Narrated `Uthman bin Mauhab: A man came to perform the Hajj to (Allah's) House. Seeing some people sitting, he said, Who are these sitting people? Somebody said, They are the people of Quraish. He said, Who is the old man? They said, Ibn `Umar. He went to him and said, I want to ask you about something; will you tell me about it? I ask you with the respect due to the sanctity of this (Sacred) House, do you know that `Uthman bin `Affan fled on the day of Uhud? Ibn `Umar said, Yes. He said, Do you know that he (i.e. `Uthman) was absent from the Badr (battle) and did not join it? Ibn `Umar said, Yes. He said, Do you know that he failed to be present at the Ridwan Pledge of allegiance (i.e. Pledge of allegiance at Hudaibiya) and did not witness it? Ibn `Umar replied, Yes, He then said, Allahu- Akbar! Ibn `Umar said, Come along; I will inform you and explain to you what you have asked. As for the flight (of `Uthman) on the day of Uhud, I testify that Allah forgave him. As regards his absence from the Badr (battle), he was married to the daughter of Allah's Apostle and she was ill, so the Prophet said to him, 'You will have such reward as a man who has fought the Badr battle will get, and will also have the same share of the booty.' As for his absence from the Ridwan Pledge of allegiance if there had been anybody more respected by the Meccans than `Uthman bin `Affan, the Prophet would surely have sent that man instead of `Uthman. So the Prophet sent him (i.e. `Uthman to Mecca) and the Ridwan Pledge of allegiance took place after `Uthman had gone to Mecca. The Prophet raised his right hand saying. 'This is the hand of `Uthman,' and clapped it over his other hand and said, This is for `Uthman.' Ibn `Umar then said (to the man), Go now, after taking this information.
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ هَؤُلاَءِ الْقُعُودُ قَالُوا هَؤُلاَءِ قُرَيْشٌ. قَالَ مَنِ الشَّيْخُ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ. فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ أَتُحَدِّثُنِي، قَالَ أَنْشُدُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَتَعْلَمُهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَخَلَّفَ عَنْ بَيْعَةِ الرُّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ نَعَمْ. قَالَ فَكَبَّرَ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ لأُخْبِرَكَ وَلأُبَيِّنَ لَكَ عَمَّا سَأَلْتَنِي عَنْهُ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ». وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرُّضْوَانِ فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ، فَبَعَثَ عُثْمَانَ، وَكَانَ بَيْعَةُ الرُّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: «هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ». فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ: «هَذِهِ لِعُثْمَانَ». اذْهَبْ بِهَذَا الآنَ مَعَكَ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، ان سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ ایک صاحب بیت اللہ کے حج کے لیے آئے تھے۔ دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوچھا کہ یہ بیٹھے ہوئے کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ قریش ہیں۔ پوچھا کہ ان میں شیخ کون ہیں؟ بتایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ وہ صاحب ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ آپ مجھ سے واقعات ( صحیح ) بیان کر دیجئیے۔ اس گھر کی حرمت کی قسم دے کر میں آپ سے پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ احد کے موقع پر راہ فرار اختیار کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں صحیح ہے۔ انہوں نے پوچھا آپ کو یہ بھی معلوم ہے عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں تھے؟ کہا کہ ہاں یہ بھی ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان ( صلح حدیبیہ ) میں بھی پیچھے رہ گئے تھے اور حاضر نہ ہو سکے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اس پر ان صاحب نے ( مارے خوشی کے ) اللہ اکبر کہا لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا۔ یہاں آؤ میں تمہیں بتاؤں گا اور جو سوالات تم نے کئے ہیں ان کی میں تمہارے سامنے تفصیل بیان کر دوں گا۔ احد کی لڑائی میں فرار سے متعلق جو تم نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلطی معاف کر دی ہے۔ بدر کی لڑائی میں ان کے نہ ہونے کے متعلق جو تم نے کہا تو اس کی وجہ یہ تھی۔ کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( رقیہ رضی اللہ عنہا ) تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ تمہیں اس شخص کے برابر ثواب ملے گا جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے برابر مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔ بیعت رضوان میں ان کی عدم شرکت کا جہاں تک سوال ہے تو وادی مکہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص ہر دل عزیز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بجائے اسی کو بھیجتے۔ اس لیے عثمان رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجنا پڑا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔ ( بیعت لیتے ہوئے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے ( بائیں ) ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اب جا سکتے ہو۔ البتہ میری باتوں کو یاد رکھنا۔