Narrated Abu Qilaba: That he was sitting behind `Umar bin `Abdul `Aziz and the people mentioned and mentioned (about at-Qasama) and they said (various things), and said that the Caliphs had permitted it. `Umar bin `Abdul `Aziz turned towards Abu Qilaba who was behind him and said. What do you say, O `Abdullah bin Zaid? or said, What do you say, O Abu Qilaba? Abu Qilaba said, I do not know that killing a person is lawful in Islam except in three cases: a married person committing illegal sexual intercourse, one who has murdered somebody unlawfully, or one who wages war against Allah and His Apostle. 'Anbasa said, Anas narrated to us such-and-such. Abu Qilaba said, Anas narrated to me in this concern, saying, some people came to the Prophet and they spoke to him saying, 'The climate of this land does not suit us.' The Prophet said, 'These are camels belonging to us, and they are to be taken out to the pasture. So take them out and drink of their milk and urine.' So they took them and set out and drank of their urine and milk, and having recovered, they attacked the shepherd, killed him and drove away the camels.' Why should there be any delay in punishing them as they murdered (a person) and waged war against Allah and His Apostle and frightened Allah's Messenger ? Anbasa said, I testify the uniqueness of Allah! Abu Qilaba said, Do you suspect me? 'Anbasa said, No, Anas narrated that (Hadith) to us. Then 'Anbasa added, O the people of such-and-such (country), you will remain in good state as long as Allah keeps this (man) and the like of this (man) amongst you.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَلْمَانُ أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ : أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا خَلْفَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، فَذَكَرُوا ، وَذَكَرُوا ، فَقَالُوا : وَقَالُوا : قَدْ أَقَادَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ فَالْتَفَتَ إِلَى أَبِي قِلَابَةَ وَهْوَ خَلْفَ ظَهْرِهِ ، فَقَالَ : مَا تَقُولُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ ؟ أَوْ قَالَ : مَا تَقُولُ يَا أَبَا قِلَابَةَ ؟ قُلْتُ : مَا عَلِمْتُ نَفْسًا حَلَّ قَتْلُهَا فِي الْإِسْلَامِ إِلَّا رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ إِحْصَانٍ ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ ، أَوْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ بِكَذَا ، وَكَذَا ، قُلْتُ : إِيَّايَ حَدَّثَ أَنَسٌ ، قَالَ : قَدِمَ قَوْمٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمُوهُ ، فَقَالُوا : قَدِ اسْتَوْخَمْنَا هَذِهِ الْأَرْضَ ، فَقَالَ : هَذِهِ نَعَمٌ لَنَا تَخْرُجُ فَاخْرُجُوا فِيهَا فَاشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا ، وَأَبْوَالِهَا ، فَخَرَجُوا فِيهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا ، وَأَلْبَانِهَا ، وَاسْتَصَحُّوا وَمَالُوا عَلَى الرَّاعِي ، فَقَتَلُوهُ ، وَاطَّرَدُوا النَّعَمَ ، فَمَا يُسْتَبْطَأُ مِنْ هَؤُلَاءِ ، قَتَلُوا النَّفْسَ ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، وَخَوَّفُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ ، فَقُلْتُ : تَتَّهِمُنِي ، قَالَ : حَدَّثَنَا بِهَذَا أَنَسٌ ، قَالَ : وَقَالَ : يَا أَهْلَ كَذَا ، إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا بِخَيْرٍ مَا أُبْقِيَ هَذَا فِيكُمْ ، أَوْ مِثْلُ هَذَا .
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلمان ابورجاء، ابوقلابہ کے غلام نے بیان کیا اور ان سے ابوقلابہ نے کہ وہ ( امیرالمؤمنین ) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ( مجلس میں قسامت کا ذکر آ گیا ) لوگوں نے کہا کہ قسامت میں قصاص لازم ہو گا۔ آپ سے پہلے خلفاء راشدین نے بھی اس میں قصاص لیا ہے۔ پھر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ابوقلابہ کی طرف متوجہ ہوئے وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور پوچھا: عبداللہ بن زید تمہاری کیا رائے ہے، یا یوں کہا کہ ابوقلابہ! آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو کوئی ایسی صورت معلوم نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کا قتل جائز ہو، سوا اس کے کہ کسی نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو، یا ناحق کسی کو قتل کیا ہو، یا ( پھر ) اللہ اور اس کے رسول سے لڑا ہو ( مرتد ہو گیا ہو ) ۔ اس پر عنبسہ نے کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے اس طرح حدیث بیان کی تھی۔ ابوقلابہ بولے کہ مجھ سے بھی انہوں نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ بیان کیا کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام پر بیعت کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں اس شہر مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ہمارے یہ اونٹ چرنے جا رہے ہیں تم بھی ان کے ساتھ چلے جاؤ اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو ( کیونکہ ان کے مرض کا یہی علاج تھا ) چنانچہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ چلے گئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جس سے انہیں صحت حاصل ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے ) کو پکڑ کر قتل کر دیا اور اونٹ لے کر بھاگے۔ اب ایسے لوگوں سے بدلہ لینے میں کیا تامل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ایک شخص کو قتل کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے لڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوفزدہ کرنا چاہا۔ عنبسہ نے اس پر کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا، کیا تم مجھے جھٹلانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ( نہیں ) یہی حدیث انس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بھی بیان کی تھی۔ میں نے اس پر تعجب کیا کہ تم کو حدیث خوب یاد رہتی ہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ عنبسہ نے کہا، اے شام والو! جب تک تمہارے یہاں ابوقلابہ یا ان جیسے عالم موجود رہیں گے، تم ہمیشہ اچھے رہو گے۔