Narrated Al-Hasan Al-Basri: By Allah, Al-Hasan bin `Ali led large battalions like mountains against Muawiya. `Amr bin Al-As said (to Muawiya), I surely see battalions which will not turn back before killing their opponents. Muawiya who was really the best of the two men said to him, O `Amr! If these killed those and those killed these, who would be left with me for the jobs of the public, who would be left with me for their women, who would be left with me for their children? Then Muawiya sent two Quraishi men from the tribe of `Abd-i-Shams called `Abdur Rahman bin Sumura and `Abdullah bin 'Amir bin Kuraiz to Al-Hasan saying to them, Go to this man (i.e. Al-Hasan) and negotiate peace with him and talk and appeal to him. So, they went to Al-Hasan and talked and appealed to him to accept peace. Al-Hasan said, We, the offspring of `Abdul Muttalib, have got wealth and people have indulged in killing and corruption (and money only will appease them). They said to Al-Hasan, Muawiya offers you so and so, and appeals to you and entreats you to accept peace. Al-Hasan said to them, But who will be responsible for what you have said? They said, We will be responsible for it. So, whatever Al- Hasan asked they said, We will be responsible for it for you. So, Al-Hasan concluded a peace treaty with Muawiya. Al-Hasan (Al-Basri) said: I heard Abu Bakr saying, I saw Allah's Apostle on the pulpit and Al-Hasan bin `Ali was by his side. The Prophet was looking once at the people and once at Al-Hasan bin `Ali saying, 'This son of mine is a Saiyid (i.e. a noble) and may Allah make peace between two big groups of Muslims through him.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : سَمِعْتُ الْحَسَنَ ، يَقُولُ : اسْتَقْبَلَ وَاللَّهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ : إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لَا تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ : وَكَانَ وَاللَّهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ ، أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ بِنِسَائِهِمْ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ : عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ ، فَقَالَ : اذْهَبَا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَيْهِ ، وَقُولَا لَهُ ، وَاطْلُبَا إِلَيْهِ ، فَأَتَيَاهُ ، فَدَخَلَا عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا وَقَالَا لَهُ فَطَلَبَا إِلَيْهِ ، فَقَالَ لَهُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ : إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ ، وَإِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا ، قَالَا : فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا ، وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ ، قَالَ : فَمَنْ لِي بِهَذَا ؟ قَالَا : نَحْنُ لَكَ بِهِ ، فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالَا نَحْنُ لَكَ بِهِ ، فَصَالَحَهُ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ ، يَقُولُ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى ، وَيَقُولُ : إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ . قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ : إِنَّمَا ثَبَتَ لَنَا سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْأَبِي بَكْرَةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ .
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ قسم اللہ کی جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما ( معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ) پہاڑوں میں لشکر لے کر پہنچے، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا ( جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص تھے ) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کیے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اور قسم اللہ کی، وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے، کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا، یا اس نے اس کو قتل کر دیا، تو ( اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ) لوگوں کے امور ( کی جواب دہی کے لیے ) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا، لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبرگیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہو گا۔ آخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن رضی اللہ عنہ کے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز، آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو، ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں، یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں، بغیر روپیہ دئیے ماننے والے نہیں۔ وہ کہنے لگے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سے پوچھا ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ حسن نے جس چیز کے متعلق بھی پوچھا، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ آخر آپ نے صلح کر لی، پھر فرمایا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ ہمارے نزدیک اس حدیث سے حسن بصری کا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سننا ثابت ہوا ہے۔