2003 میں اینٹورپ کے ایک لاکر سے ہونے والی اس چوری کو اس وقت ’صدی کی سب سے بڑی ڈکیتی‘ کہا گیا تھا۔
’آدھا کھایا ہوا سینڈوچ۔‘
یہ کسی فلم کا عنوان نہیں بلکہ اُن شواہد میں سے ایک تھا جس کی مدد سے بیلجیم کے ایکتفتیش کار پیٹرک پیس نے 10 کروڑ ڈالر مالیت کے ہیروں کی چوری کا کیس حل کیا۔
2003 میں اینٹورپ کے ایک لاکر سے ہونے والی اس چوری کو اس وقت ’صدی کی سب سے بڑی ڈکیتی‘ کہا گیا تھا۔
پیٹرک پیس دنیا کی پہلی ڈائمنڈ بریگیڈ کے اہم افسران میں سے ایک تھے اور یہ ان کے کریئر کا سب سے الجھا ہوا کیس تھا۔ تاہم انھوں نے انتہائی مہارت اور ذہانت سےیہ معمہ ایک جھاڑو کا تنکا، ایک نیولے اور کچھ سوسیجز کی مدد سے حل کیا۔
ڈکیتی کا دن
یہ قصہ فروری 2003 کا ہے۔
بیلجیم کےشمالی شہر اینٹورپ میں وینس ولیمز ایک ٹینس ٹورنامنٹ ’ڈائمنڈ گیمز‘ کے فائنل کے لیے شہر میں موجود تھے۔
یہاں کی سکیورٹی بہت سخت تھی۔ پولیس کی بڑی تعداد تعینات تھیلیکن ان سب سے دورشہر کے دوسری طرف تاریخ کی سب سے بڑی چوری ہو رہی تھی۔ ہیروں کی چوری مگر یہاں کسی نے چوروں کو نہیں دیکھا۔
کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ اندر کیسے گئے اور باہر کیسے نکلے۔
کوئی کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
یہ ایک مکمل منصوبہ بندی سے کیا گیا جرم تھا لیکن ان کی بھاگنے کی کوشش اتنی مکمل نہیں تھی جس کے سبب وہ پکڑے گئے۔
اینٹورپ کا ڈائمنڈ ڈسٹرکٹ بڑا نہیں، تاہم اس کی تین چھوٹی گلیاں وہاں کے مختلف قسم کے تاجروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ان گلیوں میں نگرانی کے لیے 60 کیمرے لگائے ہیں اور یہاں سکیورٹی کا نظام بہت اچھا ہے۔
اکثر ان بدنما نظر آنے والی بڑی عمارتوں میں بھی حفاظتی اقدامات کی کوئی کمی نہیں ہے۔
پیس اس گلی میں موجود ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہ شاید اس علاقے میں سب سے اہم جگہ ہے، جسے ورلڈ ڈائمنڈ سینٹر کہا جاتا ہے۔ اس جگہ پر شاید دنیا کی سب سے منافع بخش ڈیلز ہوتی ہیں۔
سنہ 2003 میں اس کے تہہ خانے میں سیفٹی ڈپازٹ باکسز تھے جن میں لاتعداد ہیرے موجود تھے۔
ان میں 189 ہیرے ایک انتہائی محفوظ تجوری میں موجود تھے۔
تفتیش کار پیس بتاتے ہیں کہ اس تجوری کا دروازہ 30 سینٹی میٹر موٹا تھا اور باہر سے ایک چابی اور سکیورٹی کوڈ کے بغیر کھولنا ممکن نہیں تھا۔
'اگر آپ باہر سے دروازہ کھولتے ہیں اس میں الارم کے ساتھ میگنیٹک سسٹم بھی لگا ہوا نظر آتا تھا، تجوری کے اندر بھی ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔'
پیس بتاتے ہیں کہ اس دیو ہیکل تجوری میں ہیٹ ڈٹیکٹرز، موشن ڈٹیکٹرز، ساؤنڈ ڈٹیکٹرز اور لائٹ ڈٹیکٹرز بھی تھے۔ ان کے مطابق اگر کوئی اس کو ڈرل مشین کے ذریعے کھولنے کی کوشش کرتا تو الارم بج جاتا۔
17 فروری 2003 کو پیر کی صبح پیس کو مقامی پولیس کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی کہ ورلڈ ڈائمنڈ سینٹر میں ایک تجوری کو کھولا گیا ہے۔
جس دروازے کو ناقابلِ تسخیر سمجھا جا رہا تھا وہ کھل چکا تھا۔
تفتیش کار پیس کہتے ہیں کہ ’اس کے اندر ہیرے، زیورات، سونا اور پیسے تھے۔‘
یہاں موجود سو سے زیادہ سیفٹی ڈپازٹ باکسز بالکل خالی کر دیے گئے تھے۔
پیس کہتے ہیں کہ ’وہاں زمین پر ہر طرح کے ہیرے موجود تھے، جن میں سبز رنگ کے چھوٹے ہیرے بھی شامل تھے۔‘
پیس کو ایک اور چیز جو تجوری کے اندر نظر آئی وہ چوروں کی طرف سے استعمال کیے گئے اوزار تھے۔
’چور اپنا سامان بھی واپس نہیں لے کر گئے، اس کا مطلب یہ تھا کہ انھوں نے بڑی تعداد میں سامان چُرایا تھا۔ میرے خیال میں اگر آپ کو ایک کلو سونے اور ایک ڈرل مشین میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو تو آپ سونے کا ہی انتخاب کریں گے۔‘
جیسے ہی وہ زمین پر پڑے ہیروں کے درمیان سے گزرتے ہوئے تجوری کے کھلے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے تو ایک سوال ان کے ذہن میں حرکت کر رہا تھا کہ آخر چوری کے وقت الارم کیوں نہیں بجا؟
’میرے ساتھیوں نے جب سکیورٹی کمپنی کو فون کیا تو انھیں بتایا گیا کہ ان کو تو تجوری اب بھی بند نظر آ رہی ہے اور وہاں کوئی گڑ بڑ نہیں ہے۔ میرے ساتھی نے کمپنی والوں کو جواب دیا کہ میں تجوری کے اندر موجود ہوں۔‘
’یہ سب سے بڑی چوری تھی اور ہمارا سامنا بہت ہی باصلاحیت چوروں سے تھا۔‘
یہ ایک ایسی چوری تھی جس میں نہ کوئی فائرنگ ہوئی، نہ کوئی گاڑیاں دیکھیں اور نہ کوئی خون بہا۔
جب یہ خبر میڈیا میں پہنچی تو اسے ’صدی کی سب سے بڑی چوری‘ قرار دیا گیا۔
پیس کہتے ہیں کہ ’یہ سب ہماری ناک کے نیچے ہوا تھا اور ہم تھوڑے پریشان بھی تھے۔‘
ان کے ایک ساتھی کو یاد ہے کہ جب ایک متاثرہ شخص کو اس چوری کی اطلاع ملی تو وہ بیہوش ہو گیا۔
اس تجوری کے اندر متعدد سیفٹی ڈپازٹ باکسز تھے اور اس چوری سے اینٹورپ میں ہیروں کے تاجر بے انتہا متاثر ہوئے تھے۔ ان تاجروں میں انڈین، آرمینین، اطالوی اور یہودی تمام ہی افراد شامل تھے۔
ورلڈ ڈائمنڈ سینٹر میں 24 کیمرے لگے ہوئے تھے، جن میں سے کچھ تجوری کے اندر بھی موجود تھے۔

چور اتنے شاطر تھے کہ انھوں نے نہ صرف تجوریاں صاف کر دیں بلکہ اس رات کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
اب یہ واضح ہو چکا تھا کہ یہ کوئی عام مجرم نہیں۔
یہ بات انتہائی حیرت انگیز تھی کہ سکیورٹی سسٹم کو بالکل بچگانہ طریقے سے بند کیا گیا تھا۔ اب تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایسا کرنا ممکن بھی ہے۔
