ضلع دیامر میں دریائے سندھ کے کنارے ایک یا دو نہیں بلکہ سینکڑوں مشینیں سونا نکالنے کا کام کرتی نظر آتی ہیں لیکن مقامی سونے وال قبائل ان سے کیوں خائف ہیں؟
’میں کبھی اپنےہاتھوں سے دریائے سندھ کے کناروں سے سونا تلاش کرتا تھا۔ جس دن کام اچھا ہوتا تھا، اس روز لگ بھگ ایک گرام تک سونا مل جایا کرتا تھا۔ خاندان کی روزی روٹی سہولت سے چلتی تھی مگر پھر چند برس قبل ہمارے علاقے میں سونا نکالنے کا یہی کام مشینوں کے ذریعے ہونے لگا۔‘
’اب مجھےلگتا ہے کہ صدیوں سے دریائی پانیوں سے ہاتھوں کی مدد سے سونا نکالنے والے قدیم قبائل کے لیے جگہ باقی نہیں بچی۔ اب میں مشین والوں کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہوں، جو کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کے زیر انتظام خطے گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں مقیم حبیب اللہ کا۔
35 سالہ حبیب اللہ کے مطابق انھوں نے دریائی پانی سے سونا نکالنے کا کام اپنے آباو اجداد سے سیکھا تھا اور اُن سمیت ان کے قبیلے کے بیشتر افراد کو روزی کمانے کے لیے صرف یہی کام آتا ہے۔
حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے مقامی افراد، جو پہلے یہ کام ہاتھ سے کرتے تھے، مگر اُن کے پاس اپنی زمین تھی تو انھوں نے اب اپنی زمین پر مشین لگا کر یہ کام شروع کر دیا ہے۔
یہ مشینیں کرائے پر بھی مل جاتی ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا تاریخی طور پر پر اس پیشے سے کچھ لینا دینا نہیں مگر اُن کے پاس اپنی زمین تھی چنانچہ انھوں نے سونے نکالنے والوں اور مشینوں کے مالکوں کے ساتھ مل کر پارٹنر شپ کر لی اور اس کام میں داخل ہو گئے۔
حبیب کو شکوہ ہے کہ اس سب کے بیچ، ’پِس وہ قبائل گئے جو برسوں سے یہی کام ہاتھ کے ذریعے کر رہے تھے مگر جن کے پاس نہ تو بڑی مشینیں خریدنے کی استطاعت تھی اور نہ ہی وہ زمین کے مالک تھے۔‘
اعظم خان معروف سیاحتی مقام بابو سر ٹاپ کے رہائشی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں پہلے ہاتھ سے یہ کام کرتا تھا مگر چونکہ میرے قبیلے کے پاس اپنی زمین تھی چنانچہ ہم نے مشین والوں کے ساتھ پارٹنر شپ میں کام شروع کر دیا۔‘
گلگت بلتستان اور ضلع دیامیر میں جو لوگ دریا سے سونا نکالنے کا کام کرتے ہیں انھیں عموماً ’سونے وال قبائل‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان قبائل کی اپنی ایک انجمن بھی ہے۔
انجمن ’سونے وال قبائل‘ ضلع دیامیر کے سربراہ محمد رواں کے مطابق سنہ 2023 تک اُن کے علاقے میں مشینوں کا کوئی تصور نہیں تھا مگر پھر چند مقامی افراد، جو کہ زمینوں کے مالک ہیں، نے مختلف طریقوں سے مشینوں کو لانا شروع کر دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس علاقے میں سینکڑوں مشینیں نصب ہو چکی ہیں جو دریائی پانی سے سونا نکالتی ہیں۔
اس بات کی تصدیقوہاں کے رہائشی عظیم خان بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہمیرے قبیلے کی ملکیتی زمین پر دو مشنیں لگی ہوئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سونا تلاش کرنے کے لیے ہمارے علاقے میں سرکاری سطح پر کوئی زمینیا مخصوص جگہ الاٹ نہیں ہوتی۔ جس جگہ پر میں نے مشنیں لگائی ہوئی ہے، وہاں سے کچھ دور دیگر افراد نے چھ سے سات مشینیں لگائی ہوئی ہیں جبکہ اس علاقے میں کچھ کلومیٹر کے علاقے میں لگ بھگ 150 مشینیں لگی ہوئی ہیں۔‘
