عمرے کا لالچ نہ کرتے تو آج امّی ہمارے ساتھ ہوتیں ۔۔۔

image

کہتے ہیں کہ لالچ اچھی چیز نہیں اور یہ ایک بری بلا ہے۔ انسان بنا سوچے سمجھے جب کسی لالچ کا شکار ہوجاتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر کام لیتا تو حالات مختلف ہوتے۔

آج ذیل میں ایک ایسی ہی کہانی بتائی جا رہی ہے جو پڑھنے والوں کے لئے سبق آموز ہوگی۔

یہ کہانی ہے نارووال سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی جنھیں عمرے کا جھانسہ دے کر منشیات اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور اس وقت وہ سعودی عرب میں موجود جیل میں قیدی ہیں۔ خاتون کے بیٹے یہ سارا واقعہ بیان کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمرے کا لالچ نہیں کرنا چاہئے تھا، اگر میں خود ہی پیسے جوڑ کر اپنی والدہ کو سعودی عرب بھیج دیتا تو شاید وہ آج ہمارے ساتھ تو ہوتیں۔

سعودی عرب کی جیل میں قید خاتون کے بیٹے نے کہا کہ یہ افسوسناک واقعہ مئی 2017 کا ہے۔ میری والدہ کو محلے کی ایک عورت نے کہا کہ آپ کو مفت عمرہ کرائیں گے، صرف اپنا پاسپورٹ تیار کر لیں۔ جب سیالکوٹ ائیرپورٹ پہنچے تو وہاں محلے کی رہائشی عورت کا بیٹا بھی ساتھ میں آیا تھا۔ اس نے میری والدہ کو ایک ٹفن باکس دیا اور کہا کہ آپ کے راستے کے لیے حلوہ بنایا ہے۔ جب میری امی جّدہ ائیرپورٹ پہنچیں تو اسی حلوے کے ڈبے کے اندر سے پانچ ہیروئن کے پیکٹ نکل آئے۔

نارووال کی اس خاتون کی داستان ان کے بیٹے تقریباً ہر اس ادارے کو بتا چکے ہیں جہاں سے وہ انصاف کی یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی والدہ کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے تاہم اب تک کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر پایا۔

ہر سال 18 دسمبر کو تارکینِ وطن کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور جہاں تارکینِ وطن کی بات آتی ہے وہاں پر ان کے حقوق اور مختلف ممالک میں ان کے ساتھ اپنائے گئے اچھے یا برے سلوک کے حوالے سے بھی بات چیت ہوتی ہے۔

ایسے مباحثوں میں مختلف ممالک میں غیر ملکی قیدیوں کی اپنے وطن واپسی کے حوالے سے خدشات سرفہرست ہوتے ہیں اور یہ بات بار بار سامنے آئی ہے کہ معاشی مشکلات کا شکار افراد جو بیرون ملک، خاص طور پر خلیجی ممالک جانے کی خواہش رکھتے ہیں، اچھی نوکری یا مفت عمرے کے لالچ میں آ کر جعلسازوں کے جھانسے میں آکر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں۔

ایک سال قبل سعودی ولی عہد نے بھی پاکستان کے دورے کے موقع پر اپنے ملک کی جیلوں میں پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن اقدام کا وعدہ کیا تھا۔

ابھی پچھلے سال کی ہی بات ہے کہ سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے وزیرِ اعظم عمران خان کے کہنے پر تقریباً 2107 پاکستانی قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس کی نصف تعداد بھی اب تک پاکستان واپس نہیں پہنچ پائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے وعدے کا کیا بنا؟

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے 2019 میں کیے گئے وعدے کے بعد بھی خاموشی ہوگئی اور اس معاملے پر کوئی خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی۔

پھر نومبر 2019 میں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک فہرست جمع کروائی، جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ 579 پاکستانی قیدی سعودی عرب سے واپس آئے ہیں۔

لیکن جے پی پی کے ترجمان علی حیدر حبیب نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ جب '579 قیدیوں کی اس فہرست کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ 2107 میں سے صرف 89 قیدی اس اعلان کے بعد واپس آئے ہیں۔ ان افراد کو عید سے پہلے پارڈن کردیا گیا تھا۔ جبکہ باقی قیدی سعودی شہزادے کے اعلان سے کافی پہلے واپس آچکے تھے۔'

تو کیا سعودی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی واپسی سعودی عرب اور پاکستان کے مابین سفارتی تذبذب کا شکار ہوچکی ہے؟

اس بارے میں دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری سے پوچھا گیا تو ان کی ٹیم نے دفترِ خارجہ کی جانب سے حالیہ دنوں میں جاری ہونے والی پریس ریلیز کا حوالہ دیا، جس میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ کسی بھی چپقلش سے منسلک 'افواہوں' کو رد کیا تھا۔

سعودی عرب سے قیدیوں کے واپس آنے کے بارے میں وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ تاثر غلط ہے کہ سعودی عرب سے کم تعداد میں قیدی واپس آئے ہیں۔ او پی ایف اور ہماری وزارت تمام تر قانونی اور سفارتی چارہ جوئی کر کے ان قیدیوں کی واپسی کو ممکن بنا رہے ہیں۔'

اس سوال پر کہ کیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات میں اونچ نیچ کے نتیجے میں قیدیوں کا تبادلہ رک جاتا ہے، زلفی بخاری نے کہا کہ 'یہ کہنا غلط ہوگا، کیونکہ ہمارے تعلقات تو تقریباً اچھے ہی رہتے ہیں۔ کبھی بہتر ہوتے ہیں، کبھی ٹھیک ہوتے ہیں۔‘

’قیدیوں کے تبادلے کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہم اس بارے میں بات کرتے رہیں، کیونکہ اگر ہم بات کرنا بند کردیں گے تو دوسرے ممالک بھی چپ ہو جاتے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ اس وقت دولتِ مشترکہ کے ممالک کے ساتھ پاکستان کا قیدیوں کی واپسی کا معاہدہ ہوا ہے 'اور ہماری کوشش ہے کہ مزید جو 9000 قیدی دیگر ممالک میں رہ گئے ہیں انھیں بھی اگلے سال تک واپس لے آئیں۔

(بشکریہ بی بی سی نیوز)


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US