مثال کے طور پر، آپ ہیٹ ڈیٹیکٹر یا حرارت کو جانچنے والے آلات کو غیر فعال کیسے کریں گے؟ مجرم نے ایک جھاڑو کا ہینڈل خریدا اور اس میں پولیسٹرین فوم یا سٹئیرو فوم بھر کر اسے ڈیٹیکٹر کے سامنے رکھ دیا جس کی وجہ سے وہ ہیٹ ڈیٹیکٹ نہیں کر سکا۔
تفتیش کار سخت پریشان ٹھے اور انھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی، نہ سی سی ٹی وی فوٹیج تھی اور نہ کچھ اور۔
تب ہی انھیں اگست وین کیمپ نامی ایک شخص کی کال موصول ہوتی ہے۔
وہ ایک ریٹائر شخص تھے جو کہ اکثر پولیس کو کچرے کے متعلق شکایت کرتے رہتے تھے۔
وین کیمپ نے کچھ نیولے پال رکھے تھے جنھیں وہ ورزش کروانے کی غرض سے اکثر قریبی جنگل میں لے جاتے تھے۔ اس جنگل کے ساتھ ایک ہائی وے گزرتی تھی جس کی وجہ سے اکثر لوگ وہاں کچرا پھینکا کرتے تھے۔
وین کیمپ اور ان کے پالتو نیولوں کو یہ ناپسند تھا۔ وین کیمپ روز دیکھتے تھے کہ کون وہاں کیا پھینک کر گیا ہے۔
جب اس دن وہ وہاں گئے تو وہاں ایک بار پھر کچرا پڑا ہوا تھا پر یہ عام روز کے کچروں سے مختلف تھا۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس روز وہاں کاغذ اور کچھ نوٹوں کے ٹکڑے موجود تھے۔
اس کچرے میں انھیں سبز رنگ کے کچھ ہیرے بھی دکھائی دیے۔
اس بار جب وین کیمپ نے کال کی تو پولیس فوراً کچرا اٹھانے وہاں پہنچ گئی۔ پولیس سٹیشن پہنچ کر کئی گھنٹوں تک پیس اور ان کے ساتھیوں نے اس تمام کچڑے کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔
کوڑے کے تھیلے کے اندر ایک قسم کی دستاویز تھی اور اس پر ایک نام تھا: لیونارڈو نوٹربارٹولو۔
پہلی نظر میں وہ ایک عام سا ہیروں کا بیوپاری لگا جس کا ڈائمنڈ سینٹر میں دفتر تھا اور اس تجوری میں ایک سیف ان کا بھی تھا۔
جب پیس نے مزید تحقیقات کیں تو سامنے آیا کہ لیونارڈو کا سیف ان کچھ سیفوں میں شامل تھا جنھیں زبردستی نہیں کھولا گیا تھا۔ اس لیے انھوں نے اُن سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن لیونارڈو نوٹربارٹولو کہیں نہیں ملے۔
جب انھوں نے اٹلی میں سے معلومات حاصل کرنی شروعکیں تو انھیں اس ہیرے کے سمگلر کے ماضی کے بارے میں پتا لگنا شروعہوا۔ ان کا ایک طویل کرمنل ریکارڈ تھا۔
انھوں نے لیونارڈو کے دفتر کی تلاشی لی لیکن وہاں انھیں کچھ نہیں ملا۔ ’وہ بالکل خالی تھا۔ وہاں ایک کرسی اور ایک میز تھی، لیکن کمپنی کام نہیں کر رہی تھی۔‘
چنانچہ انھوں نے کوڑے کے ڈھیر پردوبارہ توجہ دینا شروع کی تاکہ یہ دیکھیں کہ اس میں کون سے دوسرے شواہد ہیں۔
’جنگل سے برآمد ہونے والی چیزوں میں میں کچھ خالی ویڈیو ٹیپس بھی شامل تھیں۔ ہمیں توقع تھی کہ اگر آپ کے پاس کوئی خالی ویڈیو ٹیپ ہے تو اصل ٹیپ کہیں اور ہو گی۔‘
’اور ہمارے پاس پولیس افسران کی ایک ٹیم تھی جو اینٹورپ سے برسلز تک پیدل چل رہی تھی تاکہ وہ ہائی وے کے ساتھ پڑی دیگر ویڈیو ٹیپس بھی ڈھونڈ سکیں۔‘
