سوہنا میں مسلمانوں کی محدود آبادی ہے۔ شاہی جامع مسجد کے آس پاس مسلمانوں کے چند ہی گھر ہیں۔ مسجد کے امام کے مشترکہ خاندان کے تقریباً 40 افراد کے علاوہ یہاں صرف چند مسلمان آباد ہیں۔

31 جولائی کو انڈین ریاست ہریانہ کے علاقے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد آس پاس کے علاقوں میں کشیدگی تھی۔ یہاں سے تقریباً 20 کلومیٹر دور سوہنا میں بھی حالات کشیدہ ہو رہے تھے۔
سوہنا کی شاہی جامع مسجد جو شہر کی سب سے بڑی اور خطے کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے، کے امام کلیم کشفی کو کچھ گڑبڑ کا اندیشہ تھا لیکن ان کا دل یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ان کے ساتھ اس علاقے میں کچھ برا ہو سکتا ہے جہاں ان کا خاندان کئی دہائیوں سے رہ رہا ہے۔
کلیم کشفی نوح کے پرتشدد واقعات کے بعد محتاط تھے۔ آس پاس کے لوگوں نے انھیں کچھ دن کے لیے محفوظ مقام پر جانے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
یکم اگست کو سوہنا میں امن کمیٹی (مختلف مذاہب کے رہنماؤں اور پولیس انتظامیہ) کی ایک میٹنگ ہوئی اور شہر میں بھائی چارہ پیدا کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس میٹنگ میں شریک علاقائی کونسلر کے شوہر گوروچن سنگھ نے اجلاس سے قبل امام کلیم کشفی کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو محفوظ مقام پر بھیج دیں لیکن ملاقات کے بعد انھوں نے کلیم کشفی سے کہا کہ ’اب حالات بہتر ہونے کے آثار ہیں۔‘
جب ہجوم نے مسجد پر حملہ کیا
سوہنا کی شاہی جامع مسجد کے امام کلیم کشفی کو کچھ گڑبڑ کا اندیشہ تھاامام کلیم کشفی اور ان کے اہلخانہ شاہی مسجد کے احاطے کے ایک حصے میں رہتے ہیں۔ نوح میں پیش آنے والے واقعے کے بعد مسجد کی سکیورٹی کے لیے پولیس تعینات کردی گئی تھی۔
کلیم کشفی کہتے ہیں کہ ’انتظامیہ اور علاقے کے لوگوں نے ہمیں سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ پولیس بھی موجود تھی، اس لیے خوف کے باوجود ہم اہلخانہ کے ساتھ یہاں ہی ٹھہرے رہے۔‘
سوہنا میں مسلمانوں کی محدود آبادی ہے۔ شاہی جامع مسجد کے آس پاس مسلمانوں کے چند ہی گھر ہیں۔ مسجد کے امام کے مشترکہ خاندان کے تقریباً 40 افراد کے علاوہ یہاں صرف چند مسلمان آباد ہیں۔
شاہی جامع مسجد کی صحیح تاریخ تو دستیاب نہیں لیکن عمارت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ مسجد صدیوں پرانی ہے۔
امام کلیم کشفی کے مطابق یہ مسجد علاؤالدین خلجی کے حکم پر بنائی گئی تھی۔ تین بڑے گنبدوں والی یہ مسجد اونچائی پر بنائی گئی ہے۔ اس کے ایک طرف ایک بہت بڑا گنبد ہے جس میں 12 ستون ہیں اور اس سے ملحق ایک مقبرہ نما عمارت ہے جس میں اب امام اور ان کے اہلخانہ رہتے ہیں۔
منگل کی دوپہر ایک بجے کے قریب امام کشفی کو اطلاع ملنا شروع ہوئی کہ مسجد پر حملہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے گھر والوں کو کمروں میں بند کر دیا۔
دوپہر ایک بجے کے قریب کچھ نوجوانوں نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انھیں بھگا دیا۔
