29 اگست 1952 کا دن تھا جب گزشتہ رات آٹھ بجے چنئی سے روانہ ہونے والی ایکسپریس ٹرین صبح 10 بجے منامادورائی پہنچی تھی۔ جہاں مسافروں نے شکایت کی کہ ٹرین کی ایک بوگی سے بدبو آرہی ہے۔ جس کے بعد پولیس اور ریلوے پولیس کو اس کی اطلاع دی گئی۔

انتباہ: اس کہانی میں کچھ تفصیلات پریشان کن ہوسکتی ہیں۔
یہ 1950 کی دہائی کا وقت تھا۔ انڈین ریاست تمل ناڈو سے ’انڈو سیلون ایکسپریس‘ نامی ایک ٹرین نکلی تھی۔ وہ چنئی کے ایگمور سٹیشن سے دھنشکوڈی جا رہی تھی اور وہاں سے اسے سری لنکا میں تھلائیمنار جانا تھا۔
ان دنوں چنئی کے ایگمور سٹیشن سے دھنوشکوڈی تک کے سفر میں 19 گھنٹے لگتے تھے۔ دھنوشکوڈی پہنچنے کے بعد سیاح ٹرین سے اترتے تھے اور وہاں سے فیری بوٹ لے کر سری لنکا میں تھلائیمنار جاتے تھے۔
یہ سفر ساڑھے تین گھنٹے کا تھا اور فیری بوٹ کو ’بوٹ میل ایکسپریس‘ کہا جاتا تھا۔
تقریباً 70 سال قبل اس ٹرین میں ایک سر کٹی لاش ملی تھی جس نے سب کو چونکا دیا تھا۔ یہ قتل کیسے ہوا اور اس قتل کی وجہ کیا تھی، یہ سر کٹی لاش کس کی تھی، یہ وہ سوال تھے جو کئی دنوں تک خبروں کی زینت بنتے رہے۔
صندوق میں سر کٹی لاش کا معمہ

29 اگست 1952 کا دن تھا جب گزشتہ رات آٹھ بجے چنئی سے روانہ ہونے والی ایکسپریس ٹرین صبح 10 بجے منامادورائی پہنچی تھی۔
مسافروں نے شکایت کی کہ ٹرین کی ایک بوگی سے بدبو آرہی ہے۔ جس کے بعد پولیس اور ریلوے پولیس کو اس کی اطلاع دی گئی۔
جب پولیس متعلقہ بوگی میں داخل ہوئی تو وہاں ایک صندوق پڑا ملا جس سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ پولیس نے جیسے ہی اس صندوق کو کھولا تو انھیں اس میں ایک سر کٹی انسانی لاش ملی۔
اس لاش کے پاؤں میں سبز موزے تھے لیکن لاش کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے اس کو وہاں کے سرکاری ہسپتال بھیج دیا گیا جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
پوسٹ مارٹم میں ڈاکٹروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لاش ایک 25 سالہ شخص کی ہے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اس شخص کے ختنے ہوئے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلمان تھا تاہم قتل کے اس کیس کے حل ہونے پر دونوں نتائج غلط ثابت ہوئے۔
چنئی میں گمشدگی کی ایف آئی آر کا درج ہونا
جس وقت منامادورائی میں پولیس صندوق سے ملنے والی سر کٹی لاش کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہی تھی اسی دوران ایک عورت اپنے شوہر کو ڈھونڈ رہی تھی اور اس نے اپنی ایک جاننے والی خاتون دیوکی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دیوکی کے بجائے اس کے شوہر پربھاکر مان نے دروازہ کھولا۔
عورت نے پربھاکر مان سے کہا ’میرا شوہر کل سے گھر واپس نہیں آیا۔ لوگوں نے اسے دیوکی کے ساتھ دیکھا۔ اس لیے میں یہاں آئی ہوں۔‘
پربھاکر مان نے خاتون سے کہا کہ ایسا کوئی شخص ان کے گھر میں نہیں اور نہ ہی یہاں آیا ہے۔‘
خاتون کا لاپتہ شوہر ایک تاجر تھا۔ اس کا نام الوندر تھا اور وہ گذشتہ رات سے گھر نہیں لوٹا تھا۔ اس لیے اس کی بیوی اگلی صبح سے اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ اپنے شوہر کا کوئی سراغ نہ ملنے پر خاتون، الوندر کے قریبی دوست کے ساتھ پولیس سٹیشن گئی اور اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔
خاتون کے مطابق پولیس نے دیوکی کے گھر سے تفتیش شروع کرنے کا فیصلہ تاہم جب پولیس دیوکی کے گھر پہنچی تو اس کے گھر کو تالہ لگا ہوا تھا۔ پڑوسیوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ دیوکی اور پربھاکر مان ممبئی چلے گئے ہیں۔
(فائل فوٹو)ساحل سمندر سے تھیلے میں سر ملا
ایک پڑوسی نے پولیس کو بتایا کہ گزشتہ روز پربھاکر مان کو ایک بیگ کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد پولیس نے رائے پورم کے ساحل پر کچھ دنوں تک تلاشی لی۔