’انھیں بہت سی ٹیپس ملیں، ہم نے انھیں ایک خصوصی لیبارٹری کو بھجوایا۔ ہم نے ایک بڑی ٹیم کے ساتھ ان ویڈیو ٹیپس کو دیکھا کیونکہ ہمیں لگا تھا کہ ہمیں بہت سارا مواد دیکھنا پڑے گا لیکن ان ٹیپس میں پورن تھا۔‘
چھوٹے چھوٹے سبز ہیرے
کئی روز کی لگاتار کوششوں کے بعد بالآخر پیس پانچ دن میں پہلی بار اپنے گھر گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمنے جمعے کی رات کچھدوستوں سے ملنے کا پروگرام بنایا کہ ہم ایک ساتھ رات کے کھانے کے لیے باہر جائیں گے، اور میں وہاں جا ہی رہا تھا جب مجھے کال موصول ہوئی کہ لیونارڈو کو ایک عمارت میں دیکھا گیا ہے۔‘
وہ عمارت ڈائمنڈ سینٹر تھی۔
اس کیس کے اہم ملزمان میں سے ایک بڑے آرام سے جائے وقوعہ پر واپس لوٹا تھا۔ پولیس کو بلایا گیا اور اسے موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔
پیس کے ساتھی اپنی تفتیش کے دوران لیونارڈو کاکوئی پتہ تلاش نہیں کر پائے تھے۔ اور جب تفتیش کاروں نے لیونارڈو سے اس کی رہائش کے متعلق پوچھا تو اس نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا اور بہانے بنائے۔
اگرچہ وہ تین سال سے وہاں رہ رہا تھا لیکن وہ اپنا درست پتہ نہیں بتا پا رہا تھا۔
لیکن بالآخر تھوڑی دیر کے بعد اسے سچ بولنا پڑا۔
لیونارڈو کے گھر سے لپٹے ہوئے قالین کی شکل میں پولیس کو ایک سراغ ملا۔
’لپٹے ہوئے قالین پر انتہائی چھوٹے سبز ہیرے تھے۔‘یہ بالکل ویسے ہی تھے جو جنگل میں ملے تھے۔
اور ایسے ہی سبز ہیرےوالٹ میں پیس کے جوتے سے چپک گئے تھے۔
پولیس سٹیشن پہنچ کر پہلی بار تفتیش کاروں نے لیونارڈو کا انٹرویو لیا۔
پیس کے مطابق، اس نے خود کو بہت پر سکون اور ایک معزز شریف آدمی جیسا دکھانے کی کوشش کی۔
لیکن جب لیونارڈو کو بتایا گیا ان سے کس بارے میں تفتیش کی جا رہی ہے تو ان کا رویہ یکسر بدل گیا اور انھوں نے کہا کہ وہ مزید کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔
’اور پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قانونی طور پر اسے ایسا موقف اختیار کرنے کا حق حاصل تھا اور ہم اس کیبات ماننے کے پابند تھے۔‘
’مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک موقع پر اس سے کہا، ’دیکھو، کیا آپ کو معلوم ہے کہ متاثرین جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں، آپ کہاں رہتے ہیں۔ یہ بہت بھاری مالی نقصانات کی بات ہو رہی ہے، کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی اس معاملے کو خود حل کرنے کی کوشش کرے اور آپ کے خاندان کو دھمکی دینے کے لیے کسی کو بھیج دے؟‘
لیونارڈو نے پلک تک نہیں جھپکی۔
’اس وقت میں سمجھ گیا کہ اسے تعاون کرنے پر راضی کرنے کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘
ٹیورن سکول
