مشرق وسطیٰ میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (الأونروا) کے مطابق اس کیمپ میں تقریباً چودہ ہزار افراد آدھے مربع کلومیٹر سے بھی کم رقبے والے علاقے میں رہتے ہیں۔ اب یہاں صرف لڑائی کا منظر ہے۔

اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے جنین میں سینکڑوں اسرائیلی فوجی تعینات ہیں اور لڑائی کے باعث کم از کم 3000 فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑ کر انخلا پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے پیر کے روز جنین پناہ گزین کیمپ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیا جسے گذشتہ 20 سالوں کا سب سے بڑا آپریشن کہا جا رہا ہے۔ اسرائیلی آپریشن کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق کم از کم11 فلسطینی ہلاک اور 100 زخمی ہوئے ہیں جن میں سے 20 کی حالت نازک ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کا سامنا جنین بریگیڈز سے ہے، جو کہ مختلف فلسطینی ملیشیاؤں پر مشتمل یونٹ ہے اور شہر کے وسط میں قائم پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔
مشرق وسطیٰ میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (الأونروا) کے مطابق اس کیمپ میں تقریباً چودہ ہزار افراد آدھے مربع کلومیٹر سے بھی کم رقبے والے علاقے میں رہتے ہیں۔ اب یہاں صرف لڑائی کا منظر ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق اس کا مقصد ’دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے‘ کو تباہ کرنا اور ملیشیاؤں کو غیر مسلح کرنا ہے۔
لیکن بی بی سی کے یروشلم کے نامہ نگار یولینڈے کنیل نے خبردار کیا کہ ’غزہ سمیت مزید فلسطینیوں کی جانب سے ردعمل کا خطرہ ہے‘۔
گذشتہ روز تل ابیب میں ایک گاڑی سات افراد پر چڑھ گئی ، جس سے تین شدید زخمی ہوئے۔ اسلامی تنظیم حماس نے اسے جنین میں فوجی آپریشن سے منسوب کرتے ہوئے اس حملے کو ’بہادرانہ‘ قرار دیا ہے۔
جنین میں فوج آپریشن کا سبب کیا ہے؟
اسرائیلی فوجیوں کا سامنا جنین بریگیڈز سے ہے، یہ یونٹ حماس اور اسلامی جہاد سمیت مختلف فلسطینی ملیشیاؤں پر مشتمل ہے۔حالیہ ہفتوں میں کیمپ کے اردگرد تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
گذشتہ ماہ 20 جون کو جنین پر اسرائیلی حملے میں سات فلسطینی مارے گئے، جس میں فوج نے حملہ آور ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا۔
اگلے دن حماس کے دو عسکریت پسندوں نے جنین سے 40 کلومیٹر جنوب میں ایلی بستی کے قریب ایک گیس سٹیشن اور ایک ریستوران میں چار اسرائیلیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس حملے کے بعد سینکڑوں اسرائیلی آباد کاروں نے قریبی قصبے ترمسایا میں مکانات اور کاروں کو مسمار اور جلا دیا۔ یہاں ایک فلسطینی کو گولی مار کر ہلاک بھی کیا گیا۔
اس کے فوراً بعد، ایک اسرائیلی ڈرون نے جنین میں تین فلسطینی عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ مبینہ طور ان تینوں نے شہر کے قریب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا تھا۔
تشدد کی یہ تازہ لہر اس بڑے فوجی آپریشن کی وجہ بنی ہے جو مغربی کنارے میں حالیہ برسوں میں سب سے بڑا آپریشن ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا ہدف فلسطینی نہیں بلکہ حماس اور اسلامی جہاد جیسی ’ایران کی مالی اعانت سے چلنے والی ملیشیا‘ ہیں، جنھیں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہ’ "دہشت گرد تنظیمیں‘ قرار دیتے ہیں ۔
فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ کے لیے یہ آپریشن ’کیمپ کو تباہ کرنے اور رہائشیوں کو بے گھر کرنے کی ایک نئی کوشش‘ ہے، اور انھوں نے یقین دلایا ہے کہ ’جب تک یہ مجرمانہ قبضہ جاری رہے گا، فلسطینی ہتھیار نہیں ڈالیں گے‘۔
بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار پال ایڈمز کہتے ہیں کہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت میں سخت گیر کئی مہینوں سے فوج پر اس کریک ڈاؤن کرنے کے لیے زور دے رہے تھے۔ لیکن بظاہر اسرائیلی فوج کے اندر موجود کچھ لوگوں اس کے خلاف تھے کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ یہ پہلے سے ہی غیر مستحکم صورتحال کو مزید بھڑکا سکتا ہے‘۔
ایڈمز کہتے ہیں کہ ماضی میں جینن اور دیگر مقامات پر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بڑے پیمانے پر چھاپے مارے گئے ہیں، لیکن ایسی کارروائیاں مسائل کے حل کے بجائے تشدد کو مزید ہوا دیتی ہیں۔
جینن ایک ابلتے ہوئے لاوے جیسا کیوں ہے؟

