ہم وہ بدنصیب ہیں جنہیں ماں باپ خود پیدا تو کرتے ہیں، مگر اولاد کے طور پر قبول نہیں کرتے ۔۔ خواجہ سرا کی دردناک کہانی

image

خواجہ سرا بھی ایک انسان ہیں وہ کس دردناک تکلیف سے روزانہ گزرتے ہیں وہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، صرف اور صرف وہی سمجھ سکتے ہیں اپنا درد۔ ایسے ہی ایک خؤاجہ سرا کی کہانی ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں جو گھر سے بھاگ کر گیا اور 26 سال بعد ایچ آئی وی ایڈز کی آگاہی مہم کا سربراہ بن گیا۔

بھارتی خواجہ سراہ سمرن شیخ کہتے ہیں کہ: '' میں 14 سال کی تھی جب گھر والوں کے منفی رویے کی وجہ سے گھر چھوڑ کر نکلی تھی، اور میں نے اپنی مرضی سے یا گھر والوں کو بناء بتائے گھر نہیں چھوڑا تھا، بلکہ اپنے باپ کو کہا تھا کہ میں گھر چھوڑ کر جا رہی ہوں جس پر میرے باپ نے کہا گیٹ لوسٹ، نکلو یہاں سے۔۔۔ میری عزت کا داغ جانے میں دیر کیوں کر رہا ہے؟ جاؤ دفع ہو جاؤ، ماں کی طرف دیکھا، بھائی بہن کی شکل دیکھی کوئی مجھے اپنانے کے لئے تیار نہ تھا۔ میں گھر سے نکلی جیب میں مکمل 16 روپے تھے، 3 دن تک سٹیشن پر رہی اور پھر ایک دن ہجڑا سماج کے لوگ ائے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے، وہاں سے میری زندگی شروع ہوئی، میں نے بھی ان کے رنگ میں خود کو رنگا، مگر میں اس سے رضامند نہیں تھی، 17 سال کی عمر میں کچھ پیسے میں نے کما لئے تھے، بس اس دن سے میں نے پڑھنا شروع کیا، لیکن پڑھنے کے لئے بھی کوئی داخلہ دینے کے لئے تیار نہ تھا، بھیک امنگ مانگ کر کرائے کے والدین اکھٹے کئے، سرٹیفیکٹ بنوایا، جعلی طریقے سے پڑھنے شروع کیا، اس کے بعد ایچ آئی وی آیڈز کے یو این او کے لوگ جب ہماری سوسائٹی میں لوگوں کی آگاہی مہم کے لئے آئے تو ان کے ساتھ کارکن بن کر کام کیا، ایک دو لوگوں کی مدد سے اس شعبے میں تعلیم حاصل کی اور اب میں حکومتی اور بین الاقوامی سطح پر ایچ آئی وی ایڈز کی آگاہی مہم کی سربراہ بن چکی ہوں، آج میں اتنی ترقی یافتہ ہوگئی ہوں، مگر اب بھی میرے ماں باپ مجھے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میں نے زندگی بھر رو رو کر خود کو یہ سمجھایا ہے کہ میرا مخلص مجھے پیدا کرنے والا بھی نہیں ہے تو اور کون ہوگا، لیکن میرے کچھ قریبی دوست اور اساتذہ ہیں جن کی بدولت میں یہاں تک پہنچی ہوں جن کا میں شکریہ ادا کرتی ہوں۔ ''

انہوں نے معاشرے کی برائی بتاتے ہوئے مذید کہا کہ: '' ہم وہ بدنصیب ہیں، جنہیں ماں باپ خود پیدا تو کرتے ہیں، مگر اولاد کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ ہماری کیا غلطی اس میں کہ ہماری جنس ایک مرد یا ایک عورت نہیں؟ اگر انسان خود اپنی مرضی سے پیدا ہو تو وہ جو چاہے پیدا ہو جائے، پھر تو کوئی خواجہ سرا پیدا ہی نہ ہو، بہت تکلیف ہوتی ہے جب کوئی ہمیں آواز لگا کر چیخ چلا کر کہتا ہے کہ دیکھو ہجڑا آ رہا ہے، اس کا تو کام ہے نانچنا، ہمیں نانچنے کا کوئی شوق نہیں اور نہ ہاتھ پھیلا کر مانگنے کا، کبھی سوچا ہے کہ ہم کیوں مانگتے، ہم کیوں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟ کیونکہ آپ لوگوں نے ہمیں نوکری نہیں دی، آپ لوگوں نے ہمیں پڑھنے کا موقع نہیں دیا، ہم سڑکوں پر اپنی مرضی سے نہیں بھٹکتے، ہمیں ہمارے ماں باپ تک زلیل و رسوا ہونے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، ہماری ماؤں کے دل میں پتہ نہیں کونسا کلیجہ خدا ڈال کر بھیجتا ہے کہ جو زندگی بھر ہمیں دیکھنے کے لئے نہیں ترستیں؟ باپ کی شفقت ہمارے لئے نہیں ہوتی، ہم وہ ہیں جن کے باپ ان کی انگلیاں پکڑ کر انہیں اسکول نہیں چھوڑنے جاتے بلکہ ہجڑا سماج کے لوگوں جسے خواجہ سرا کمیونٹی کہتے ہیں وہاں اپنا منہ ڈھانپ کر چھوڑنے جاتے ہیں کہ کہیں ان کی عزت پر ہماری وجہ سے داغ نہ پڑ جائے۔ ہمیں کوئی گالی دینے کا شوق نہیں ہوتا، ہمیں گالیاں دینا، غلط کام کرنا آپ کا ہی معاشرہ سکھاتا ہے جسے آپ لوگ مہذب معاشرہ کہتے ہیں۔ ''


About the Author:

Humaira Aslam is dedicated content writer for news and featured content especially women related topics. She has strong academic background in Mass Communication from University of Karachi. She is imaginative, diligent, and well-versed in social topics and research.

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts