’مہاپنچایت‘ میں مسلمانوں کے سماجی، معاشی بائیکاٹ کا فیصلہ: ’امام مسجد کے قتل کی ایف آئی آر سے لڑکوں کا نام ہٹاؤ‘

انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق گروگرام (پہلے گڑگاؤں) میں تقریبا 100 گاؤں کے ہندوؤں نے مہا پنچایت کی ہے جس میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے۔ انھیں کرائے پر مکان یا دکان دینے سے منع کیا گیا ہے۔ اس پنچایت کی بازگشت سوشل میڈیا پر دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔
مہاپنچایت
Getty Images
مہا پنچایت میں تقریبا 100 گاؤں کے ایک ہزار سے زیادہ افراد نے شرکت کی

انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق گروگرام (سابقہ نام گڑ گاؤں) کے تقریباً 100 دیہات کے ہندوؤں نے ’مہا پنچایت‘ کی ہے جس میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ہے۔ مہا پنچایت نے مسلمانوں کو کرائے پر مکان یا دکان دینے سے منع کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ریاست ہریانہ کے علاقے نوح میں گذشتہ ہفتے ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کی آنچ اب بھی پورے علاقے میں محسوس کی جا رہی ہے۔ اِن فرقہ وارانہ فسادات میں دو ہوم گارڈز سمیت چھ لوگوں کی جان گئی تھی۔

نوح میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران گروگرام کی ایک مسجد پر آدھی رات کو حملہ کیا گیا تھا جس میں مسجد کے امام سعد انور ہلاک ہو گئے تھے۔

ان فسادات کے بعد اس علاقے سے ملحقہ 100 کے قریب دیہات نے مہاپنچایت منعقد کی جس میں تقریباً 1500 کے لگ بھگ نمائندوں نے شرکت کی۔ انگریزی اخبار ’دی ٹریبیون‘ کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس علاقے میں دفعہ 144 نافذ تھی لیکن اس کی پروا کیے بغیر یہ پنچایت منعقد کی گئی جس کے دوران مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بات کہی گئی۔

واضح رہے کہ دفعہ 144 کی رو سے پانچ سے زیادہ آدمیوں کا کسی ایک جگہ جمع ہونا ممنوع ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس اجتماع کے لیے ان سے پیشگی اجازت نہیں لی گئی تھی تاہم امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر پنچایت کے مقام پر پولیس تعینات کی گئی تھی۔

مہا پنچایت نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ مسجد کے نائب امام کی ہلاکت پر درج ہونے والی ایف آئی آر سے ہندو لڑکوں کا نام ہٹایا جائے۔

انڈین میڈیا کے مطابق نائب امام کی ہلاکت کے کیس کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد چھ ہندو لڑکوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

یہ مہا پنچایت تیگرا گاؤں کے سرپنچ انتر سنگھ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔

میڈیا کے مطابق مہاپنچایت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر پولیس نے نائب امام کی ہلاکت کے کیس میں ان کے بچوں کو پکڑنے کی کوشش کی تو اس کی مخالفت کی جائے گی۔

مہاپنچایت میں 100 دیہاتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک 101 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو ہریانہ پولیس کمشنر کو پنچایت کے فیصلوں کے بارے میں آگاہ کرے گی۔

مہا پنچایت نے جو ہدایت نامہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ 'ہمیں ان (مسلمانوں) کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے آئی کارڈ دیکھیں اور اگر وہ مسلمان ہیں تو انھیں گھر یا اپنی دکان کرائے پر نہ دیں۔ اپنے ہندو بھائیوں کی دکانوں سے سامان خریدیں اور انھی کو اپنے گھریلو کام کاج میں تعاون کے لیے رکھیں۔ گوشت کی دکانیں بھی ہندو والمیکی یا جو ہندو اسے چلانا چاہتے ہیں ان کو دی جائے۔‘

سوشل میڈیا پر ردِعمل

انڈیا میں مسلمانوں کے بائیکاٹ اور ان کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کی اپیل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ان دنوں سوشل میڈیا پر اسے زیادہ دیکھا جا رہا ہے۔

محمد مستقیم میواتی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’گڑگاؤں میں ہندوؤں کی پنچایت میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کوئی سامان نہیں خریدے گا، مسلمانوں کو کرائے پر مکان نہیں دیے جائیں گے، اگر پولیس امام مسجد کے قاتلوں کو پکڑنے جائے گی تو اس کی مخالفت کی جائے گی۔ اور پنچایت نے یہ فرمان جاری کیا کہ امام کے قتل کے ملزمان کا نام ایف آئی آر سے ہٹایا جائے، نام نہ ہٹانے کی صورت میں چکا جام (روڈ بلاک) کر دی جائے گی۔‘

