سائنس کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ ترکی کے ایک مندر کے اندر جو بھی جاتا ہے وہ مر جاتا ہے۔ یہ قدیم مندر ترکی شہر ہیراپولس میں واقعہ ہے۔ اس مندر کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ جو بھی انسان یا پرندے اندر جاتے ہیں وہ مر جاتے ہیں۔اس مندر کے اندر بہت اندھیرا ہوتا ہے جس سے کچھ بھی نظر نہیں آتا، مقامی لوگ اسے دوزخ کا دروازہ بھی کہتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ترکی کا یہ شہر ہیراپولس ان لوگوں کی توجہ مرکز تھا جو ایڈونچر کے شوقین تھے لیکن اس مندر کی وجہ سے اب وہاں کوئی نہیں آتا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب اس مندر کا معاملہ اور بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔
قدیم شہر ہیراپولس میں تعمیر کردہ اس ہیکل کو کا راز صرف دو سال قبل دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اب اسے پلوٹو کا مندر یعنی موت کے مندر کہا جانے لگا، پچھلے کافی عرصے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو بھی اس ہیکل کے اندر یا اس کے آس پاس جاتے ہیں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔جب بھی کوئی سیاح یا ریسرچر اس مندر کے اندر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو مقامی لوگ انہیں پہلے تو روکتے ہیں اور پھر بھی اگر یہ نہ روکیں تو انہیں ایک پنجرے میں قید پرندہ دے دیا جاتا ہے تا کہ
جب یہ اس مندر کے صحن میں جائیں تو اسپرندے کی موت دیکھ کر سبق سیکھیں تو بلکل ایسا ہی ہوتا ہے چند منٹوں میں پرندہ مر جاتا ہے، یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد انکا سارا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور واپس چلے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ فروری2018 میں محققین پر یہ انکشاف ہوا کہ پراسرار مندر میں دھواں کیوں ہے؟ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مندر کے نیچے غار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی ایک بڑی مقدار موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہر کے قریب گرم پانی کے چشمے کے اندر سے دوسری مختلف قسم کی زہریلی گیسیں نکل رہی ہیں۔
عام طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اتنی خطرناک نہیں ہے صرف 10 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہی 30 منٹ کے اندر کسی شخص کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔ ہماری فضا میں یہ گیس 0.039 فیصد تک ہے، ہیکل کے احاطے میں اس کی مقدار91 فیصد ہے جو کہ بے حد مہلک ہے۔
اس کی وجہ سے یہ زمین کے نیچے رہتی ہے اور مندر کے اندر دھواں کا گہرا سایہ ہوتاہے، اس زہریلی گیس کی وجہ سے ہی یہاں آنے والے لوگ دم توڑ جاتے تھے۔