سابق ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا علوی 2008 میں سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئیں تھیں اور 2013 میں پھر دوبارہ اسی منصب پر منتخب ہوئیں تھیں۔ یہ صرف ایک سیاستدان ہی نہیں بلکہ سماجی ورکر بھی ہیں۔ یہ شروع سے عوامی انداز اپناتی آئی ہیں۔ شہرِ کراچی میں اکثر یہ مختلف علاقوں کے دوروں پر نکل پڑتی ہیں۔
شہلا رضا ہر کسی کی عیادت کرنے سب سے پہلے پہنچ جاتی ہیں۔ کہیں کوئی بیمار ہو یا کوئی تکلیف میں ہو یہ سب سے پہلے لواحقین اور متعلقہ شخص سے ملتی ہیں۔ دُعا زہرہ کیس میں بھی شہلا سب سے پہلے اس بچی کے والدین سے ملنے گئیں اور کیس کی چھان بین میں مدد کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ جب بلقیس ایدھی صاحبہ علیل ہوئیں تو یہ ان کے پاس بھی ملنے گئیں۔۔ 2 دن قبل کراچی کے علاقے کھارادر میں ہونے والے زوردار دھماکے میں ایک خاتون جاں بحق ہوگئی تھی۔ ان سے متعلق کسی سیاستدان نے کوئی بیان نہ دیا لیکن یہاں بھی شہلا رضا سب سے پہلے خاتون کے گھر والوں سے ملنے کے لئے گئیں اور تعزیت کی۔
شہلا اپنے حلقے میں سب سے زیادہ سرگرم رہتی ہیں اور اکثر گشت پر نکل پڑتی ہیں۔ 2010 میں کراچی کے علاقے الآصف اسکوائر پر ٹارگٹ کلنگ کے نام پر ایک نوجوان کا بیہیمانہ قتل کیا گیا۔ اس نوجوان کے اہلِ خانہ سے بھی شہلا نے ملاقات کی اور ان کی مالی مدد بھی کی گئی۔
ان کی سیاست میں جہاں دیگر داؤ پیچ نظر آتے ہیں وہیں ان کا یہ عمومی انداز ان کی مقبولیت میں اضافہ کر دیتا ہے۔
ان کا سیاسی کیریئر جامعہ کراچی میں تعلیم کے دوران ہی شروع ہوا جب 1986 میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی۔ اس وقت یہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئیں، پھر 3 سال بعد ان کو پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا جوائنٹ سکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد 2009 کے انتخابات کے لیے سندھ اسمبلی میں "خواتین کی مخصوص نشست" کے لیے منتخب ہوئیں۔