جب بارش میں شرابور 15 افراد نے انڈیا کے شہر کولکتہ میں تاریخ رقم کی

آج کل انڈیا میں پرائڈ پریڈ یعنی ہم جنس پرستوں کا جشن ایک بہت شوخ اور زندہ دل جشن ہے جہاں ہزاروں لوگ اپنی جنسی شناخت کو ظاہر کرنے اور اس برادری کی حمایت میں جمع ہوتے ہیں۔

آج کل انڈیا میں پرائیڈ پریڈ یعنی ہم جنس پرستوں کا جشن ہو رہا ہے جہاں ہزاروں لوگ اپنی جنسی شناخت کو ظاہر کرنے اور اس کمیونٹی کی حمایت میں جمع ہوتے ہیں۔

لیکن آج سے تقریباً 25 سال پہلے سنہ 1999 میں جب ملک کی پہلی پرائیڈ واک کا اہتمام انڈیا کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں کیا گیا تھا تو حالات بہت مختلف تھے۔ یہاں صحافی سندیپ رائے اس کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں۔

دو جولائی سنہ 1999 کو کولکتہ شہر میں کوئر برادری (ایل جی بی ٹی کیو پلس) کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن پوٓن ڈھل انمارچ کرنے والے 15 افراد میں شامل تھے جو بعد میں انڈیا کی پہلی پرائیڈ واک کہلائی۔

کولکتہ میں منعقدہ اس تقریب کا وقت نیویارک میں سٹون وال فسادات کے 30 سال مکمل ہونے کی عالمی تقریبات کے موقع پر کیا گیا تھا جس نے امریکہ میں LGBTQ+ تحریک کو جنم دیا تھا۔

لیکن جولائی انڈیا میں مون سون کی بارشوں کا موسم ہے۔ اس لیے ان 15 لوگوں نے جنھوں نے اپنے زرد ٹی شرٹ پر گلابی شکلیں بنوائی تھیں جلد ہی بارش میں شرابور ہو گئے۔

مسٹر ڈھل کا کہنا ہے کہ 'یہ کسی واک کے بجائے پانی میں بہ مشکل چلنا تھا۔'

مارچ کرنے والوں نے اس تقریب کو پرائڈ مارچ کا نام بھی نہیں دیا تھا بلکہ کسی پریشانی سے بچنے کے لیے انھوں نے اسے بظاہر بے ضرر 'فرینڈشپ واک' کا نام دیا تھا۔

پرائڈ پریڈ
Getty Images

انڈیا میں سنہ 1999 میں ہم جنس پرستی جرم کے زمرے میں آتی تھی جو کہ تعزیرات ہند میں کسی وکٹورین آثار کی طرح تھی اور ہم جنس پرستوں کی زندگی بہت حد تک خفیھہ تھی۔ تاہم کچھ شہروں میں اس برادری کی حمایت کے لیے وقف چند گروپس بن چکے تھے۔

کوئیر انڈینز نے میلنگ لسٹ اور یاہو گروپس کے ذریعے ایک دوسرے کو تلاش کیا تھا اور پھر ان میں پرائیڈ مارچ کے انعقاد کا خیال پیدا ہوا۔

28 اپریل سنہ 1999 کو ایل جی بی ٹی کیو+ انڈیا گروپ کے کنوینر اویس خان نے نیویارک میں 'ہم جنس پرستوں کی آزادی کا دن' منانے کے لیے کچھ کرنے کی تجویز پیش کی۔ انھوں نے اس کا نام چھوٹی سی پد یاترا یا چہل قدمی رکھا اور اسے انھوں نے گلابی مثلث نما اور قوس قزح کے رنگ کے مور سے پورا کیا۔

مسٹر خان نے کہا کہ وہ نیویارک جیسے شہروں میں پرائیڈ پریڈ سے متاثر ہوئے ہیں بلکہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے دوران مہاتما گاندھی کے مشہور سالٹ مارچ یعنی نمک قانون توڑنے والی تحریک سے بھی متاثر ہوئے تھے۔

