Narrated `Aisha: When Allah's Apostle came to Medina, Abu Bakr and Bilal got fever, and I went to both of them and said, O my father, how do you feel? O Bilal, how do you feel? Whenever Abu Bakr's fever got worse, he would say, Every man will meet his death once in one morning while he will be among his family, for death is really nearer to him than his leather shoe laces (to his feet). And whenever fever deserted Bilal, he would say aloud, Would that I know whether I shall spend a night in the valley (of Mecca) with Idhkhir and Jalil (i.e. kinds of grass) around me, and whether I shall drink one day the water of Mijannah, and whether I shall see once again the hills of Shamah and Tafil? Then I went to Allah's Apostle and told him of that. He said, O Allah, make us love Medina as much as or more than we used to love Mecca, O Allah, make it healthy and bless its Sa' and Mud (i.e. measures), and take away its fever to Al-Juhfa.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّهَا قَالَتْ : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ , وَبِلَالٌ ، قَالَتْ : فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا ، فَقُلْتُ : يَا أَبَتِ كَيْفَ تَجِدُكَ , وَيَا بِلَالُ كَيْفَ تَجِدُكَ ؟ قَالَتْ : فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ : كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أَقْلَعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ وَيَقُولُ : أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَتْ عَائِشَةُ : فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ , فَقَالَ : اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا , وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا , وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ .
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما کو بخار چڑھ آیا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: والد صاحب! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بخار چڑھا تو یہ شعر پڑھنے لگے۔ ”ہر شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح کرتا ہے اور موت تو جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے.“ اور بلال رضی اللہ عنہ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے ”کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ کبھی میں ایک رات بھی وادی مکہ میں گزار سکوں گا جب کہ میرے اردگرد ( خوشبودار گھاس ) اذخر اور جلیل ہوں گی، اور کیا ایک دن بھی مجھے ایسا مل سکے گا جب میں مقام مجنہ کے پانی پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد، وصححها وبارك لنا في صاعها ومدها، وانقل حماها فاجعلها بالجحفة» ”اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں اتنی پیدا کر دے جتنی مکہ کی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ، یہاں کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا۔ ہمارے لیے یہاں کے صاع اور مد ( اناج ناپنے کے پیمانے ) میں برکت عنایت فرما اور یہاں کے بخار کو مقام جحفہ میں بھیج دے۔