Narrated Anas bin Malik: Out of all the Ansar, living in Medina, Abu Talha had the largest number of (date palm trees) gardens, and the most beloved of his property to him was Bairuha garden which was standing opposite the Mosque (of the Prophet). Allah's Messenger used to enter it and drink of its good water. When the Verse:-- By no means shall you attain righteousness unless you spend (in charity) of that which you love. (3.92) Abu Talha got up and said, O Allah's Messenger , Allah says:-- By no means shall you attain righteousness unless you spend (in charity) of that which you love. (3.92) and the most beloved of my property to me is the Bairuha garden, so I give it (as a charitable gift) in Allah's Cause and hope to receive good out of it, and to have it stored for me with Allah. So, O Allah's Messenger ! Dispose it of (i.e. utilize it) in the way Allah orders you (to dispose it of). Allah's Messenger said, Bravo! That is a fruitful property! That is a fruitful property! I have heard what you have said and I think that you should distribute that (garden) amongst your relatives. The Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and his cousins. Narrated Yahya bin Yahya: I learnt from Malik, ..a fruitful property.
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ نَخْلًا ، وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ ، فَلَمَّا أُنْزِلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 ، وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : بَخْ ، ذَلِكَ مَالٌ رَايِحٌ ، ذَلِكَ مَالٌ رَايِحٌ ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ : أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ ، وَفِي بَنِي عَمِّهِ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ : ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ : قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ مَالٌ رَايِحٌ .
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ”جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے۔“ نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوب یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز و اقرباء کو اسے دے دو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہٰ والوں میں بانٹ دیا۔ عبداللہ بن یوسف اور روح بن عبادہ نے «ذلك مال رايح» ( «ربح» سے ) بیان کیا ہے۔ یعنی یہ مال بہت نفع دینے والا ہے۔ مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے «مال رايح» ( «رواح» سے ) پڑھا تھا۔