کچرے کے تھیلے میں ایک اور اہم سراغ تھا: آدھا کھایا ہوا سلامی سینڈوچ اور ڈائمنڈ ڈسٹرکٹ کے قریب ایک بڑے گروسری سٹور کی رسید۔
یہ سراغ پیس کو اس سٹور کی طرف لے گیا جہاں آخر کار سکیورٹی کیمرے میں ایک شخص دکھائی دیا جس نے یہ سلامی خریدی تھی۔ اس شخص کی شناخت فرڈیننڈو فینوٹو کے نام سے ہوئی۔
پیس کے لیے یہ ایک جانا پہچانا نام تھا کیونکہ وہ پہلے بھی ایک ڈکیتی میں ملوث رہ چکا تھا۔
پیس نے دوبارہ لیونارڈو سے ملاقات کی۔
انھوں نے اس کے سامنے فرڈیننڈو فینوٹو کی تصویر میز پر پھینکی لیکن لیونارڈو نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں دیا۔
لیونارڈو کی جانب سے کسی بھی قسم کا تعاون نہ ملنے کے باوجود پیس کی ٹیم ان سراغوں کی مدد سے اس ڈکیٹی میں شامل مزید ملزموں کے بارے میں پتا لگانے میں کامیاب ہو گئی۔
تفتیش کاروں نے دریافت کیا کہ وہ سب ٹورین سکول نامی ایک گروپ کا حصہ تھے۔
پیس کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی مجرموں کے سکول کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ لیکن یہ مجرموں کا ایک ایسا کا گروہ تھا جس میں شامل سبھی افراد انفرادی طور پر مخصوص مہارت رکھتے تھے۔
تمام شواہد بشمول کوڑے کے تھیلے، والٹ میں ملنے والی باقیات اور گروسری سٹور سے ویڈیو سرویلنس فوٹیج سے ایک مکمل تصویر سامنے آنے لگی کہ کس طرح ٹیورن سکول کے ساتھیوں نے اس ڈکیتی کو انجام دیا تھا۔
ان کے نام ایک دم فلمی تھی جیسے کہ جینیئس، دی مونسٹر، سپیڈی ون، اور کنگ آف کیز۔
جینیئس الارمز میں مہارت رکھتا تھا اور اس کا ڈی این اے والٹ کے اندر سے ملنے والے ایک اوزار پر پایا گیا۔
مونسٹر کا عرفی نام اس کی شہرت سے آیا تھا کہ وہ ہر چیز میں بہت اچھا تھا لیکن ساتھ ہی تھوڑا ڈرپوک بھی تھا۔ وہ تالے کھولنے میں ماہرتھا۔
سلامی سینڈوچ اس کی کمزوری تھی۔ اس کا اصل نام فرڈیننڈو فینوٹو تھا، اور یہ وہی شخص تھا جس کا ڈی این اے اس سینڈوچ پر پایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ایک اور شخص ویلوز تھا جو لیونارڈو کا بچپن کا دوست تھا۔ اس کے بارے میں مانا جاتا تھا کہ اسے ہی ہائی وے جنگل کے قریب پائے جانے والے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
ان تمام افراد کا ان کے فون کے ریکارڈ اور ان کے سم کارڈ کے ذریعے پتا لگایا گیا۔
کنگ آف کیز وہ شخص تھا جس نے والٹ کا دروازہ کھولنے کے لیے درکار چابی کی نقل بنائی تھی۔ اور وہ واحد شخص تھا جو کبھی پکڑا نہیں گیا تھا۔
یہ سب ماہر مجرم تھے۔ اور ٹیورن سکول کے سربراہ لیونارڈو نوٹربارٹولو تھے۔
’بعد میں پتا چلا کہ تین سالوں کے دوران جب لیونارڈو اینٹورپ میں تھا، اس نے کبھی ہیرے خریدے یا بیچے نہیں۔‘
