Narrated Abdur Rahman ibn Azhar: I saw the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم on the morning of the conquest of Makkah when I was a young boy. He was walking among the people, seeking the camp of Khalid ibn al-Walid. A man who had drunk wine was brought (before him) and he ordered them (to beat him). So they beat him with what they had in their hands. Some struck him with whips, some with sticks and some with sandals. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم threw some dust on his face. When a man who had drunk wine was brought before Abu Bakr, he asked them (i. e. the people) about the number of beatings which they gave him. They numbered it forty. So Abu Bakr gave him forty lashes. When Umar came to power, Khalid ibn al-Walid wrote to him: The people have become addicted to drinking wine and they look down upon the prescribed punishment and its penalty. He said: They are with you, ask them. The immigrants who embraced Islam in the beginning were with him. He asked them and they agreed on the fact that (a drunkard) should be given eighty lashes. Ali said: When a man drinks wine, he tells lies. I, therefore, think that he should be prescribed punishment that is prescribed for telling lies. . Abu Dawud said: 'Uqail bin Khalid included in the chain of this tradition: Abdullah bin Abdur-Rahman bin al-Azhar from his father between al-Zuhri and Ibn al-Azhar.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْفَتْحِ وَأَنَا غُلَامٌ شَابٌّ يَتَخَلَّلُ النَّاسَ يَسْأَلُ عَنْ مَنْزِلِ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، فَأُتِيَ بِشَارِبٍ فَأَمَرَهُمْ فَضَرَبُوهُ بِمَا فِي أَيْدِيهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِالسَّوْطِ وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِعَصًا وَمِنْهُمْ مَنْ ضَرَبَهُ بِنَعْلِهِ، وَحَثَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ، فَلَمَّا كَانَ أَبُو بَكْرٍ أُتِيَ بِشَارِبٍ فَسَأَلَهُمْ عَنْ ضَرْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي ضَرَبَهُ فَحَزَرُوهُ أَرْبَعِينَ، فَضَرَبَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ كَتَبَ إِلَيْهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ انْهَمَكُوا فِي الشُّرْبِ وَتَحَاقَرُوا الْحَدَّ وَالْعُقُوبَةَ، قَالَ: هُمْ عِنْدَكَ فَسَلْهُمْ وَعِنْدَهُ الْمُهَاجِرُونَ الْأَوَّلُونَ، فَسَأَلَهُمْ فَأَجْمَعُوا عَلَى أَنْ يَضْرِبَ ثَمَانِينَ، قَالَ: وقَالَ عَلِيٌّ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا شَرِبَ افْتَرَى فَأَرَى أَنْ يَجْعَلَهُ كَحَدِّ الْفِرْيَةِ ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَدْخَلَ عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ بَيْنَ الزُّهْرِيِّ، وَبَيْنَ ابْنِ الْأَزْهَرِ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ: عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَزْهَرِ، عَنْ أَبِيهِ.
عبدالرحمٰن بن ازہر کہتے ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے دوسرے دن صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا میں ایک کمسن لڑکا تھا، لوگوں میں گھس کر آیا جایا کرتا تھا، آپ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیام گاہ ڈھونڈ رہے تھے کہ اتنے میں ایک شرابی لایا گیا، آپ نے اسے مارنے کا حکم دیا، تو لوگوں کے ہاتھوں میں جو چیز بھی تھی اسی سے انہوں نے اس کی پٹائی کی، کسی نے اسے کوڑے سے، کسی نے لاٹھی سے، کسی نے جوتے سے پیٹا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ پر مٹی ڈال دی، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ان کے پاس ایک شرابی لایا گیا تو انہوں نے لوگوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مار کے متعلق دریافت کیا جسے آپ نے مارا تھا تو لوگوں نے اس کا اندازہ لگایا کہ یہ چالیس کوڑے رہے ہوں گے، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی حد چالیس کوڑے مقرر کر دی، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو خالد بن ولید نے انہیں لکھا کہ لوگ کثرت سے شراب پینے لگے ہیں اور اس کی حد اور سزا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور لکھا کہ لوگ آپ کے پاس ہیں ان سے پوچھ لیں، اس وقت ان کے پاس مہاجرین اولین موجود تھے، آپ نے ان سے پوچھا تو سب کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ اسی کوڑے مارے جائیں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: آدمی جب شراب پیتا ہے تو بہتان باندھتا ہے اس لیے میری رائے یہ ہے کہ اس کی حد بہتان کی حد کر دی جائے۔