اپنے اس ٹویٹ میں مسٹر مستقیم ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’جہاں وزیر اعلی کو امام کے قاتلوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوانا چاہیے تھا وہاں سٹرک بلاک کرنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ کیا واقعی وزیر اعلی پنچایت سے ڈر گئے ہیں جو گڑگاؤں کے فسادیوں کے گھر ابھی تک بلڈوزر نہیں چلا ہے۔‘

https://twitter.com/MustaqeemMewati/status/1688593079400591360

خیال رہے کہ اس دوران ہریانہ انتظامیہ نے نوح میں بہت سی تعمیرات کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا ہے۔ ’دی کوئنٹ‘ کے مطابق نوح کے سب ڈیویژنل مجسٹریٹ انیل اشونی کمار نے کہا ہے کہ ’نلہار میڈیکل کالج کے پاس 45 سے زیادہ غیر قانونی تعمیرات اور ایک درجن سے زیادہ عارضی جھونپڑیوں اور دکانوں کو بلڈوزر سے گرا دیا گیا ہے۔‘

اس میں ایک تین منزلہ ’سہارا ہوٹل‘ بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

میوات میں ’ہندو مسلم فسادات‘ کے بعد امام مسجد ہلاک

انڈیا کے مسلم اکثریتی ضلع میں تشدد کی وہ چنگاری جس نے چھ افراد کی جان لے لی

میوات میں ہلاک ہونے والے امام مسجد کی وائرل ویڈیو

اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے ایک صحافی ضیا السلام نے لکھا کہ 'ہریانہ میں ہندو مہا پنچایت نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بات کہی ہے اور مسلمانوں کو نہ کچھ فروخت کرنے اور ان سے نہ کچھ خریدنے کی بات کہی ہے۔' ٹھیک ہے۔ اس کی ابتدا پیٹرول ڈیزل کا استعمال بند کر کے شروع کریں۔ بیل گاڑی کے زمانے میں واپس چلے جائيں۔ اپنے بھائیوں سے کہو کہ دبئی، عمان وغیرہ میں نوکریاں چھوڑ کر گھر واپس آ جائيں۔‘

معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے مہا پنچایت کے حوالے سے وزارت داخلہ سے کہا ہے کہ 'امام کو قتل کرنے والوں اور نوح میں ہندوؤں کو قتل کرنے والوں کو سب کو مجرم ٹھہرایا جائے اور انھیں عبرت ناک سزا دی جائے۔‘

’جہاں تک مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کا تعلق ہے، مجھے امید ہے کہ گروگرام اور انڈیا کے اچھے متوسط طبقے اور اشرافیہ شہری ایسی کسی بھی کوشش کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔ پل بنائیں دیواریں نہیں!‘

https://twitter.com/sardesairajdeep/status/1688533644250423296

پولیس کے نام ایک پنچایت کا خط سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گاؤں میں کسی مسلم کو برداشت نہیں کریں گے۔

’دی ٹیليگراف‘ کے مطابق کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک گروپ جس میں دو رکن پارلیمان بھی شامل ہیں نے کہا ہے کہ ’یہ خط بی جے پی کی حکومت میں اقلیت کے خلاف منظم تعصب کی تلخ حقیقت کو واضح کرتا ہے۔‘

سی پی آئی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’جین آباد پنچایت کے سرپنچ بھاونا یادو کے لیٹر ہیڈ پر یہ خط اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک کی تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے، جسے بی جے پی کے دور حکومت میں منظم طریقے سے پالا جا رہا ہے۔‘

سی پی آئی کے بیان میں مزید کہا گیا: ’خط کا مواد چونکا دینے والا ہے۔ یہ مقامی پولس حکام کو ایک فیصلہ سے آگاہ کرتا ہے کہ مسلمانوں یا شرپسندوں کو پنچایت کے علاقے میں کسی بھی کاروبار یا پھیری والوں کو کسی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہ دی جائے۔ اس میں مسلمانوں کو چوروں اور مویشی چوروں کے برابر بھی کہا گیا ہے۔‘

’خط میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات گاؤں میں امن کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں، جو خود بخود مسلمانوں کی موجودگی کو فرقہ وارانہ فساد کی واحد وجہ بنا دیتا ہے۔‘

پیس انسٹیٹیوٹ کے ٹوئٹر ہنیڈل سے برطانیہ کے امام مفتی شیخ محمد نے ایک ویڈیو شیئر کیا ہے جس میں غیر ہندوؤں یعنی مسلم اور مسیحیوں سے کسی بھی قسم کے لین دین نہ کرنے کا عہد کیا اور کرایا جا رہا ہے۔ یہ ویڈیو انڈیا میں کس جگہ کی اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے لیکن ماضی میں اس قسم کے عہد انڈیا کی مختلف ریاستوں اور پروگرامز کے دوران نظر آئے ہیں۔

اسی طرح ہندوتوا وانچ آئی این نامی ٹوئٹر ہینڈل سے گذشتہ ماہ ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں کہا گيا ہے کہ یہ اورنگ آباد مہاراشٹر کے پھولامبری کا ویڈیو ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائی جا رہی ہے اور ان کے معاشی بائیکاٹ کی بات کی جا رہی ہے۔

سارتھک بھگت نامی صارف نے لکھا ہے کہ ’میوات کے فسادات کے بعد مسلمانوں کو گڑگاؤں، مانیسر اور آس پاس کے گاؤں سے نکلنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ مہیندر گڑھ ہریانہ سے 19 گاؤں کے سرپنچوں نے ایس ڈی ایم کو ایک خط بھیجا ہے جس میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی بھی مسلمان ان 19 گاؤں میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US