کلیم کشفی کا کہنا ہے کہ ’جب دو تین نوجوان مسجد کی دیوار پھلانگ کر اندر آئے تو پولیس نے انھیں بھگا دیا۔ ہم نے فوری طور پر مقامی پولیس کو اس کی اطلاع دی۔ ایس ایچ او موقع پر پہنچے اور نوجوانوں کے چھوٹے گروہ کو بھگا دیا جو مسجد پر حملہ کرنے آئے تھے۔‘

امام کلیم کشفی کہتے ہیں کہ ’لیکن چند منٹ بعد ایک بڑے ہجوم نے دوسری طرف سے مسجد پر حملہ کر دیا۔ پولیس بھی ان کے سامنے بے بس ہو گئی۔‘
کشفی کا بھتیجا صادق مسجد کے احاطے میں موجود تھا کہ نوجوانوں کا ہجوم آگے بڑھا۔ ہجوم کو دیکھ کر اس نے مسجد سے ملحقہ رہائشی علاقے کا دروازہ بند کر دیا۔ اپنے گھر کے کچن کی کھڑکی سے وہ ہجوم کو مسجد پر حملہ آور ہوتے دیکھ رہا تھا۔
صادق بتاتے ہیں کہ ’ہمیں گھر کی عورتوں اور بچوں کی فکر تھی۔ دروازہ اندر سے بند کر کے ہم نے انھیں گنبد کے اوپر پہنچا دیا تاکہ حملہ آور انھیں دیکھ نہ سکیں۔ ہم نے گنبد کو جانے والے راستے باہر سے بند کر دیے تھے تاکہ بھیڑ یہ سمجھے کہ اندر کوئی نہیں۔
صادق نے گھر میں لگی کھڑکی کی جالی سے مسجد پر حملے کی مختصر ویڈیو بھی بنائی۔ اس ویڈیو میں ہاتھوں میں ہتھیار لیے ہوئے حملہ آور مسجد میں توڑ پھوڑ کرتے نظر آ رہے ہیں۔
اس دوران مسجد میں امام اور ان کے اہلخانہ کے پھنسے ہونے کی خبر مقامی کونسلر گروچن سنگھ کو ملی۔ انھوں نے فوراً علاقے کے سکھ نوجوانوں کو اکٹھا کیا اور مسجد کی طرف بڑھے۔
’جان بچانا ہمارا سب سے بڑا فرض ہے‘
گروچن بتاتے ہیں کہ ’مقامی پولیس فسادیوں کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ ہمیں آگے بڑھتے دیکھ کر پولیس والوں کو بھی حوصلہ ملا۔ جب ہم مسجد کے احاطے میں داخل ہوئے تب تک فسادی فرار ہو چکے تھے۔‘
گروچن سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہم نے پولیس کے ساتھ مل کر امام اور ان کے خاندان کو بچایا اور انھیں محفوظ مقام پر پہنچایا۔ ہم نے امام صاحب سے کہا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں۔‘
کیا اس دوران گوروچن سنگھ خوفزدہ تھے؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’ہم صرف اتنا جانتے تھے کہ جان بچانا ہمارا سب سے بڑا فرض ہے۔ ہم امام اور ان کے خاندان کو بچپن سے جانتے ہیں۔ ہم صرف اپنے مذہب کی پیروی کر رہے تھے۔‘
مسجد سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر سکھوں کی کافی آبادی ہے۔ یہاں تقریباً 300 سکھ خاندان اور ایک بڑا گرودوارہ ہے۔
ایک سکھ شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں سکھ، مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے آئے تھے کیونکہ وہ پھنس گئے تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا مذہب کیا ہے۔‘
اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے صادق کہتے ہیں کہ ’جب پولیس فسادیوں کا پیچھا کر رہی تھی، تو آس پاس رہنے والے سکھ یہاں پہنچے اور ہماری خیریت پوچھی اور کہا کہ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہم کہیں جانا چاہتے ہیں تو ان کی گاڑیاں موجود ہیں لیکن پھر انتظامیہ نے بس کا انتظام کیا، اس لیے وہ پولیس کے ساتھ ہمارے خاندان کو بحفاظت چھوڑ کر آئے۔‘
امام کلیم کشفی کہتے ہیں کہ ’ہمیں یقین تھا کہ ہمارے پڑوسی ہمارے ساتھ ہیں۔ حملے کے وقت یہاں سکھ بھائی آئے تھے۔‘