پیس کی ٹیم کو لیونارڈو کے خلاف مزید شواہد کی ضرورت تھی۔ اگرچہ ان کے پاس واقعے کی ریکارڈنگ نہیں تھی، لیکن ان کے پاس جرم سے پہلے کے لمحات کی ریکارڈنگ ضرور تھی۔ گھنٹوں کی فوٹیج کا جائزہ لینے کے بعد، انھوں نے ایک شخص کی نشاندہیکی۔
’ہم نے دیکھا کہ ڈکیتی سے پہلے کے دنوں میں، لیونارڈو آخری ’معلومات حاصل کر رہا تھا۔ مثال کے طور پر، ہم نے دیکھا کہ وہ ایک کالا بیگ اٹھائے ہوئے تھا اور ہم نے سوچا کہ ’وہ اس بیگ کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟‘
’ویڈیو میں ہم نے اسے بیگ کو سکیورٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اور جب ہم نے اس کے اپارٹمنٹ سے بیگ برآمد کیا تو اس سیاہ بیگ میں ایک ویڈیو کیمرہ تھا۔‘
لیونارڈو وہاں جو کچھ ہو رہا تھا اسے ریکارڈ کر رہا تھا۔
خفیہ فلم بندی سے اسے سکیورٹی کوڈ سمجھنے میں مدد ملی۔
لیکن دروازے میں مقناطیس لگے ہوئے تھے۔ اگر دروازہکھولا جاتا تو دو مقناطیسی پلیٹیں الگ ہو جاتیں اور الارم بج اٹھتا۔
چوروں نے میگنٹ میں لگے ہوئے پیچ کھولے اور ٹیپ کا استعمال کرتے ہوئے مقناطیسی پلیٹوں کو الگ کیے بغیر اور خاموشی سے والٹ کو کھولنے میں کامیاب ہوئے۔

پولیس کو ان کی ساری تکنیکس شاید کبھی سمجھ نہ آئیں کہ کیسے انھوں نے قلعہ نما ڈائمنڈ سینٹر تک رسائی حاصل کی۔
تاہم پولیس اتنے شواہد حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گئی تھی جس سے معلوم ہو سکے کہ چوروں نے کیا کیا ہے اور پھر سنہ 2015 میں یہ کیس ٹرائل پر چلا گیا۔
جینیئس، مونسٹر اور سوئفٹ کو پانچ سال قید کی سزا ہوئی جبکہ گروہ کے سرغنہ لیونارڈو کو 10 سال قید کی سزا ہوئی۔
اس گروہ میں 10 اراکین تھے لیکن پولیس صرف ان میں سے چار کو شناخت کر سکی۔
اس چوری سے متاثر ہونے والوں کو کبھی بھی ان کے ہیرے واپس نہیں ملے۔
لیونارڈو اور ان کے ساتھی اٹلی چلے گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ لوٹا ہوا مال بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
تفتیش کار کہتے ہیں کہ ’مجھے یہ سُن کر بھی حیرانی نہیں ہو گی کہ یہ ہیرے واپس اینٹورپ میں آ گئے ہوں۔ چوری شدہ ہیروں کو قانونی طریقے سے اس سسٹم میں داخل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔‘
پیس سنہ 2017 میں ڈائمنڈ بریگیڈ سے ریٹائر ہوگئے اور ان پر اس کیس کو حل کرنے کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔ اب وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں۔
لیونارڈو کو پرول پر جلدی رہائی مل گئی تھی۔ تاہم بعد میں انھوں نے اپنے پرول کی شرائط کی خلاف ورزی کی اور کیلیفورنیا چلے گئے جہاں انھوں نے ہالی وڈ کے ایک پروڈیوسر کے ساتھ چوری پر مبنی کہانی کی ایک بڑی ڈیل کرلی۔
اب تک اس پر کوئی فلم نہیں بنی ہے اور لیونارڈو بھی اٹلی واپس آ گئے ہیں۔ تاہم ان قیمتی ہیروں کا معمہ آج تک برقرار ہے۔