Narrated Fatima bint Al-Mundhir:Asma' bint Abi Bakr As-Siddiq said, I went to 'Aishah and the people were offering Salat. I asked her, 'What is wrong with the people ?' She pointed towards the sky with her head. I asked her, 'Is there a sign ?' 'Aishah nodded with her head meaning 'Yes'. Asma' added, Allah's Messenger (saws) prolonged the Salat to such an extent that I fainted. There was a waterskin by my side and I opened it and poured some water on my head. When Allah's Messenger (saws) finished Salat, and the solar eclipse had cleared, the Prophet (saws) addressed the people and praised Allah as He deserves and said, 'Amma ba'du'. Asma' further said, Some Ansari women started talking, so I turned to them in order to make them quiet. I asked 'Aishah what the Prophet (saws) had said. 'Aishah said: 'He said, 'I have seen things at this place of mine which were never shown to me before; (I have seen) even Paradise and Hell. And, no doubt it has been revealed to me that you (people) will be put in trial in your graves like or nearly like the trial of Masih Ad-Dajjal. (The angels) will come to everyone of you and ask him, 'What do you know about this man (Prophet Muhammad (saws)) ? The faithful believer or firm believer (Hisham was in doubt which word the Prophet (saws) used), will say, 'He is Allah's Messenger (saws) and he is Muhammad (saws) who came to us with clear evidences and guidance. So we believed him, accepted his teachings and followed and trusted his teaching.' Then the angels will tell him to sleep (in peace) as they have come to know that he was a believer. But the hypocrite or a doubtful person (Hisham is not sure as to which word the Prophet (saws) used), will be asked what he knew about this man (Prophet Muhammed (saws)). He will say, 'I do not know but I heard the people saying something (about him) so I said the same' Hisham added, Fatima told me that she remembered that narration completely by heart except that she said about the hypocrite or a doubtful person that he will be punished severely.
وَقَالَ مَحْمُودٌ : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، قَالَ : أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَتْ : دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ ، قُلْتُ : مَا شَأْنُ النَّاسِ ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ ، فَقُلْتُ : آيَةٌ ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَيْ نَعَمْ ، قَالَتْ : فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ وَإِلَى جَنْبِي قِرْبَةٌ فِيهَا مَاءٌ فَفَتَحْتُهَا فَجَعَلْتُ أَصُبُّ مِنْهَا عَلَى رَأْسِي فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ وَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ ، قَالَتْ : وَلَغَطَ نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَانْكَفَأْتُ إِلَيْهِنَّ لِأُسَكِّتَهُنَّ فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ ، قَالَتْ : قَالَ : مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ مِثْلَ أَوْ قَرِيبَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ ، يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوْ قَالَ الْمُوقِنُ شَكَّ هِشَامٌ ، فَيَقُولُ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ هُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى ، فَآمَنَّا وَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا وَصَدَّقْنَا ، فَيُقَالُ لَهُ : نَمْ صَالِحًا قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوْ قَالَ الْمُرْتَابُ شَكَّ هِشَامٌ فَيُقَالُ لَهُ : مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ ، فَيَقُولُ : لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا ، فَقُلْتُ : قَالَ هِشَامٌ : فَلَقَدْ قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ فَأَوْعَيْتُهُ غَيْرَ أَنَّهَا ذَكَرَتْ مَا يُغَلِّظُ عَلَيْهِ .
اور محمود بن غیلان (امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ) نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے ( اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ ) یہ کیا ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا ( کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا ) اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا «امابعد» ! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں ( تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگر میں آپ کا کلام نہ سن سکی ) تو پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہو گی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا ( ہشام کو شک تھا ) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہا تھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