Narrated Salama bin Al-Akwa`: Once I went (from Medina) towards (Al-Ghaba) before the first Adhan of the Fajr Prayer. The shecamels of Allah's Apostle used to graze at a place called Dhi-Qarad. A slave of `Abdur-Rahman bin `Auf met me (on the way) and said, The she-camels of Allah's Apostle had been taken away by force. I asked, Who had taken them? He replied (The people of) Ghatafan. I made three loud cries (to the people of Medina) saying, O Sabahah! I made the people between the two mountains of Medina hear me. Then I rushed onward and caught up with the robbers while they were watering the camels. I started throwing arrows at them as I was a good archer and I was saying, I am the son of Al-Akwa`, and today will perish the wicked people. I kept on saying like that till I restored the shecamels (of the Prophet), I also snatched thirty Burda (i.e. garments) from them. Then the Prophet and the other people came there, and I said, O Allah's Prophet! I have stopped the people (of Ghatafan) from taking water and they are thirsty now. So send (some people) after them now. On that the Prophet said, O the son of Al-Akwa`! You have over-powered them, so forgive them. Then we all came back and Allah's Apostle seated me behind him on his she-camel till we entered Medina.
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، يَقُولُ : خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى ، وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدَ ، قَالَ : فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، فَقَالَ : أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ : مَنْ أَخَذَهَا ؟ قَالَ : غَطَفَانُ ، قَالَ : فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ : يَا صَبَاحَاهْ ، قَالَ : فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ , وَقَدْ أَخَذُوا يَسْتَقُونَ مِنَ الْمَاءِ ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي : أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعْ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ وكُنْتُ راميًا وَأَقُولُ وَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ ، وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً ، قَالَ : وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ , فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمُ السَّاعَةَ ، فَقَالَ : يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ ، مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ ، قَالَ : ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا ‘ کہا میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ میں فجر کی اذان سے پہلے ( مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں۔ میں پوچھا کہ کس نے پکڑا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا ‘ یا صباحاہ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جا لیا۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے اترے تھے۔ میں نے ان پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا ”میں ابن الاکوع ہوں ‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے“ میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑا لیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آ گئیں۔ سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر آ گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لیے فوج بھیج دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن الاکوع! جب تو کسی پر قابو پا لے تو نرمی اختیار کر۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ پھر ہم واپس آ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آ گئے۔