا حِمَارًا وَحْشِيًّا وَأَنَا مَشْغُولٌ أَخْصِفُ نَعْلِي ، فَلَمْ يُؤْذِنُونِي بِهِ ، وَأَحَبُّوا لَوْ أَنِّي أَبْصَرْتُهُ وَالْتَفَتُّ ، فَأَبْصَرْتُهُ ، فَقُمْتُ إِلَى الْفَرَسِ فَأَسْرَجْتُهُ ، ثُمَّ رَكِبْتُ وَنَسِيتُ السَّوْطَ وَالرُّمْحَ ، فَقُلْتُ لَهُمْ : نَاوِلُونِي السَّوْطَ وَالرُّمْحَ ، فَقَالُوا : لَا ، وَاللَّهِ لَا نُعِينُكَ عَلَيْهِ بِشَيْءٍ ، فَغَضِبْتُ ، فَنَزَلْتُ ، فَأَخَذْتُهُمَا ، ثُمَّ رَكِبْتُ ، فَشَدَدْتُ عَلَى الْحِمَارِ فَعَقَرْتُهُ ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ وَقَدْ مَاتَ ، فَوَقَعُوا فِيهِ يَأْكُلُونَهُ ، ثُمَّ إِنَّهُمْ شَكُّوا فِي أَكْلِهِمْ إِيَّاهُ وَهُمْ حُرُمٌ ، فَرُحْنَا وَخَبَأْتُ الْعَضُدَ مَعِي ، فَأَدْرَكْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ : مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ ، فَنَاوَلْتُهُ الْعَضُدَ فَأَكَلَهَا حَتَّى نَفِدَهَا وَهُوَ مُحْرِمٌ . فَحَدَّثَنِي بِهِ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ابوحازم سے، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سلمی سے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ مکہ کے راستے میں ایک جگہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آگے قیام فرما تھے۔ ( حجۃ الوداع کے موقع پر ) اور لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میرا احرام نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے ایک گورخر دیکھا۔ میں اس وقت اپنی جوتی گانٹھنے میں مشغول تھا۔ ان لوگوں نے مجھ کو کچھ خبر نہیں دی۔ لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح میں گورخر کو دیکھ لوں۔ چنانچہ میں نے جو نظر اٹھائی تو گورخر دکھائی دیا۔ میں فوراً گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر زین کس کر سوار ہو گیا، مگر اتفاق سے ( جلدی میں ) کوڑا اور نیزہ دونوں بھول گیا۔ اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا دیں۔ انہوں نے کہا ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہم تمہارے ( شکار میں ) کسی قسم کی مدد نہیں کر سکتے۔ ( کیونکہ ہم سب لوگ حالت احرام میں ہیں ) مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے خود ہی اتر کر دونوں چیزیں لے لیں۔ پھر سوار ہو کر گورخر پر حملہ کیا اور اس کو شکار کر لایا۔ وہ مر بھی چکا تھا۔ اب لوگوں نے کہا کہ اسے کھانا چاہئے۔ لیکن پھر احرام کی حالت میں اسے کھانے ( کے جواز ) پر شبہ ہوا۔ ( لیکن بعض لوگوں نے شبہ نہیں کیا اور گوشت کھایا ) پھر ہم آگے بڑھے اور میں نے اس گورخر کا ایک بازو چھپا رکھا تھا۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اس کے متعلق آپ سے سوال کیا، ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے لیے شکار کے گوشت کھانے کا فتویٰ دیا ) اور دریافت فرمایا کہ اس میں سے کچھ بچا ہوا گوشت تمہارے پاس موجود بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں! اور وہی بازو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت احرام سے تھے ( ابوحازم نے کہا کہ ) مجھ سے یہی حدیث زید بن اسلم نے بیان کی، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے۔