"اپنے بیٹے کو یاد کرتی ہوں تو کلیجہ جلنے لگتا ہے۔ دو مہینوں سے ٹھیک سے کچھ کھا بھی نہیں پارہی ہوں"
یہ کہتے ہوئے کشمیر کی بزرگ خاتون حافظہ بیگم رو پڑیں۔
شوکت احمد غنائی کا قصور صرف اتنا تھا کہ انھوں نے ٹی ٹوئینٹی سیریز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی تعریف کی تھی اور وہ پاکستانی کھلاڑیوں کو پسند کرتے تھے۔
میرے بھائی کو صرف میسج کرنے پر پولیس نے گرفتار کرلیا
ان کی بہن فینسی بانو کہتی ہیں کہ "میرا بھائی صرف دوستوں سے میسج پر بات کررہا تھا کہ اچانک پولیس اسے اٹھا کر لے گئی"
بابر اعظم کی تعریف کی تو کیا یہ جرم ہے؟
بی بی سی کے مطابق شوکت، ارشد اور عنایت آگرا کے ایک کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور انڈیا اور پاکستان کے درمیان کھیلے جانے والے میچ میں پاکستان کو فتح ملنے پر خوش تھے جس کے بعد انھوں نے واٹس ایپ پر 3 پیغامات بھیجے۔ ایک پیغام میں پاکستانی کرکٹر بابر اعظم کی تعریف بھی کی اور اسی وجہ سے بھارتی پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا۔
کوئی وکیل کیس لڑنے کو تیار نہیں
افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت جس کشمیر کو اپنا حصہ کہتا ہے اسی کے شہریوں پر ظلم ڈھاتے ہوئے بھارت کا کوئی بھی وکیل شوکت کا کیس لڑنے کو تیار نہیں کیوں کہ ان کے مطابق شوکت نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو سراہ کر ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
عالمی برادری خاموش تماشائی بن گئی ہے
ظلم کی یہ داستان کچھ نئی نہیں۔ مودی سرکار میں بھارت کے اندر رہنے والے مسلمان پچھلے دس سالوں میں کبھی بھی محفوظ نہیں رہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ کشمیر پر ناجائز قبضے اور شوکت جیسے بے گناہ نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے باوجود پوری دنیا خاموش تماشائی بن کے بیٹھی ہے۔