سودھا مورتی: برطانوی وزیرِاعظم کی سادہ لوح انڈین ساس کا ’چمچ‘ پر تبصرہ جو تنازع کا باعث بنا

انڈیا میں مقبول مصنف اور ماہر تعلیم سودھا مورتی کی کھانے کی عادت پر ایک تبصرے نے سوشل میڈیا پر سبزی خوری سے متعلق ایک گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔
سودھا مورتی اور ان کے شوہر نارائن مورتی
Getty Images
سودھا مورتی اور ان کے شوہر نارائن مورتی

دنیا بھر میں کھانے معاشرے کا ایک اہم جزو سمجھے جاتے ہیں اور انھیں مختلف تقریبات کے دوران نزدیکیاں بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا میں مقبول مصنف اور ماہر تعلیم سودھا مورتی کی کھانے کی عادت پر ایک تبصرے نے سوشل میڈیا پر سبزی خوری سے متعلق ایک گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔

سودھا مورتی اور ان کے سافٹ ویئر کے شعبے میں ارب پتی شوہر این آر نارائن مورتی کی زندگی ان کے داماد رشی سُنک کے برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے توجہ کا مرکز ہے۔

تاہم 72 سالہ خاتون جو والدہ اور دادی بھی ہیں ان کا ’کھانے میں کیا ہے؟‘ نامی ایک مشہور فوڈ شو میں کیا گیا تبصرہ تین روز سے ٹوئٹر پر بحث کا موضوع ہے اور ان کا نام سرفہرست ٹرینڈز میں شامل ہے۔

وہ خود کو ایک ’خالص سبزی خور‘ بتاتی ہیں جو انڈے بھی نہیں کھاتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سفر کے دوران وہ اکثر اپنا کھانا ساتھ لے جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ’ایک ہی چمچ سبزی خور اور غیر سبزی خور پکوان دونوں کے لیے استعمال کیا گیا ہو گا۔‘

’اس لیے جب میں سفر کرتی ہوں تو میں خالص سبزی خور ریستوراں کی تلاش میں رہتی ہوں اور میں کھانے سے بھرا ہوا ایک بیگ ساتھ لے کر چلتی ہوں۔

’میں دہائیوں پہلے اپنی نانی دادی کو چھیڑا کرتی تھی جب وہ اپنا کھانا خود لے کر نکلتی تھیں۔ میں ان سے پوچھتی کہ آپ وہ کھانا کیوں نہیں کھاتی ہیں جو وہاں دستیاب ہیں؟ لیکن اب میرا رویہ بھی ان جیسا ہی ہے۔‘

ان کے تبصرے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں ان کی تنقید اور دفاع کرنے والے تقریباً برابر ہیں۔

ان کے اپنے آپ کو ’خالص سبزی خور‘ کہنے نے بہت سے لوگوں کو ناراض کیا ہے جو کہتے ہیں کہ اس کی جڑ ذات پات کے نظام کی طرف سے وضع کردہ پاکیزگی کے تصورات میں ہے اور یہ ان کی اونچی برہمن ذات کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔

خیال رہے کہ انڈیا میں 'خالص سبزی خور' کی اصطلاح کو لاکھوں انڈینز استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ انڈے کھا لیتے ہیں۔

اگرچہ کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے کچھ حصوں میں برہمن روایتی طور پر گوشت کھاتے تھے اور بہت سے لوگ اب بھی کھاتے ہیں لیکن سبزی خور ہونا کسی نہ کسی طرح پاکیزگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اکشتا اور رشی سنک
Getty Images
سودھا کی بیٹی اکشتا کی شادی رشی سنک سے ہوئی ہے جو کہ برطانیہ کے وزیر اعظم ہیں

سماجی سائنسدان جانکی سرینواسن نے ٹویٹ کیا کہ ’انڈیا میں جس طرح سبزی خوریت رائج ہے، وہ ذات پات سے منسلک نظریات میں موجود ہے۔‘

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’کیا سبزی خور صابن کے تصور کو نہیں سمجھتے؟ ’پاکیزگی‘ اور ’آلودگی‘ پر نفرت کی حد تک توجہ مرکوز کرنے کا یہ پیمانہ برہمنیت کی پیداوار ہے۔‘

کچھ نے سادھو مورتی کی تصویریں شیئر کی ہیں جن میں رشی سونک ان کے ساتھ پکے ہوئے گوشت کی پلیٹیں اٹھائے ہوئے ہیں۔

سخت تنقید نے بہت سے انڈینز کو حیران کر دیا ہے جہاں کم از کم 20 فیصد لوگ اپنی شناخت سبزی خوروں کے طور پر کرتے ہیں جو صرف پودوں پر مبنی کھانے اور دودھ دہی وغیرہ کھاتے پیتے ہیں۔