لیکن ہر کسی میں ان کے جیسا جوش و خروش نہیں تھا۔ کمیونیکیشن کنسلٹنٹ اور 15 مارچ کرنے والوں میں سے ایک رفیق الحق دوجہ کا کہنا ہے کہ ان کی برادری کے کچھ افراد نے انھیں 'توجہ کا متلاشی' کہا اور ان پر 'مغربی تصورات کی نقل' کرنے کا الزام لگایا۔

یہاں تک مسٹر ڈھل یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بھی کم پرجوش تھے۔ انھوں نے دل ہی دل میں سوچتے ہوئے کہا کہ 'کولکتہ میں ایک اور جلوس! میں بہت سے جلوسوں کا حصہ رہا ہوں اور وہ کافی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔'

لیکن مسٹر خان مارچ کے انعقاد کے لیے پرعزم تھے۔ انڈیا میں ایل جی بی ٹی کیو+ تحریک پر مضامین کی ایک کتاب 'گلابی باغی' میں مسٹر خان یاد کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے ساتھیوں کو بتاتے رہے تھے کہ 'دوستو، واک تو ہو کر رہے گی، چاہے میں اکیلا ہی کیوں نہ ہوں۔'

لیکن رضاکاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے لیے عملی طور پر بغیر پیسے کے مارچ نکالنا آسان نہیں تھا۔

مسٹر خان کہتے ہیں کہ واک کے دن وہ 'بے چینی کے عالم میں' بیدار ہوئے کہ کوئی اس مارچ کے لیے آئے گا بھی کہ نہیں۔

مطالبہ
Getty Images
سپریم کورٹ ہم جنس شادی پر سماعت کرنے جا رہا ہے

آخر کار 15 لوگوں نے اس میں شرکت کی جس میں سے سات کولکتہ سے اور باقی دہلی، ممبئی اور مغربی بنگال کے بونگاؤں اور کھرسیونگ جیسے چھوٹے شہروں سے آئے تھے۔

وہاں سے گزرنے والی ایک بزرگ خاتون نے جب ان میں سے ایک سے پوچھا کہ وہ مارچ کیوں کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ عورت نے سر ہلایا اور بلند آواز میں سوچا کہ کیا ریاست کے پاس 'لوگوں کی نجی زندگی کی نگرانی کرنے' سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔

دوسرے قدرے زیادہ حیران و پریشان تھے۔ واک کے تھوڑی دیر بعد یہ گروپ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے تاکہ وہ معلوماتی بروشرز غیر سرکاری تنظیموں اور ریاست کے انسانی حقوق کمیشن تک پہنچا سکیں۔

مسٹر ڈھل کہتے ہیں: ’ہم نے وہاں ایک جونیئر اہلکار سے ملاقات کی جو اس معاملے سے پوری طرح حیرت زدہ تھا۔'

بعد میں سہ دوپہر کو ایک پریس میٹنگ میں نامہ نگاروں نے شکایت کی کہ ان کے پاس پریڈ کی کوئی تصویر نہیں ہے۔

چنانچہ گروپ نے کیمروں کے لیے اپنی تاریخی 'واک' کا دوبارہ آغاز کیا۔ مسٹر ڈھل کرہتے ہیں کہ 'یہ تصویر وہی ہے جو آخر کار اخباروں میں شائع ہوئی۔'

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں ہم جنس پرستوں سے موبائل ایپس کے ذریعے بلیک میلنگ

امتیازی سلوک اور ہر وقت کا خوف ہم جنس پرستوں کو ذہنی مریض بنا رہا ہے

اس وقت تمام شرکاء دوستوں اور اہل خانہ کو کچھ کہہ کر نہیں آئے تھے۔ 'میرے رشتہ داروں کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ میں واک کے دن کہاں غائب ہو گیا تھا۔ یہ بات نوارون گپتا نے کہی جو اٹلانٹا میں رہتے تھے لیکن ان دنوں کولکتہ میں رشتہ داروں سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔

آدتیہ موہنوٹ جو اب کولکتہ میں فیشن ڈیزائنر ہیں انھوں نے کہا کہ وہ واک میں اس لیے شامل ہوسکے کیونکہ اس دن ان کے والدین شہر میں نہیں تھے۔ لیکن اسے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ مارچ کی تصویریں اگلے دن اخبارات میں شائع ہوں گی اور ان کی سرخیاں کچھ اس طرح ہوں گی کہ '15 فریندز واک وتھ گے ابنڈن'۔