الوندر کے لاپتہ ہونے کے تیسرے دن مقامی باشندوں نے پولیس کو رائے پورم کے ساحل پر پڑے ایک بیگ سے بدبو آنے کی شکایت کی۔ پولیس کو موقعے پر تفتیش کے دوران بیگ سے براؤن شرٹ میں لپٹا ایک سر ملا۔ بیگ سے ملنے والے سر کی حالت بوسیدہ تھی۔اگلے دن اخبارات میں جب خبر شائع ہوئی تو چنئی میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔
کٹے ہوئے سر کو معائنے کے لیے مدراس میڈیکل کالج بھیج دیا گیا۔ اس دوران منامادورائی سے ایک سر کٹی لاش بھی چنئی بھیجی گئی۔ ان دونوں معاملات کی تحقیقات مشہور فرانزک پروفیسر سی پی گوپال کرشن کر رہے تھے۔
فرانزک تحقیقات کے بعد انھوں نے بتایا کہ لاش کی عمر 42 سے 45 سال ہو سکتی ہے۔
چنئی سے ملنے والے سر کے کان میں دو سوراخ تھے، جب یہ سر الوندر جی اہلیہ کو دکھایا گیا تو انھوں نے کان میں سوراخ اور دانتوں کی ساخت دیکھ کر فوراً کہا کہ یہ سر ان کے شوہر کا ہے۔
الوندر کون تھا؟
1952 میں جب الوندر کو قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی عمرغالباً 42 سال تھی۔ وہ ایک فوجی دفتر میں سب ڈویژنل افسر کے طور پر کام کرتے تھے تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد انھوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے چنئی شہر میں اپنا ایک چھوٹا کا کاروبار شروع کیا۔ پہلے پہل تو انھوں نے اپنے ایک دوست کنم چیٹی کے ساتھ مل کر پلاسٹک کی اشیا بیچنا شروع کیں۔ ان کا دوست چنئی میں قلم بیچا کرتا تھا۔ الوندر نے اسی عرصے میں اپنی چھوٹی سی دکان شروع کی۔
اس کے علاوہ وہ صارفین کو قسطوں پر ساڑھیاں بھی فروخت کرتے تھے۔ اس وقت قسطوں پر ساڑھیاں یا چیزیں دینے کا آئیڈیا نیا تھا اس لیے انھوں نے کاروبار میں خوب منافع کمایا۔
اگرچہ الوندر کے دو بچے تھے لیکن پولیس کی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ان کا ایک افیئر تھا اور وہ غیر ازدواجی تعلق میں تھے۔ اس کے علاوہ الوندر افیون جیسی نشہ آور چیز کا بھی استعمال کرتے تھے۔
ایک رات جب الوندر گھر واپس نہیں آئے تو ان کی بیوی دکان پر گئیں اور اپنے شوہر کے بارے میں دریافت کیا۔ جہاں انھیں بتایا گیا کہ وہ دیوکی سے ملنے گئے تھے۔
دیوکی اور پربھاکر نے قتل کی منصوبہ بندی کی
دیوکی دراصل کیرالہ کی رہنے والی تھیں اور کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے چنئی کے ایک لینگویج ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ میں کام کرنا شروع کیا۔
دیوکی اور الوندر کی ملاقات ایک سٹیشنری کی دکان میں ہوئی تھی۔ اگست 1951 میں ہونے والا ایک تعارف محبت میں بدل گیا۔ اس وقت دیوکی کی شادی نہیں ہوئی تھی لیکن الوندر شادی شدہ تھے۔
الوندر کا دیوکی کے ساتھ غیر ازدواجی تعلق تھا۔ یہ کچھ دنوں تک جاری رہا اور 1952 میں دیوکی کی شادی پربھاکرن مان سے ہوئی۔ پربھاکر مان اس سے پہلے ایک نجی انشورنس کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ بعد میں وہ ’سوا تنتر‘ نامی رسالے کے ایڈیٹر بن گئے۔
جب پربھاکرمان اپنے میگزین کی تشہیر کے لیے سخت محنت کر رہے تھے، دیوکی انھیں الوندر کی دکان پر لے گئی۔ دیوکی نے پربھاکر کو بتایا کہ الوندر میگزین کے لیے ایک اشتہار لا سکتے ہیں۔
اس کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر ایم سنگاراویلو کے مطابق الوندر شادی کے بعد بھی دیوکی کو ہراساں کر رہا تھا۔ اس لیے دیوکی نے الوندر کو ’راستے سے ہٹانے‘ کا فیصلہ کیا۔

آئی پی ایس افسر ایم سنگاراویلو نے 1955 میں مدراس پولیس جرنل میں اس بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا۔
انھوں نے لکھا کہ الوندر نے ایک بار پربھاکر سے ملاقات کی اور اسے بتایا کہ وہ ’ایک بڑی کمپنی کے اہلکار سے ملنے جا رہے ہیں۔ اگر دیوکی بھی میرے ساتھ آجائے تو ہم میگزین کے لیے بڑا اشتہار مانگ سکتے ہیں۔ اس کے بعد دیوکی الوندر کے ساتھ چلی گئی لیکن الوندر کے ارادے ٹھیک نہیں تھے۔‘
وہ دیوکی کو کسی کلائنٹ سے ملوانے کے بہانے ایک ہوٹل لے گئے۔ جہاں اس نے اس کی عزت پر ہاتھ ڈالا۔ دیوکی روتی ہوئی گھر واپس آئی اور سارا واقعہ اپنے شوہر کو سنایا۔
