بیت اللحم میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے وابستہ گرجا گھر کے برابر والی تنگ گلی عام طور پر یادگاری تحفے بیچنے والوں سے بھری رہتی ہے۔ مقامی دکان دار سیاحوں کو انگریزی، پولش یا ہسپانوی زبان میں پکارتے ہیں۔
لیکن اس مرتبہ کورونا وبا کی وجہ سے یہاں مناظر تھوڑے مختلف ہیں۔ سیاحوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں اور دکانیں بند ہیں۔ اس چھوٹے سے گرجا گھر کو اکثر سیاح نظر انداز بھی کر دیتے ہیں۔
جب میں غار شیر کے نام سے مقبول گرجا گھر پہنچی تو مجھے یہ دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی کہ وہاں بھی ایسا ہی ماحول تھا۔
نوے کی دہائی میں یہاں آنے والی نن سسٹر ناومی زمرمان کہتی ہیں مجھے یہاں امید کا احساس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ جاننا زبردست بات تھی کہ اس مقام پر آج بھی معجزے ہوتے ہیں۔ یہاں خواتین اور بچوں کی صحت سے متعلق زندگی بدلنے والے معجزات پیش آتے ہیں۔
اس مقام کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں حضرت مریم کے دودھ کے قطرے گرے جن سے لال رنگ کی غار کی دیوار سفید ہو گئی۔
عقیدت مندوں کا خیال ہے کہ اس گرجا گھر میں موجود چٹان سے ملنے والے چونے کو دودھ کے پاوٴڈر کے طور پر استعمال کرنے سے خواتین کی صحت سے متعلق مسائل حل ہو جاتے ہیں، خاص طور پر صلاحیت تولید سے متعلق مسائل۔
بیت اللحم کے مقامی افراد غار شیر کی طاقت کے بارے میں متعدد داستانیں سناتے ہیں۔
ایک خاتون کے مطابق یہاں کئی برسوں تک اولاد کے لیے کوششوں کے بعد انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ یہاں گڑگڑا کر مراد مانگی اور کرسمس کے ہی موقع پر ان کے ہاں اولاد کی پیدائش ہوگئی۔ وہ کہتی ہیں یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا تحفہ تھا۔
ٹُور گائیڈ سواڈ اسفایر نے بتایا کہ ان کے قریبی دو افراد یہاں سے فیض یاب ہوئے۔
وہاں موجود خاتون نے بتایا کہ میری ایک دوست امریکہ سے آئی تھی جو اپنی ایک کزن کے لیے یہاں سے پاوٴڈر لے کر گئی تھی جس کی 25 برس سے بے اولاد تھی۔ ایک برس بعد جب وہ واپس آئی تو اس نے مجھے اپنی کزن اور اس کے نومولود بچے کی تصویر دکھائی۔
سسٹر ناومی کہتی ہیں کہ آپ چاہیں تو اس پاوٴڈر کی اہمیت اور اس سے وابستہ امیدوں کو رد کر سکتے ہیں لیکن یہ عقیدے کی بات ہے۔
گرجا گھر کے باہر چھوٹے سے دفتر میں لوگوں کے عقیدوں اور صحت یابی کے متعدد ثبوت نمائش پر ہیں۔ برسوں سے دنیا بھر سے انھیں بھیجے جانے والے جذباتی خطوں کا سلسلہ جاری ہے جو ان معجزات کی پیروی کرتے ہیں۔
انڈیا کے ایک جوڑے نے اپنے بچے کے ساتھ ایک تصویر بھیجی۔
دو بار حمل ضائع ہو جانے کے بعد انھوں نے یہاں آ کر پاوٴڈر حاصل کیا۔ وہ خط میں لکھتے ہیں کہ 'اب وہ خوشحال ہیں۔
ایک فرانسیسی خاتون نے مجھے بتایا 'میں بہت روئی اور میرے آنسو ہی میری دعا تھے۔ انھوں نے بتایا کہ یہاں آنے کے دو ماہ کے اندر وہ حاملہ ہو گئیں۔
غار سے گرجا گھر میں تبدیل ہونے والے اس مقام پر مختلف مذاہب کے لوگ آتے ہیں۔ گرجا گھر میں جگہ جگہ آپ کو پرانے بغیر تراشے ہوئے پتھر بھی دکھائی دیں گے۔ اندر داخل ہوتے ہی آپ کو ٹھنڈک اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔
ایک کونے پر لکھی آپ کو خاموشی کی ہدایات نظر آتی ہیں۔ نیچے ایک جدید قسم کا چیپل ہے جہاں نن مسلسل دعا کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں۔
میں نے یہاں مسلمان خواتین کو بھی موم بتیاں جلاتے دیکھا ہے۔ مختلف ممالک کی خواتین یہاں آ کر حضرت مریم کے مجسمے کے سامنے خاموشی سے بیٹھی دعائیں مانگتی رہتی ہیں۔
کووڈ 19 کی وبا کے سبب گرجا گھر کو ہر صبح محض چند گھنٹوں کے لیے ہی کھولا جاتا ہے۔ مجھے پتا چلا کہ بوتروس نامی ایک نوجوان تالا لگانے کی تیاری کر رہا ہے۔
وہ ایک جنوبی امریکہ کے جوڑے کے کہنے پر ان کے لیے یہاں اولاد کی دعا بھی مانگ رہا ہے۔
وبا کے سبب اس ماہ بیت اللحم میں ہر برس کے مقابلے بہت کم سیاح اور زائرین آئے ہیں۔ اولاد کی خواہش کے باوجود اولاد نہ ہونا کوئی معمولی دکھ نہیں۔ بچہ زندگی میں خاص ذائقوں کو شامل کرتا ہے۔
حضرت عیسیٰ کی ولادت سے وابستہ گرجا گھر لوگوں کو یہاں کرسمس کے دوران پیدائش کے جشن کے لیے موقع دیتا ہے تو غار شیر میں بنا گرجا گھر وہ خوشی اور امید پیدا کرتا ہے جو ہر آنے والا بچہ والدین کے لیے لاتا ہے۔
(بشکریہ بی بی سی نیوز)