اگر آپ نے بھی کبھی پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا سفر کیا ہو تو آپ نے یقیناً دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ریت چھان کر سونا نکالتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ تاہم وقت کے ساتھ طریقے بدل گئے ہیں اور اگر آج ضلع دیامر میں دریائے سندھ کے کنارے، خصوصاً بھاشا ڈیم کے ریزروائر کے اطراف سفر کیا جائے تو وہاں ایک یا دو نہیں بلکہ سینکڑوں مشینیں سونا نکالنے کا کام کرتی نظر آتی ہیں۔
تقریباً 3180 کلومیٹر طویلدریائے سندھ تبت کی جھیل مانسروور سے نکلتا ہے اور پاکستان کے میدانوں کو سیراب کرتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ یہ دریا صدیوں سے انسانوں کے لیے تہذیب، تمدن، زندگی، خوشحالی اور رزق کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ وادی سندھ کی عظیم تہذیب سے لے کر آج تک دریائے سندھ کا اس خطے کی تاریخ اور معیشت میں اہم کردار رہا ہے۔
اور بعض افراد کے لیے یہ دریا واقعی سونا اُگلتا ہے اور اسی سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے۔
کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کیمپس کے شعبہ ماحولیات کے سربراہ ڈاکٹر فرید اللہ کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے جو مٹی اور ریت پائی جاتی ہے، اس میں سونا قدرتی طریقے سے شامل ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سونا بنیادی طور پر پہاڑوں کے اندر موجود دھاتوں کے ذخائر سے آتا ہے۔ پہاڑوں میں موجود سونے کے ریشے اور کانوں سے چھوٹے چھوٹے ذرات مختلف طریقوں سے نکل کر ندیوں اور پانی کے بہاؤ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور جب بارش یا گلیشیئرز کا پانی پہاڑوں سے نیچے بہتا ہے، تو یہ پانی پہاڑی چٹانوں اور مٹی اور ساتھ ہی سونے کے چھوٹے ذرات کو بھی بہا کر دریا میں لے آتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دریا کے بہاؤ کے دوران یہ ذرات بھاری ہونے کی وجہ سے نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور دریا کے کنارے کی ریت اور مٹی میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دریائے سندھ کی ریت اور مٹی میں سونے کے معمولی ذرات پائے جاتے ہیں۔‘
’خیبر پختونخوا اور پنجاب میں پابندی کے بعد سونا نکالنے والوں نے گلگت بلتستان کا رُخ کیا‘
دیامیر سے تعلق رکھنے والے عبداللہ کہتے ہیں کہ چند سال پہلے تک گلگت بلتستان میں سونا چھاننے والی مشینیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ ’پہلے یہ مشینیں زیادہ تر خیبر پختونخوا میں دریائے کابل اورپنجاب میں دریائے سندھ کے کنارے لگی ہوئی تھیں۔ مگر وہاں پر جب حکام کی جانب سے پابندیاں عائد کی گئیں تو اس کام سے منسلک لوگوں نے گلگت بلتستان کا رُخ کیا۔ گذشتہ دنوںپنجاب کے ایک سرمایہ کار نے میرے ساتھ رابطہ کیا اور مجھے کہا کہ اگر میں اس کو اپنی زمین پر مشین لگانے کی اجازت دوں تو وہ مجھے کرایہ دے گا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی زمین کرائے پر دینے کی بجائے منافع کے چالیس فیصد پر پارٹنر شپ کرنا زیادہ فائدہ مند سمجھا۔‘
ان کے مطابق ان ہی کی طرح اب بہت سے مقامی لوگ مشینوں والے کام سے منسلک ہیں اور وہ یا تو کرایہ لے رہے ہیں یا باہر کے لوگوں کے ساتھ پارٹنرشپ پر ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے حکومت پنجاب اور حکومت خیبر پختونخوا دریائے سندھ پر سونے کی تلاش یا مشنیری استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں اورسرکاری ریکارڈ کے مطابق گذشتہ دو برسوں میں ایسے غیر قانونی اقدامات کے خلاف 100 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے دریائے سندھ اور دریائے کابل کے کناروں پر سونے کی تلاش اور بغیر اجازت مائننگ پر پابندی عائد کی ہے اور دفعہ 144 بھی نافذ کی ہے۔
