Narrated `Abdullah: Allah sent (the Prophet) Muhammad and said:-- 'Say, No wage do I ask of you for this (Qur'an) nor am I one of the pretenders (i.e. a person who pretends things which do not exist). (38.68) When Allah's Messenger saw Quraish standing against him, he said, O Allah! Help me against them by afflicting them with seven years of famine similar to the seven years (of famine) of Joseph. So they were afflicted with a year of drought that destroyed everything, and they ate bones and hides. (One of them said), And they ate hides and dead animals, and (it seemed to them that) something like smoke was coming out of the earth. So Abu Sufyan came to the Prophet and said, O Muhammad! Your people are on the verge of destruction! Please invoke Allah to relieve them. So the Prophet invoked Allah for them (and the famine disappeared). He said to them. You will revert (to heathenism) after that. `Abdullah then recited: 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible.......but truly you will revert (to disbelief).' He added, Will the punishment be removed from them in the Hereafter? The smoke and the grasp and the Al-Lizam have all passed. One of the sub-narrater said, The splitting of the moon. And another said, The defeat of the Romans (has passed).
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، وَمَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالَ : قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86 ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ ، فَأَخَذَتْهُمُ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ : حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ ، وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ : فَقَالَ : أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ ، فَدَعَا ، ثُمَّ قَالَ : تَعُودُونَ بَعْدَ هَذَا فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ ، ثُمَّ قَرَأَ : فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15 أَنَكْشِفُ عَذَابَ الْآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ ، وَالْبَطْشَةُ ، وَاللِّزَامُ ، وَقَالَ أَحَدُهُمْ : الْقَمَرُ ، وَقَالَ الْآخَرُ : وَالرُّومُ .
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اور منصور نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» کہ ”کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں۔“ پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ ”اے اللہ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔“ ( پھر ) قحط پڑا اور پر چیز ختم ہو گئی۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے ( سلیمان اور منصور ) راویان حدیث میں سے ایک نے بیان کیا کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہو گئے اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا۔ آخر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کر دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين» ”تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو۔“ «عائدون» تک۔ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا؟ ”دھواں“ اور ”سخت پکڑ“ اور ”ہلاکت“ گزر چکے۔ بعض نے ”چاند“ اور بعض نے ”غلبہ روم“ کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بھی گزر چکا ہے۔