کسی بھی مذہب کو قبول کرنا یا اس کے عقائد کو ماننا ہر شخص کا اپنا ذاتی حق ہے جس پر سوال جواب کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ظاہر ہے ہر کوئی عاقل ہے اور اپنا مذہب اپنی مرضی سے چننے کا حق رکھتا ہے۔ ہم اکثر غیر مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جو یہ کہتے ہیں اسلام ایک آسان اور خوشنما مذہب ہے۔ کئی لوگ اسلام قبول کرنے کے بعد خُدا کے دین کو مرضی و خوشی سے مانتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔
لیکن بھارت کے ایک نوجوان کو اسلام قبول کرنے کی بڑی سزا والد کی بے حسی کی صورت میں ملی۔
ابو سعید عبداللہ نامی نوجوان نے اسلام قبول کیا اور اپنی مرضی کے مطابق اس مذب کا انتخاب کیا، اس کو والد نے گھر میں تو رکھ لیا مگر اس کو قبول نہ کیا اور بہت جلد اس لڑکے نے ہاسٹل میں اپنی رہائش کا انتظام کرلیا جس کے بعد وہ نہ صرف اپنے تمام تر اخراجات خود اٹھا رہا تھا بلکہ ماں سے ملنے کے لیے بھی تڑپتا تھا مگر والد کو اسکی موجودگی پسند نہ تھی۔
13 جنوری کو ٹرین سے گھر واپس جاتے ہوئے اس کا خوفناک حادثے میں انتقال ہوگیا جب پولیس نے پوچھ گچھ کی اور اس کے گھر والوں سے رابطہ کیا، والد سے کہا کہ بیٹے کی لاش لے جاؤ تو انہوں نے جوان بیٹے کی لاش کو بھی دیکھنے یا قبول کرنے سے منع کردیا اور بے یارومددگار چھوڑ دیا۔
سعید کی میت کو کس نے دفنایا؟
سعید چونکہ اسلام قبول کرچکا تھا اس کے مسلمان دوستوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ گھر والوں نے اس کو قبول کرنے سے منع کردیا ہے تو اس کے دوستوں نے تمام تر انتظامات خود کیےا ور اپنے دوست کی میت کو غسل دیا۔
لوگ پسند کیوں کر رہے ہیں؟
سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ بہت وائرل ہورہی ہے اور ہر کوئی سعید کے دوستوں کے اس ہمدردانہ رویے کو خوب پسند کر رہا ہے کیونکہ زندگی میں ساتھ کئی لوگ دے جاتے ہیں، لیکن کسی کی موت کے بعد افسوس کرنے والے تو آتے ہیں لیکن اس حال میں بھی مدد کرنے والے دوست کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتے ہیں۔