Narrated Mujahi: (regarding the Verse):-- Those of you who die and leave wives behind. They - (their wives) -- shall wait (as regards their marriage ) for four months and ten days). (2.234) The widow, according to this Verse, was to spend this period of waiting with her husband's family, so Allah revealed: Those of you who die and leave wives (i.e. widows) should bequeath for their wives, a year's maintenance and residences without turning them out, but if they leave (their residence), there is no blame on you for what they do with themselves provided it is honorable.' (i.e. lawful marriage) (2.240). So Allah entitled the widow to be bequeathed extra maintenance for seven months and twenty nights, and that is the completion of one year. If she wished she could stay (in her husband's home) according to the will, and she could leave it if she wished, as Allah says: ..without turning them out, but if they leave (the residence), there is no blame on you. So the 'Idda (i.e. four months and ten days as it) is obligatory for her. 'Ata said: Ibn `Abbas said, This Verse, i.e. the Statement of Allah: ..without turning them out.. cancelled the obligation of staying for the waiting period in her dead husband's house, and she can complete this period wherever she likes. 'Ata's aid: If she wished, she could complete her 'Idda by staying in her dead husband's residence according to the will or leave it according to Allah's Statement:-- There is no blame on you for what they do with themselves. `Ata' added: Later the regulations of inheritance came and abrogated the order of the dwelling of the widow (in her dead husband's house), so she could complete the 'Idda wherever she likes. And it was no longer necessary to provide her with a residence. Ibn `Abbas said, This Verse abrogated her (i.e. widow's) dwelling in her dead husband's house and she could complete the 'Idda (i.e. four months and ten days) wherever she liked, as Allah's Statement says:-- ...without turning them out...
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا شِبْلٌ , عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ : وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا سورة البقرة آية 234 , قَالَ : كَانَتْ هَذِهِ الْعِدَّةُ تَعْتَدُّ عِنْدَ أَهْلِ زَوْجِهَا وَاجِبٌ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ سورة البقرة آية 240 ، قَالَ : جَعَلَ اللَّهُ لَهَا تَمَامَ السَّنَةِ سَبْعَةَ أَشْهُرٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً ، وَصِيَّةً إِنْ شَاءَتْ سَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى : غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ سورة البقرة آية 240 ، فَالْعِدَّةُ كَمَا هِيَ وَاجِبٌ عَلَيْهَا زَعَمَ ذَلِكَ , عَنْ مُجَاهِدٍ , وَقَالَ عَطَاءٌ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا عِنْدَ أَهْلِهَا ، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَهْوَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى :غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240 , قَالَ عَطَاءٌ : إِنْ شَاءَتِ اعْتَدَّتْ عِنْدَ أَهْلِهِ وَسَكَنَتْ فِي وَصِيَّتِهَا ، وَإِنْ شَاءَتْ خَرَجَتْ , لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى : فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ سورة البقرة آية 234 , قَالَ عَطَاءٌ : ثُمَّ جَاءَ الْمِيرَاثُ ، فَنَسَخَ السُّكْنَى ، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ وَلَا سُكْنَى لَهَا , وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ ,حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ , عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا , وَعَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ : نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا ، فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ لِقَوْلِ اللَّهِ : غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240 نَحْوَهُ .
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شبل بن عباد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور انہوں نے مجاہد سے آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» ”اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں۔“ کے بارے میں ( زمانہ جاہلیت کی طرح ) کہا کہ عدت ( یعنی چار مہینے دس دن کی ) تھی جو شوہر کے گھر عورت کو گزارنی ضروری تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا وصية لأزواجهم متاعا إلى الحول غير إخراج فإن خرجن فلا جناح عليكم فيما فعلن في أنفسهن من معروف» ”اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں نفع اٹھانے کی وصیت ( کر جائیں ) کہ وہ ایک سال تک گھر سے نہ نکالی جائیں، لیکن اگر وہ ( خود ) نکل جائیں تو کوئی گناہ تم پر نہیں۔ اگر وہ دستور کے موافق اپنے لیے کوئی کام کریں۔“ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے سات مہینے اور بیس دن وصیت کے قرار دیئے کہ اگر وہ اس مدت میں چاہے تو اپنے لیے وصیت کے مطابق ( شوہر کے گھر میں ہی ) ٹھہرے اور اگر چاہے تو کہیں اور چلی جائے کہ اگر ایسی عورت کہیں اور چلی جائے تو تمہارے حق میں کوئی گناہ نہیں۔ پس عدت کے ایام تو وہی ہیں جنہیں گزارنا اس پر ضروری ہے ( یعنی چار مہینے دس دن ) ۔ شبل نے کہا ابن ابی نجیح نے مجاہد سے ایسا ہی نقل کیا ہے اور عطا بن ابی رباح نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اس آیت نے اس رسم کو منسوخ کر دیا کہ عورت اپنے خاوند کے گھر والوں کے پاس عدت گزارے۔ اس آیت کی رو سے عورت کو اختیار ملا جہاں چاہے وہاں عدت گزارے اور اللہ پاک کے قول «غير إخراج» کا یہی مطلب ہے۔ عطا نے کہا، عورت اگر چاہے تو اپنے خاوند کے گھر والوں میں عدت گزارے اور خاوند کی وصیت کے موافق اسی کے گھر میں رہے اور اگر چاہے تو وہاں سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «فلا جناح عليكم فيما فعلن» ”اگر وہ نکل جائیں تو دستور کے موافق اپنے حق میں جو بات کریں اس میں کوئی گناہ تم پر نہ ہو گا۔“ عطاء نے کہا کہ پھر میراث کا حکم نازل ہوا جو سورۃ نساء میں ہے اور اس نے ( عورت کے لیے ) گھر میں رکھنے کے حکم کو منسوخ قرار دیا۔ اب عورت جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ اسے مکان کا خرچہ دینا ضروری نہیں اور محمد بن یوسف نے روایت کیا، ان سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے اور ان سے مجاہد نے، یہی قول بیان کیا اور فرزندان ابن ابی نجیح سے نقل کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت نے صرف شوہر کے گھر میں عدت کے حکم کو منسوخ قرار دیا ہے۔ اب وہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غير إخراج» وغیرہ سے ثابت ہے۔