سینیئر پولیس اہلکار ارون بوتھرا نے لکھا کہ ’میں خوشی سے کسی نان ویجیٹیرین کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤں گا لیکن اگر ایک ہی چمچ سبزی اور نان ویج کھانے کے لیے استعمال کیا جائے تو مجھے بہت تکلیف ہو گی۔ میں کھانا چھوڑنا بہتر سمجھوں گا۔

’اگر آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آئی تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ سودھا مورتی اور کھانے کے انتخاب میں ہر کسی کی حمایت میں۔‘

صحافی شیلا بھٹ نے کہا کہ وہ بہت سے لوگوں کو جانتی ہیں جو بالکل سودھا مورتی کی طرح برتاؤ کرتے ہیں اور انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔

کچھ لوگوں نے اس تحقیق کی طرف بھی اشارہ کیا کہ زیادہ تر انڈینز جو گوشت کھاتے ہیں وہ کسی نہ کسی قسم کے غذائی قوانین اور روایات کی پیروی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے گوشت کھانے والے ہندو گائے کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں جبکہ مسلمان خنزیر کے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔

سبزی
Getty Images

ایک ٹوئٹر صارف نے وضاحت کی کہ یہ صرف سبزی خور ہی نہیں بلکہ بہت سے انڈین گوشت خور بھی ’بیف کے شوربے سے بنے فرانسیسی پیاز کے سوپ اور گائے کے گوشت کے تیل میں تلے ہوئے بیلجیئم فرائز‘ سے پرہیز کرتے ہیں جبکہ بہت سے مسلمان اس وقت سبزی خور ہو جاتے ہیں جب انھیں ’یہ یقین نہ ہو کہ گوشت حلال بھی ہے؟‘

ایک ایسے ملک میں اس قسم کی تنقید اور متضاد خیالات حیرت انگیز نہیں ہیں جہاں قدیم ذات پات کا نظام رائج ہو اور جس نے ہندوؤں کو سخت درجہ بندیوں میں تقسیم کر رکھا ہو اور جہاں اونچی ذات کے لوگوں کو بہت سی مراعات حاصل ہوں جبکہ مراعات یافتہ گروہوں کے ذریعے نچلی ذاتوں پر ظلم و جبر کی منظوری ہو۔ وہاں اب بھی یہ چیزیں شدید جذبات کو جنم دیتی ہیں۔

اگرچہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک اب کئی دہائیوں سے غیر قانونی ہے لیکن معاشرے پر اس گلا گھونٹنے والے نظام کے نچلے حصے میں رہنے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب بھی جاری ہے۔

انڈیا میں پچھلی دہائی میں سبزی خوری بھی تیزی سے ہتھیار بنتی جا رہی ہے اور ہندو گروپس مسلمانوں اور دلتوں پر گائے کا گوشت لے جانے یا کھانے کے نام پر حملہ کر رہے ہیں اور ان کو مار رہے ہیں۔ (خیال رہے کہ ہندو گائے کو مقدس جانور سمجھتے ہیں۔)

اس تاریخی تناظر میں مورتی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے قد و قامت کے کسی فرد کو اس بات سے زیادہ آگاہ ہونا چاہیے کہ وہ عوام میں کیا کہتی ہیں۔

سودھا مورتی نے ٹوئٹر پر برپا اس طوفان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور اس حوالے سے ان کے جواب کا امکان بھی نہیں ہے کیونکہ حالیہ مہینوں میں ان کے ریمارکس کا سرخیوں میں آنے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔

مئی میں انھیں سوشل میڈیا پر اس وقت بہت زیادہ ٹرول کیا گیا جب انھوں نے ایک ٹی وی میزبان کو بتایا کہ لندن میں ایک امیگریشن افسر نے اس بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کا پتہ وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ ہے، اور انھوں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ 'مذاق' کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افسر کو ان کی ’سادہ سی شکل‘ دیکھ کر یقین نہیں آیا ہو گا۔

اس سے ایک مہینہ پہلے وہ اپنی اس بات کے لیے شہ سرخیوں میں آئی تھیں کہ ’جس طرح میں نے اپنے شوہر کو بزنس مین بنایا، اسی طرح میری بیٹی اکشتا مورتی نے اپنے شوہر (مسٹر سُنک) کو وزیر اعظم بنایا۔‘

اپنے آپ پر ان کے فخر کرنے پر کم از کم کبھی سوال نہیں کیا گیا کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ انھوں نے سنہ 1981 میں اپنے شوہر کو اپنی آئی ٹی کمپنی شروع کرنے کے لیے 250 ڈالرز کا قرض دیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US