ایڈمز کا کہنا ہے کہ جنین مغربی کنارے میں ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں فلسطینی عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل نے قبضہ جما رکھا ہے۔
’اس نوجوان ملیشیا نے کبھی امن نہیں دیکھا۔ انھیں نہیں لگتا کہ اس تنازع کے سفارتی حل کا کوئی امکان موجود ہے۔ انھیں اپنے سیاسی لیڈروں پر قطعی اعتبار نہیں ہے۔ اس لیے وہ قبضے کے خلاف اسی طرح لڑ رہے ہیں جس طرح وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کر سکتے ہیں‘۔
الأونروا کے اعداد و شمار کے مطابق، مغربی کنارے کے 19 پناہ گزین کیمپوں میں سے جنین میں غربت اور بے روزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔
بی بی سی عربی سروس کے نامہ نگار علاء درگمے نے صرف دو سالوں کے دوارن جنین میں عسکریت پسندوں کی تعداد دسیوں سے بڑھ کر سینکڑوں ہوتے دیکھی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس مایوسی کے پیش نظر، مغربی کنارے میں اسرائیل کے حفاظتی اقدامات کے خلاف مسلح مزاحمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
فلسطینیوں کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر کو روکنا چاہیے جو حالیہ برسوں میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور جن پر پابندی لگانے کا موجودہ اسرائیلی حکومت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
نیشنل انیشی ایٹو پارٹی کی قیادت کرنے والے مصطفیٰ برغوتی کے مطابق ’اہم سوال یہ ہے کہ نوجوان یہ راستہ کیوں اختیار کر رہے ہیں؟‘
وہ کہتے ہی کہ ’ایسا اس لیے ہے کہ ہم 56 سال سے (اسرائیلی) فوجی قبضے میں رہ رہے ہیں جبکہ دنیا نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔۔۔ یہ نوجوان مایوس ہیں کیونکہ عالمی برادری نے اسرائیل کو قبضہ جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔‘
بی بی سی کے بین الاقوامی ایڈیٹر جیریمی بوون کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) جس کے پاس مقبوضہ علاقوں کے کچھ حصوں میں انتظامی اور حفاظتی ذمہ داریاں ہیں، جنین پناہ گزین کیمپ کا کنٹرول بھی کھو چکی ہے۔
بوون کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی، جس نے برسوں سے انتخابات نہیں کروائے، بہت سے فلسطینیوں کے نزدیک وہ اپنا اختیار کھو چکی ہے۔
بوون کا کہنا ہے کہ ’فلسطینیوں کو اسرائیلی سکییورٹی فورسز کی سرگرمیوں اور خاص طور پر، ریاستی سرپرستی میں قائم بستیوں میں رہنے والے آباد کاروں سے، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں، بچانے کے لیے بھی فلسطینی اتھارٹی کچھ نہیں کر سکتی‘۔
جینین پناہ گزین کیمپ کی تاریخ کیا ہے؟

یہ کیمپ 1950 کی دہائی کے اوائل میں 1948-49 کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے بنایا گیا تھا، نئی بننے والی ریاست اسرائیل اپنے عرب پڑوسیوں کے خلاف کھڑی ہو چکی تھی۔
کم از کم سات لاکھ پچاس ہزار افراد کو اپنے گھروں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا جسے فلسطینی ’نقبہ‘ یا ’تباہی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
دوسرے انتفادہیعنی 2000 - 2005 کے درمیان اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں میں پھر سے تشدد کی لہر آئی اور جینین کیمپ کشیدگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔
اپریل 2002 میں اسرائیل میں خودکش بم دھماکوں کے بعد (جس میں بہت سے حملہ آورں کا تعلق مبینہ طور پر اسی قصبے سے ظاہر کیا گیا تھا) اسرائیلی افواج نے کیمپ پر بڑے پیمانے پر چھاپے مارے جو 10 دن تک جاری رہے اور یہ ’جنگِ جینین‘ کے نام سے مشہور ہوئی ۔
لڑائی میں کم از کم 52 فلسطینی، جن میں سے نصف عام شہری تھے، ہلاک ہو گئے، اس دوران 23 اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ تقریباً 400 گھر تباہ ہوئے اور ایک چوتھائی آبادی اپنے گھروں سے محروم ہو گئی۔
اس کے بعد اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں اسرائیل پر انسانی ہمدردی والے عملے کو پناہ گزینوں کے کیمپ میں داخلے کی اجازت نہ دینے پر اور فلسطینی فریق کو شہریوں کے گھروں میں عسکریت پسندوں کو چھپانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