یہ پابندی صوابی، نوشہرہ، کوہاٹ اور دیگر متعلقہ علاقوں پر لاگو کی گئی ہے تاکہ غیر قانونی کان کنی، ماحولیاتی نقصان اور امن و امان کے مسائل سے نمٹا جا سکے جبکہ مقامی انتظامیہ کو غیر قانونی مشینری اور آلات ضبط کرنے کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔
’پہلے زیادہ سے زیادہ ایکگرام مگر اب پانچ سے چھ گرام سونا مل جاتا ہے‘
بی بی سی نے محکمہ معدنیات، چیمبر آف کامرس اور دیگر حکام سے گلگت بلتستان میں سونے کی تلاش کے بارے میں مصدقہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جامع سرکاری ڈیٹا دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔
عظیم خان کاکہنا ہے کہ جب وہ ہاتھوں سے سونا تلاش کرتے تھے تو ان کے خاندان کو ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ایک گرام سونا مل جاتا تھا۔ ’اب مشینوں پر میرے گھر کے چھ، سات لوگ کام کرتے ہیں اور ایک روز میں چھ سے سات گرام سونا مل جاتا ہے۔‘
نصرت خان مقامی شخص ہیں اور زمین کے مالک بھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے دریا کے ساتھ اُن کی زمینوں پر سونے والے قبائل سونا تلاش کرنے کا کام کرتے تھے مگر جب سے مشینیں آنا شروع ہوئیں تو انھوں نے اپنی زمنین کا کچھ حصہ پنجاب کی ایک پارٹی کو ’کرائے‘ پر دیا اور جب انھوں نے لوگوں کو کماتے دیکھا تو انھوں نے خود 2400 روپے فی گھنٹہپر مشین کرائے پر حاصل کر کے یہ کام شروع کر دیا۔
انجمن ’سونے وال قبائل‘ ضلع دیامیر کے سربراہ محمد رواں کہتے ہیں کہ اس صورتحال کے باعث صدیوںپرانا پیشہ (ہاتھ سے سونا نکالنا) دم توڑ رہا ہے۔
’ہمارے علاقے میں پہلے دھواں، شور شرابہ نہیں تھا مگر اب یہاں ہر وقت مشینوں اور جنریٹروں کا شور ہوتا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ آ جا رہے ہیں، گاڑیوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہو چکی ہے۔دیامیر اور چلاس کے علاقوں میں ایک نئی دنیا بس رہی ہے مگر اس شور شرابے میں ہماراپیشہ دم توڑ رہا ہے۔‘
محمد روان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کچھ لوگوں نے مشینیں اور زمین کرائے پر لے کر یہ کام کرنے کی کوشش کی، مگر مشین اور زمین کا کرایہ ملا کر خرچہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس سے خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا ہے، جس کے بعد وہ دوبارہ دیہاڑی کی تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت سے متعدد بار گزارش کی کہ ہم ماحول دوست طریقے کے ساتھ پانی، ریت اور مٹی سے روزگار تلاش کرتے ہیں۔ ہمیں اس کا موقع دیا جائے اور ہمارے لیے کوئی ایسا نظام وضح کیا جائے جس کی بدولت نہ صرف یہ صدیوں پرانا پیشہ اور ہنر زندہ رہے بلکہ ان 2300 خاندانوں کا روزگار بھی چلتا رہے جو تاریخی طور پر اس کام سے منسلک ہیں۔ مگر ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔‘
سونا نکلتا کیسے ہے؟
کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کیمپس کے شعبہ ماحولیات کے سربراہ ڈاکٹر فرید اللہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں دریائے سندھ اور اس کے معاون ندی نالوں کے کناروں پر سونا نکالنے کا بنیادی طریقہ صدیوں سے رائج ہے۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس طریقے کے تحت دریا کے کنارے سے ریت، بجری اور پتھر اکٹھے کر کے انھیں پانی میں پلیٹ (پین)، چھاننے کے جال، ٹب اور چھوٹے بیلچے کی مدد سے دھویا جاتا ہے، جس سے ہلکی مٹی بہہ جاتی ہے اور بھاری سونے کے باریک ذرات نیچے رہ جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس طریقہ کار سے ماحول کو کم نقصاں پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر فرید اللہ کا کہنا تھا کہ اب یہی کام مشینوں کے ذریعے ہو رہا ہے اور اس کے لیےبھاری مشینری جیسا کہ ایکسکیویٹر، پانی کے پمپ اور چھاننے والی صنعتی مشینیں استعمال کی جاتی ہیں، جن کے ذریعے تھوڑے وقت میں بڑی مقدار میں ریت اور مٹی کو صاف کر کے زیادہ سونا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
گلگت بلتستان منرل اینڈ مائنز کے ڈائریکٹر احمد خان کے مطابق ضلع دیامر میں زیادہ تر مشینیں بھاشا ڈیم کے ریزروائر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں نصب ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن میں سے کئی مشینیں غیر قانونی ہیں، جنھیں قانونی دائرے میں لانے کا عمل جاری ہے جبکہ غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں انتظامیہ کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
احمد خان کے مطابق دریائے سندھ پر کان کنی کرنے والوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ گلگت بلتستان منرل اینڈ مائنز کے پورٹل پر درخواستیں جمع کروائیں، تاکہ انھیں مرحلہ وار قانونی حیثیت دی جا سکے۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں دریائے سندھ سے سونا نکالنے کے لیے کوئی الگ قوانین نہیں ہیں بلکہ انھیں اس خطے میں کان کنی کےلیے متعارف کروائے گے قوانین، گلگت بلتستان مائننگ رولز 2016اور اس میں 2024 میں کی گئی ترامیم، کے تحت دیکھا جاتا ہے۔تاہم دوسری جانب خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اس ضمن میں اب قوانین بنائے گئے ہیں اور ان کے تحت پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
’مشینوں کا استعمال گلیشیئرز کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے‘
ڈاکٹر فرید اللہ کہتے ہیں کہ مشینوں کے ذریعے سونا نکالنے میں ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز، ایکسکیویٹرز اور صنعتی پمپس استعمال ہوتے ہیں اور ان تمام مشینوں سے نکلنے والا دھواں کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر اور باریک ذرات پر مشتمل ہوتا ہے اور جب یہی باریک ذرات فضا میں پھیلتے ہیں تو سانس کی بیماریوں، آنکھوں کی جلن اور سینے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’سب سے خطرناک یہی بات لگتی ہے کہ بلیک کاربن ہوا کے ذریعے جب ان علاقوں میں موجود گلیشیئرز تک پہنچتا ہے تو اس کے باعث گلیشئرز سورج کی حرارت زیادہ جذب کرتے ہیں اور نتیجے میں ان کے پگھنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ہاتھ سے سونا نکالنے کے روایتی طریقے میں چونکہ جنریٹر یا بھاری مشینیں استعمال نہیں ہوتیں، اس لیے ہوا کی آلودگی نہ ہونے کے برابر ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر فرید اللہ کا کہنا تھا کہ مشینری کے ذریعے کان کنی میں جنریٹرز، کرشنگ مشینیں اور بھاری گاڑیاں مسلسل شور بھی پیدا کرتی ہیں اور یہ شور نہ صرف انسانوں کے لیے ذہنی دباؤ، نیند کی کمی اور سماعت کے مسائل کا باعث بنتا ہے بلکہ ان علاقوں میں جنگلی حیات کو بھی متاثر کرتا ہے۔
