بیماری کوئی سی بھی ہو انسان کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ کینسر، ذیابیطس، ٹی بی یہ وہ بیماریاں ہیں جن کے بارے میں ہم روز مرہ زندگی میں سنتے رہتے ہیں۔
مگر کچھ ہوتی ہیں پُراسرار بیماریاں جن کی گہرائی میں جاکر بھی تحقیق کی جائے تو واضح ثبوت نہیں مل پاتے۔ ایک ایسی ہی پراسرار بیماری کے بارے میں آج ہم بات کرنے جا رہے ہیں جس کا شکار کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے 2 بھائی ہوئے۔
کوئٹہ کے گاؤں میانگ ہنڈی میں رہنے والے 2 بھائی جن کے نام شعیب اور عبدالرشید ہیں۔ ان دونوں بھائیوں کی کہانی سال 2016 میں سامنے آئی۔ اس وقت شعیب 13 سال کا تھا جبکہ عبدالرشید 9 برس کا۔
شعیب اور عبدالرشید کے والد محمد ہاشم کوئٹہ کی آئی ٹی کمپنی میں بطور سیکیورٹی گارڈ اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
یہ معاملہ کچھ اس طرح شروع کیا کہ پہلے تو شعیب اور عبدالرشید سارا دن بالکل ٹھیک طرح سے کام کرتے تھے۔ یہ اسکول بھی جاتے تھے، کھانا کھیل کود سب کرتے تھے لیکن جیسے ہی سورج غروب ہونے لگتا تو اچانک دونوں بھائیوں کے جسم سے جان ختم ہونا شروع ہوجاتی۔
یہ دونوں بھائی شام ہوتے ہی بے جان ہوجاتے تھے۔ اور حرکت کرنا بھی بند کردیے تھے۔ دونوں کو ایک بستر پر لٹا دیا جاتا تھا جہاں سے یہ ہل بھی نہیں سکتے تھے۔
حیرت انگیز طور پر جب سورج طلوع ہونے لگتا تو آہستہ آہستہ دونوں کے جسم میں جان آنا شروع ہوجاتی تھی۔ شعیب اور عبدالرشید کو سولر کڈز آف پاکستان یعنی (شمسی توانائی سے چلنے والے بچے) کا نام دیا تھا۔ یعنی ایسے بچے جن کا جسم صرف سورج کی روشنی میں حرکت کرتا تھا۔ یہ دونوں بھائی بچپن ہی سے اس عجیب بیماری کا شکار تھے۔
شعیب اور عبدالرشید کو ملا کر آٹھ بہن بھائی تھے جن میں سے اور 2 کے ساتھ یہ مسئلہ درپیش تھا لیکن ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ مذکورہ بیماری خاندان کے صرف مرد لڑکوں کو ہی ہوتی تھی۔
دونوں بھائیوں کو جب ڈاکٹرز کے پاس لے کر جاتے تھے تو انہیں اس بیماری کے حوالے سے سمجھ نہیں آتی اور وہ پریشان ہوجاتے۔ ان دونوں بھائیوں کو ہر میڈیا چینل نے کوور کیا تھا۔
بیماری کیا تھی اور اس کا پتہ کیسے چلا؟
پٹھوں کی تھکاوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی پٹھوں پر قوت پیدا کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیتی ہے، جس سے وہ مفلوج ہو جاتا ہے۔ یہ پٹھوں کی تھکاوٹ کی خطرناک شکل ہے۔ پٹھے عام طور پر کام کرتے ہیں لیکن جلدی تھک جاتے ہیں۔
اس بیماری کے نتیجے میں جو تھکاوٹ ہوتی ہے وہ کچھ گھنٹوں یا پورے دن یا رات تک رہ سکتی ہے۔ اس بیماری سے اگر کوئی شخص زیادہ دیر تک غیر فعال رہے تو وہ ذہنی مریض بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بیماری بہت نایاب ہے. یہ عام طور پر بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنی علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتی ہے لیکن اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
پاکستانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ اڑتیس سے زیادہ طبی ماہرین ان بچوں کا معائنہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے ان دونوں بچوں کی بیماری پر کام کرنا شروع کیا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں رشتے داروں میں شادیاں ہونے کا رجحان زیادہ ہے اور ایسا لگتا ہے یہ بچے کسی جینیاتی مرض میں مبتلا ہیں۔
بی بی سی اردو کی ایک 2016 کی رپورٹ کے مطابق شعیب اور عبدالرشید کے تین سو سے زائد ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اکرام نے بتایا تھا کہ ’ان کے دماغ میں نیورو ٹرانسمیٹر ایمبلینس ہے۔ اعصاب اور پٹھوں کی ٹرانسمیشن میں حصہ لینے والے کمپاونڈ۔ جیسے سیریٹونن اور ڈوپامین وغیرہ میں عدم توازن ہے۔اس سے پہلے دنیا میں اس طرح کی بیماری کہیں رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔
2016 سے ہی یہ خبر سامنے آئی کہ شعیب اور عبدالرشید کی اس بیماری میں کمی آئی ہے اور دونوں بچے رات کے وقت حرکت کرسکتے ہیں۔