کلیم کشفی کہتے ہیں کہ ’ہمارا خاندان گزشتہ 50 سال سے یہاں رہ رہا ہے۔ یہ مسجد 1947 کی تقسیم کے بعد بند کر دی گئی تھی۔ ہمارے دادا نے آکر اسے کھولا اور آباد کیا۔ 92 میں فسادات ہوئے لیکن یہاں کچھ نہیں ہوا۔ نہ جانے کتنی بار حالات کشیدہ ہوئے لیکن مسجد پر کبھی حملہ نہیں ہوا۔
اس حملے کے دوران مشتعل افراد نے مسجد کے قریب کھڑی کار اور دیگر گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
مسجد میں رکھے واٹر کولر، کرسیاں اور پنکھے بھی توڑ دیے گئے ہیں۔ منبر (وہ جگہ جہاں امام کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہیں) گرا دیا گیا۔ حملے کے بعد مسجد کی صفائی کر دی گئی ہے لیکن یہاں ہر طرف حملے کے نشانات نظر آتے ہیں۔
بجلی کے بورڈ اکھاڑ دیے گئے ہیں۔ مضبوط دروازوں میں بھی شگاف پڑ گئے ہیں۔ مسجد کی گھڑی اسی وقت رک گئی جب اس پر چھڑی ماری گئی۔ یہ اب بھی دوپہر کے 1:30 کا وقت دکھا رہی ہے۔
گروچن بتاتے ہیں کہ ’مقامی پولیس فسادیوں کو منتشر کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ ہمیں آگے بڑھتے دیکھ کر پولیس والوں کو بھی حوصلہ ملا‘’پولیس گولی نہ چلاتی تو کچھ بھی ہو سکتا تھا‘
صادق کہتے ہیں کہ ’حملہ آوروں نے وہ کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ ہمارے گھر کی عورتیں پھنس گئی تھیں۔ سب کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ ہم اندر ہیں تو وہ دروازہ توڑنے کی کوشش بھی کرتے۔‘
صادق ایک نجی کمپنی میں کام کرتے ہیں اور تشدد کے بعد سے وہ دفتر نہیں جا رہے اور اب وہ گھر سے کام کر رہے ہیں۔
صادق کہتے ہیں کہ ’اس حملے سے ہونے والے معاشی نقصان کی تلافی ہو جائے گی لیکن ہمارے ذہنوں سے اس کے نشانوں کو مٹانا آسان نہیں۔‘
صادق کی خالہ کے بیٹے سہیل بھی اسی احاطے میں رہتے ہیں اور گروگرام میں کام کرتے ہیں۔ حملے کے وقت سہیل بھی یہاں موجود تھے اور اس وقت وہ بھی گھر سے کام کر رہے ہیں۔
سہیل کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے اس واقعے کو بھولنا آسان نہیں ہو گا۔ اگر پولیس فائرنگ نہ کرتی تو یہاں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔سہیل کہتے ہیں کہ’میرے بہت سے مسلمان دوست ہیں جو اب گروگرام سے واپس چلے گئے ہیں۔‘
پولیس فی الحال جامع مسجد میں تعینات ہے۔ یہاں اب ایک تناؤ کا ماحول ہے لیکن حالات پر سکون ہیں۔
امام کے خاندان کی خواتین نے یہاں سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور ایک گاؤں میں پناہ لی ہے۔ وہ ایک تعلیمی ادارے کے احاطے میں رہ رہی ہیں۔
کلیم کشفی کہتے ہیں کہ ’ہم جلد از جلد اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہتے ہیں۔‘
لیکن کیا ان کے دل سے واقعے کا خوف نکل سکے گا؟
اس پر کلیم کہتے ہیں کہ ’یہ حملہ ہماری سوچ سے بالاتر ہے۔ جب موت آنکھوں کے سامنے سے گزر جائے تو خوف ہوتا ہے لیکن مسجد چھوڑ کر کہاں جائیں گے اور یہ ورثہ کس پر چھوڑیں گے؟
گروگرام پولیس نے ابھی تک اس حملے کے سلسلے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ سوہنا کے اے سی پی نوین سندھو کہتے ہیں کہ ’ہم ابھی تفتیش کر رہے ہیں۔ تحقیقات کے بعد کارروائی کی جائے گی۔‘