مسٹر ڈھل نے کہا کہ شروع میں تو ایسا لگا کہ یہ واک 'ناقابل توجہ' ہوگی کیونکہ اس کے شرکاء اپنی اپنی زندگی میں واپس چلے گئے۔

لیکن اس کی لہریں دیکھی گئیں اور انھوں زبردست رد عمل کو جنم دیا۔

مسٹر موہنوٹ نے کہا کہ ان کے دوست کے والدین نے اخبار میں ان کے بارے میں پڑھا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ 'حیران تو ہوئے' لیکن انھیں 'فخر' بھی ہوا۔

مسٹر دوجہ کے معاملے میں ان کے پڑوسی نے مارچ کے بارے میں پتہ چلنے کے بعد ان سے تمام تعلقات منقطع کر لیے۔

انھوں نے کہا کہ 'یہ بہت تکلیف دہ اور درد انگیز تھا۔ کیونکہ اس کے گھر والے مجھے میری پیدائش سے جانتے تھے۔'

مسٹر خان تاہم پرامید رہے۔ انھوں نے کہا: 'پندرہ کی تعداد ایک معمولی تعداد تھی لیکن ان کو گننے کے لیے کسی کو کم از کم دو ہاتھ درکار تھے۔'

جلد ہی بیرون ملک سے بھی ردعمل آنا شروع ہو گئے۔

امریکہ میں مسلم سپورٹ گروپ الفاتحہ کے بانی فیصل عالم نے منتظمین کو لکھے گئے خط میں کہا: 'میں رو پڑا ہوں۔'

'کوئیرستان-ایل جی بی ٹی کیو انلکوژن ان دی ورک پلیس' کے مصنف پرمیش ساہنی نے کہا 'میرے جیسے ایک نوجوان کوئیر شخص کے لیے مارچ نے یہ ظاہر کیا کہ ہم ایک بہتر اور زیادہ دوستانہ انڈیا کے لیے واضح طور پر، فخر کے ساتھ اور عوامی سطح پر جدوجہد کر سکتے ہیں۔

'اس نے ہمیں حقیقی طور پر نہ کہ مجرد طور پر یہ دکھایا کہ ہمارے ملک میں کوئیر متبادل ممکن ہیں۔'

سنہ 2019 میں مسٹر ڈھل اور مسٹر خان نے اپنی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر فرینڈشپ واک کا دوبارہ انعقاد کیا۔ لیکن اس بار انھیں ایسا لگا جیسے وہ کسی دوسرے ملک میں مارچ کر رہے ہوں۔

انڈیا میں ہم جنس پرستی کو سنہ 2018 میں جرم کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ چند سالوں میں سپریم کورٹ ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کے لیے دلائل کی سماعت کرے گی۔ ٹرانسجینڈر ایکٹیوزم ایک تاریخی (حالانکہ متنازع) ٹرانس جینڈر بل کا باعث بنا۔ اور جب انھوں نے ایک پینل کا اہتمام کیا تو اس میں ملک کے کئی چھوٹے شہروں اور قصبوں سے لوگوں کی شرکت دیکھی گئی۔

تاہم سب کچھ تبدیل نہیں ہو گيا۔ مسٹر ڈھل کہتے ہیں کہ '20 ویں سالگرہ کی واک بھی بارش کی وجہ سے کافی حد تک دھل گئی تھی۔'

بہر حال اس کا ایک خوش کن نتیجہ بھی برامد ہوا کیونکہ کئی سالوں مسٹر دوجہ کے پڑوسن نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور آخر کار اپنے اس رویے کے لیے معافی مانگی کیونکہ انھوں نے بہت پہلے ان سے راہ و رسم ترک کر دیا تھا۔

مسٹر دوجہ کہتے ہیں کہ اس سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ آپ کو صحیح کام کرتے رہنا چاہیے کیونکہ 'لوگ آج نہیں تو 20 سال بعد آئیں گے۔'

سندیپ رائے کولکتہ میں مقیم مصنف اور صحافی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US