Narrated Qais bin Abi Hazim: Abu Bakr went to a lady from the Ahmas tribe called Zainab bint Al-Muhajir and found that she refused to speak. He asked, Why does she not speak. The people said, She has intended to perform Hajj without speaking. He said to her, Speak, for it is illegal not to speak, as it is an action of the pre-islamic period of ignorance. So she spoke and said, Who are you? He said, A man from the Emigrants. She asked, Which Emigrants? He replied, From Quraish. She asked, From what branch of Quraish are you? He said, You ask too many questions; I am Abu Bakr. She said, How long shall we enjoy this good order (i.e. Islamic religion) which Allah has brought after the period of ignorance? He said, You will enjoy it as long as your Imams keep on abiding by its rules and regulations. She asked, What are the Imams? He said, Were there not heads and chiefs of your nation who used to order the people and they used to obey them? She said, Yes. He said, So they (i.e. the Imams) are those whom I meant.
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ بَيَانٍ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ : دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى امْرَأَةٍ مِنْ أَحْمَسَ ، يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ فَرَآهَا لَا تَكَلَّمُ ، فَقَالَ : مَا لَهَا لَا تَكَلَّمُ ، قَالُوا : حَجَّتْ مُصْمِتَةً ، قَالَ : لَهَا تَكَلَّمِي فَإِنَّ هَذَا لَا يَحِلُّ , هَذَا مِنْ عَمَلِ الْجَاهِلِيَّةِ , فَتَكَلَّمَتْ فَقَالَتْ : مَنْ أَنْتَ ؟ قَالَ : امْرُؤٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ ، قَالَتْ : أَيُّ الْمُهَاجِرِينَ ؟ قَالَ : مِنْ قُرَيْشٍ ، قَالَتْ : مِنْ أَيِّ قُرَيْشٍ أَنْتَ ؟ قَالَ : إِنَّكِ لَسَئُولٌ , أَنَا أَبُو بَكْرٍ ، قَالَتْ : مَا بَقَاؤُنَا عَلَى هَذَا الْأَمْرِ الصَّالِحِ الَّذِي جَاءَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْجَاهِلِيَّةِ ؟ قَالَ : بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ ، قَالَتْ : وَمَا الْأَئِمَّةُ ؟ قَالَ : أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُءُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ ، قَالَتْ : بَلَى ، قَالَ : فَهُمْ أُولَئِكِ عَلَى النَّاسِ .
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے اور ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قبیلہ احمس کی ایک عورت سے ملے ان کا نام زینب بنت مہاجر تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ بات ہی نہیں کرتیں دریافت فرمایا کیا بات ہے یہ بات کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں نے بتایا کہ مکمل خاموشی کے ساتھ حج کرنے کی منت مانی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اجی بات کرو اس طرح حج کرنا تو جاہلیت کی رسم ہے، چنانچہ اس نے بات کی اور پوچھا آپ کون ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مہاجرین کا ایک آدمی ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ مہاجرین کے کس قبیلہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ قریش سے، انہوں نے پوچھا قریش کے کس خاندان سے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا تم بہت پوچھنے والی عورت ہو، میں ابوبکر ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پوچھا جاہلیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں یہ دین حق عطا فرمایا ہے اس پر ہم ( مسلمان ) کب تک قائم رہ سکیں گے؟ آپ نے فرمایا اس پر تمہارا قیام اس وقت تک رہے گا جب تک تمہارے امام حاکم سیدھے رہیں گے۔ اس خاتون نے پوچھا امام سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہاری قوم میں سردار اور اشراف لوگ نہیں ہیں جو اگر لوگوں کو کوئی حکم دیں تو وہ اس کی اطاعت کریں؟ اس نے کہا کہ کیوں نہیں ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امام سے یہی مراد ہیں۔