Narrated `Abdullah: It is a sign of having knowledge that, when you do not know something, you say: 'Allah knows better.' Allah said to his Prophet: 'Say: No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor am I one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist)' (38.86) When the Quraish troubled and stood against the Prophet he said, O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine like the seven years of Joseph. So they were stricken with a year of famine during which they ate bones and dead animals because of too much suffering, and one of them would see something like smoke between him and the sky because of hunger. Then they said: Our Lord! Remove the torment from us, really we are believers. (44.12) And then it was said to the Prophet (by Allah), If we remove it from them. they will revert to their ways (of heathenism). So the Prophet invoked his Lord, who removed the punishment from them, but later they reverted (to heathenism), whereupon Allah punished them on the day of the Battle of Badr, and that is what Allah's Statement indicates: 'Then watch for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible...we will indeed (then) exact retribution.' (44.10).
حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ : إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّ اللَّهَ ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86 ، إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ ، قَالَ : اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْع يُوسُفَ ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ ، وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ ، قَالُوا : رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12 ، فَقِيلَ لَهُ : إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا فَدَعَا رَبَّهُ ، فَكَشَفَ عَنْهُمْ فَعَادُوا فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى : فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 10 - 16 .
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی علم ہی ہے کہ تمہیں اگر کوئی بات معلوم نہیں ہے تو اس کے متعلق یوں کہہ دو کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میں تم سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرتا ہوں جب قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور آپ کے ساتھ معاندانہ روش میں برابر بڑھتے ہی رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط کے ذریعہ کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط پڑا اور بھوک کی شدت کا یہ حال ہوا کہ لوگ ہڈیاں اور مردار کھانے لگ گئے۔ لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے لیکن فاقہ کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا۔ آخر انہوں نے کہا کہ ”اے ہمارے پروردگار! ہم سے اس عذاب کو دور کر، ہم ضرور ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر ہم نے یہ عذاب دور کر دیا تو پھر بھی تم اپنی پہلی حالت پر لوٹ آؤ گے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا کی اور یہ عذاب ان سے ہٹ گیا لیکن وہ پھر بھی کفر و شرک پر ہی جمے رہے، اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں لیا۔ یہی واقعہ آیت «يوم تأتي السماء بدخان مبين» آخر تک میں بیان ہوا ہے۔