’پہاڑی علاقوں میں یہ شور دور تک سنائی دیتا ہے اور پرامن وادیوں کا قدرتی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہاتھ سے سونا تلاش کرنے میں شور نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور ماحول نسبتاً خاموش اور قدرتی رہتا ہے۔‘
پانی کی آلودگی کا خطرہ
ڈاکٹر نصرت احسان لاہور بزنس سکول میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہی ہیں اور ایک ماحولیاتی کنسلٹنٹ بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اب مشینوں کے ذریعے دریا کی ریت اور مٹی کھودی جاتی ہے، جس سے پانی گدلا ہوتا ہے اور اس گدلے پانی میں مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار زندہ نہیں رہ پاتے، ان کے انڈے تباہ ہو جاتے ہیں اور آبی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات مشینوں سے ڈیزل اور تیل کے رساؤ سے پانی مزید آلودہ ہو جاتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مشینری کے استعمال سے دریا کے کنارے کٹاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور زمین بیٹھ جاتی ہے۔ اور اگر یہی صورتحال زیادہ عرصہ جاری رہے تو دریاقدرتی راستہ بھی بدل سکتا ہے اور سیلاب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر فرید اللہ اور ڈاکٹر نصرت احسان دونوں متفق ہیں کہہاتھ سے سونا نکالنے کا طریقہ ماحول دوست تھا کیونکہ اس میں ’نہ ہوا آلودہ ہوتی تھی، نہ شور پیدا ہوتا تھا اور نہ ہی گلیشیئرز متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا تھا، اس کے مقابلے میں مشینری سے کان کنی اگرچہ زیادہ سونا اور زیادہ منافع دیتی ہے مگر اس کے نتیجے میں ہوا، پانی، زمین، شور اور گلیشیئرز سب متاثر ہو رہے ہیں۔‘
ان ماہرین نے زور دیا کہ اگر اس کام کے لیے مشینوں کا استعمال ناگزیر ہے تو اس کے لیے سخت ماحولیاتی قوانین، نگرانی اور ماحول دوست طریقے اپنانا ضروری ہیں ورنہ دریائے سندھ اور اس سے جڑے گلیشیئرز کو طویل مدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
گلگت بلتستان محکمہ ماحولیات اور محکمہ معدنیات کے مطابق ان کے پاس سونا کی کان کنی کرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے اس وقت اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں تاہم اس وقت دونوں محکمے سرگرم عمل ہیں اور انھوں نے غیر قانونی کان کنی کرنے والوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں اور اس پر کارروائی کی جا رہی ہے۔
محکمہ ماحولیات گلگت بلتستان کے خادم حسین کہتے ہیں کہ ’پہلے لوگ ہاتھوں سے سونا تلاش کرتے تھے جس میں وہ پارہ استعمال کرتے تھے جس کا بہت زیادہ نقصان ہوتا تھا، مگر اب جب یہ کام کمرشل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے اور ایسے علاقوں میں کیا جا رہا ہے جہاں سے حالیہ عرصے میں سیلاب گزرے ہوں۔‘
تاہم محمد روان اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ ہاتھ سے سونا تلاش کرنے والے پارے کا استعمال کرتے ہیں۔
خادم حسین کا کہنا تھا کہپیڑول و ڈیزل سے دریا کو آلودہ کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہپارے کا استعمال ممنوع ہے۔
احمد خان کا کہنا تھا کہ سونے کی کان کنیکے حوالے سے مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں۔