’اپنا پرانا ونڈو اے سی ہمیں فروخت کریں‘: یہ کاروبار کیا ہے اور پرانے اے سی جاتے کہاں ہیں؟

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سکریپ سے مراد وہ انڈسٹریل ویسٹ ہے جسے ری سائیکل کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے اور ماحول پر اس کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مگر آئے روز پرانے اے سی کی خریداری میں دلچسپی کیوں بڑھتی جا رہی ہے اور یہ پرانے اے سے پھر کس قسم کے استعمال میں آتے ہیں؟
تصویر
Getty Images

’کیا آپ اپنا پرانا یا خراب ونڈو اے سی فروخت کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم سے رابطہ کریں۔‘

اگر آپ پاکستان میں رہتے ہیں تو یہ وہ پیغام ہے جو آپ کو اکثر بذریعہ ایس ایم ایس مختلف نمبروں سے اپنے موبائل فون پر موصول ہوتا ہو گا۔ اور کئی لوگ اس سروس سے فائدہ اٹھا کر پرانا ونڈو اے سی فروخت کر کے نیا اے سی خریدنے کا بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔

مگر سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آپ کے گھر میں انتہائی پرانی یا خراب حالت میں پڑی کوئی چیز، کسی دوسرے کے لیے قیمتی کیسے ہے؟

ہم نے اس کاروبار سے جڑے بعض افراد سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں پرانے اور خراب ونڈو اے سی فروخت کے بعد کہاں جاتے ہیں اور انھیں کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ری سائیکلنگ، یعنی کباڑ کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانا، کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اکثر لوگ پرانی اور خراب چیزوں کو کئی کئی سال تک گھروں میں سنبھال کر رکھتے ہیں اور موقع آنے پر ’جگاڑ‘ لگا کر وہی پرانی اور خراب چیز دوبارہ قابل استعمال بنا لی جاتی ہے۔

بعض پرانی چیزوں کا استعمال بدل جاتا ہے، جیسے نئی ٹی شرٹ جب پرانی ہو کر پہننے کے قابل نہ رہے تو یہ صفائی کا کپڑا بن جاتی ہے۔

نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ملک میں کئی لوگوں نے بجلی کی بچت کے لیے ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی لگوانا شروع کر دیے مگر برسوں تک ان کے پاس یہی پرانے اے سی محفوظ پڑے رہے۔ اسی طرح سپلٹ اے سی کی جگہ اب ڈی سی انورٹر اے سی لے رہے ہیں کیونکہ یہ کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔

تو آخر اتنے سارے لوگ آپ کا پرانا ونڈو ایئر کنڈیشنر کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟

آخر اتنے سارے لوگ آپ کا پرانا ایئر کنڈشنر کیوں خریدنا چاہتے ہیں؟

اے سی
Getty Images

کراچی سے تعلق رکھنے والے محمد عاقل پرانے ونڈو اے سی کی خرید و فروخت کے کام سے منسلک ہیں۔

اپنے کاروبار کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہکہ وہ گھروں سے پرانے ونڈو یا سپلٹ اے سی خریدتے ہیں کیونکہ ان میں موجود پرزے جیسے کوائل اور کمپریسر قیمتی اشیا ہیں جبکہ ان سے نکلنے والی تانبے اور لوہے جیسی دھات سکریپ یا کباڑ میں فروخت کی جاتی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ‘جو (اے سی) ٹھیک حالت میں ہوتے ہیں انھیں مارکیٹ میں سیکنڈ ہینڈ اے سی کے دکانداروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو ضروری مرمت اور سروس کر کے اسے گاہکوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔‘

عاقل نے بتایا کہ ہمسایہ ممالک جیسے ایران اور افغانستان میں بھی اے سی کے پرزوں کی مانگ پائی جاتی ہے۔ ’اکثر چالو کمپریسر ایران جاتے ہیں، وہاں ان کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ لیکن خراب کمپریسر گوجوانوالہ جاتے ہیں جہاں انھیں تانبے کے حصول کے لیے سکریپ کیا جاتا ہے۔‘

ونڈو اے سی کی مانگ کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ پورا سکریپ میں جاتا ہے کیونکہ بجلی کے نرخ بڑھنے کے بعد یہ اتنے قیمتی نہیں رہے اور نہ ہی کوئی انھیں ٹھیک کر کے دوبارہ گھر میں لگوانے کا سوچ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘آج کل کام کی رفتار کم ہے۔ سکریپ کا ریٹ بہت تیز ہوچکا ہے۔‘

پرانے ایئر کنڈیشنرز کے ایک دوسرے خریدار نے بتایا کہ ’پرانے سپلٹ اے سی اور اس کے پرزے یا تو سکریپ ہوتے ہیں یا پھر انھیں سندھ کے علاقوں میں ٹھیک کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ان علاقوں میں نمی کی وجہ سے سپلٹ اے سی جلدی خراب ہو جاتے ہیں لہٰذا وہاں کے لوگ انورٹر والے جدید اے سی خریدنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ سال 2005 سے 2010 تک اے سی کے ماڈل 20 ہزار روپے میں جبکہ قدرے نئے ماڈل 35 ہزار روپے تک میں بھی فروخت کر دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایران کا ہزاروں سال پرانا 'اے سی' یعنی بادگير

اے سی 24 ڈگری پر سیٹ کرنے سے کیا ہو گا؟

انڈیا اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں گرمی کی شدید لہر: اے سی کے بغیر آپ اپنے گھر کو ٹھنڈا کیسے رکھ سکتے ہیں؟

AC
Getty Images

غلام حیدر بھی پرانے اے سی اور گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ تھوڑی محنت کے بعد اے سی کو مزید بہتر قیمت میں فروخت کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق ان پرانے اے سی اور سپلٹ کے پرزوں میں انشورنس کمپنی کی بھی خاصی دلچسپی ہوتی ہے۔

غلام حیدر کے مطابق اس وقت مارکیٹ میں پرانی چیزوں کی مارکیٹ اس وجہ سے بھی بہتر ہے کہ وہ اچھی قیمت میں دوبارہ بھی فروخت ہو جاتی ہیں۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم ان کے سپیئرپارٹس تو ضرور کئی جگہوں پر کام آ جاتے ہیں۔

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سکریپ سے مراد وہ انڈسٹریل ویسٹ ہے جسے ری سائیکل کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے اور ماحول پر اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ پر ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 کے اندازوں کے تحت ملک میں فی کس سالانہ 1.68 کلو گرام الیکٹرانک ویسٹ (کچرا) پیدا ہوتا ہے جو کہ مجموعی ویسٹ کا دو فیصد حصہ بنتا ہے۔

اس کے مطابق ری سائیکل کے قابل ویسٹ نہ صرف الیکٹریکل اور الیکٹرانکس مصنوعات سے پیدا ہوتا ہے بلکہ ایسے ویسٹ کو درآمد بھی کیا جاتا ہے جس میں ری سائیکلنگ کے جامع منصوبے کی عدم موجودگی کے باعث انفارمل سیکٹر ان قیمتی اشیا کو ڈھونڈ کر اس سے منافع حاصل کرتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US