سب کچھ سننے کے بعد، پربھاکر نے دیوکی سے پوچھا کہ ’کیا آپ کا الوندر سے کبھی محبت کا رشتہ رہا ہے؟‘
دیوکی نے ’ہاں‘ میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات دباؤ میں رشتہ بن جاتا ہے۔
اس کے بعد پربھاکرن نے دیوکی کو بدلے کا یقین دلایا اور دیوکی کے ساتھ مل کر الوندر کو قتل کرنے کی سازش رچی تھی۔
الوندر کو گھر بلا کر قتل کیا گیا

28 اگست 1952 کو دیوکی الوندر کی دکان پر گئی اور اسے گھر آنے کا کہا۔ الوندر کے پہنچنے سے پہلے دیوکی نے اپنے ملازم نارائن کو کچھ رقم دے کر گھر سے روانہ کیا اور شام کو واپس آنے کی ہدایت کی۔
جب الوندر دیوکی کے گھر آیا تو اس وقت اس کا شوہر پربھاکر بھی گھر میں موجود تھا لیکن الوندر کو اس کا علم نہ تھا۔ پربھاکر نے دیوکی کے ساتھ مل کر الوندر کو قتل کیا اور اس کا سر اس کے دھڑ سے الگ کر دیا۔
اس کے بعد لاش کو ایک صندوق میں ڈالا جبکہ سر کو ایک تھیلے میں بند کر کے رائے پورم میں سمندر میں پھینک دیا گیا، لیکن تھیلا جلد ہی سمندر کی لہروں سے بہتا ہوا واپس ساحل پر آ گیا۔
پربھاکر نے تھیلے میں کچھ ریت بھری اور اسے واپس پانی میں بہا دیا تاہم تب تک کچھ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے اور پربھاکر ان کے دیکھ کروہاں سے فرار ہو گئے۔
گھر واپس آنے کے بعد، دیوکی اور پربھاکر نے الوندر کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے اسے چنئی سینٹرل ریلوے سٹیشن لے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ جب رکشے پر وہاں پہنچے تو وہاں پولیس کی موجودگی سے خوفزدہ ہو کر وہ لاش والا صندوق ایگمور ریلوے سٹیشن پر لے گئے جہاں انھوں نے ایک قلی کی مدد سے اسے ٹرین میں رکھ دیا۔
اگلے دن الوندر کی بیوی انھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیوکی کے گھر پہنچی لیکن پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کے خوف سے دیوکی اور پربھاکر فوراً ممبئی فرار ہو گئے۔
پولیس کو الوندر کے قتل اور دیوکی اور پربھاکر کے منصوبے سے پردہ اٹھانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ وجہ یہ تھی کہ بہت سے لوگوں نے الوندر کو پربھاکر کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا تھا لیکن کسی نے اسے واپس جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
مدراس پولیس نے ممبئی جا کر دیوکی اور پربھاکر کو گرفتار کر لیا۔ یہ مجرم جوڑا ممبئی میں اپنے ایک رشتہ دار کے پاس ٹھہرا ہوا تھا۔ اسے ممبئی سے واپس چنئی لایا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی۔ انھوں نے ابتدا میں قتل کے الزام سے انکار کیا تھا لیکن ان کے خلاف مضبوط شواہد موجود تھے۔
وہ رکشہ ڈرائیور جس نے الوندر کی لاش والا صندوق ریلوے سٹیشن پہنچایا تھا اور جس قلی نے وہ صندوق ٹرین میں رکھا تھا، دونوں نے پربھاکر کو پہچان لیا۔ دیوکی کے ملازم نارائن نے بھی بہت سی باتیں بتائیں۔
فرانزک تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ایک سوچا سمجھا قتل تھا لیکن الوندر کے بارے میں جج کا رویہ انتہائی منفی تھا۔ چنانچہ جج نے قاتلوں دیوکی اور پربھاکر کو کم سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
عدالت نے پربھاکر کو سات سال، جبکہ دیوکی کو دو سال کی سزا سنائی۔ پربھاکر اور دیوکی کو پچاس کی دہائی میں سزا پوری ہونے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے کیرالہ چلے گئے جہاں انھوں نے ایک نئی دکان شروع کی۔
قتل کے اس کیس کو تمل ناڈو پولیس کی تحقیقاتی تاریخ میں سب سے اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ فارنزک سائنس نے قتل کو ثابت کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا تھا۔
بعد میں اس قتل کے بارے میں تامل ناڈو میں کئی کتابیں لکھی گئیں اور 1995 میں اس کیس کی بنیاد پر ایک ٹیلی ویژن سیریل بھی بنایا گیا۔