نوح کے فسادات: کیا بلڈوزر کے زور سے انڈیا میں قانون کو کچلا جا رہا ہے؟

'انھوں نے سیکنڈوں میں سب کچھ تباہ کر دیا۔' یہ بات انڈیا کے دارالحکومت دہلی سے ملحق نوح کے علاقے میں اپنی عمارت کے ملبے پر کھڑے محمد سعود نے نم آنکھوں سے کہی۔
محمد سعود
BBC
محمد سعود کی دکانوں کو نوح کے سرکاری حکام نے زمیں بوس کر دیا

’انھوں نے سیکنڈوں میں سب کچھ تباہ کر دیا۔۔۔‘ یہ بات انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق نوح کے علاقے میں اپنی عمارت کے ملبے پر کھڑے محمد سعود نے نم آنکھوں سے کہی۔

وہ اور ان کے چھوٹے بھائی نواب شیخ اپنی دکانوں کو زمیں بوس کیے جانے کے بعد ملبے کے ڈھیر کو دیکھ رہے تھے۔ سنیچر کے روز جب وہ بی بی سی سے بات کر رہے تھے تو ان کے پیچھے ایک پیلے رنگ کا بلڈوزر پُرشور آواز میں گرج رہا تھا۔

محمد سعود نے کہا کہ ’ہمارے پاس 15 دکانیں تھیں جو ہمارے خاندان کی زمین پر بنائی گئی تھیں۔ ہمارے پاس تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن ان (پولیس) کا اصرار ہے کہ یہ عمارتیں غیر قانونی ہیں۔‘

ان بھائیوں کی عمارتیں ان سینکڑوں دکانوں اور مکانات میں شامل ہیں جنھیں ضلعی حکام نے مسلم اکثریتی ضلع نوح میں گذشتہ ہفتے پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ تشدد کے نتیجے میں مسمار کر دیا ہے۔

یہ علاقہ انڈیا کے دارالحکومت کے علاقے (جس میں دہلی اور اس کے مضافاتی علاقے شامل ہیں) کے غریب ترین ضلعوں میں سے ایک ہے۔

پولیس نے کہا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب ایک سخت گیر ہندو تنظیم کی قیادت میں ایک یاترا (مذہبی جلوس) نوح سے گزرا تو اس پر پتھراؤ کیا گیا۔ جیسے ہی اس فساد کی خبر پھیلی دہلی سے ملحق گروگرام میں بھی تشدد پھوٹ پڑا۔ نوح اور گروگرام میں چھ افراد مارے گئے جبکہ فسادیوں نے دکانوں، گاڑیوں اور ایک مسجد کو آگ لگا دی۔

بلڈوز
Getty Images
مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی ریاستی حکومتوں کے ذریعے بلڈوزر کا استعمال فوری سزا کے طور پر کیا جا رہا ہے

بلڈوزر اجتما‏عی سزا کی علامت

کچھ دنوں کے بعد وہاں بلڈوزر اتر آیا جو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر انتظام بہت سی ریاستوں میں ایک سزا دینے کی ایک علامت بن گیا ہے۔

یہ سرکاری بلڈوزر صدمے سے دوچار نوح کے رہائشیوں پر اترے اور سینکڑوں عمارتوں اور ڈھانچوں کو ڈھا دیا۔ ان کا یہ الزام تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ کارروائی چار دن تک جاری رہی اور سوموار کو اس وقت رکی جب ریاست کی ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو نوٹس جاری کیا۔

عدالت نے کہا کہ 'انہدام کے کسی حکم اور نوٹس کے بغیر، قانون کے ذریعہ قائم کردہ طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر، امن و امان کے مسئلے کو عمارتوں کو گرانے کے بظاہر بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔' عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ کیا ریاست زیادہ تر مسلمانوں کی ملکیت والی عمارتوں کو نشانہ بنا کر 'نسل کشی کی مشق' کر رہی ہے۔

سول سوسائٹی گروپس اور حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 کے بعد جب سےوزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اقتدار میں آئی ہے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے۔

انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش، وسطی ریاست مدھیہ پردیش اور مشرقی ریاست آسام جیسی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اب بلڈوزر کے ذریعے ایسے لوگوں کے گھروں کو تیزی سے گرانا عام ہوگیا ہے جن پر جرائم کا الزام ہے۔ انہدام کی وجوہات کے طور پر غیر قانونی تعمیرات کی بات کہی جاتی ہے لیکن قانونی ماہرین اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اکثر انہداموں کو جرائم کے خلاف اپنی حکومت کے سخت موقف کا نتیجہ کہا ہے اور اس سے جوڑا ہے۔

اگرچہ متاثرین میں ہندوؤں کے خاندان بھی شامل ہیں لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں اور متعدد کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں زیادہ تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، خاص طور پر مذہبی تشدد یا احتجاج کے بعد۔

نوح میں جب انہدام کی وجہ پوچھی گئی تو حکام نے متضاد جوابات دیئے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دھیریندر کھڈگتا نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ صرف غیر قانونی عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ لیکن ضلع کے پلاننگ آفیسر ونیش سنگھ نے کہا کہ حکام ان مکانات کو گرا رہے ہیں جہاں سے 'پتھر برسائے گئے۔'

ناقدین کا کہنا ہے کہ انہدام کی یہ کارروائیاں خاص طور پر ظالمانہ ہیں کیونکہ ان سے خاندان کے معصوم افراد بچے اور عورتیں بے گھر ہو جاتی ہیں۔

ماہر سیاسیات عاصم علی کہتے ہیں: 'کسی کے گھر یا دکان کو من مانی طور پر گرانا قرون وسطیٰ کی اجتماعی سزا کی ایک بہت ہی ظالمانہ شکل ہے۔ معاصر انڈیا میں ان کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قانون کی بالادستی ختم ہو چکی ہے۔'

نواب شیخ
BBC
محمد سعود کے بھائی نواب شیخ

'اجتماعی سزا دینا غیر انسانی اور غیر قانونی'

قانون کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ فوری اور اجتماعی سزا دینا غیر انسانی اور غیر قانونی ہے۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکر کہتے ہیں کہ 'ریاست حقائق کی پرواہ کیے بغیر، حقیقت کا پتہ لگائے بغیر کس طرح سب کو ایک ہی ٹوکری میں ڈال سکتی ہے اور مسمار کرنے کی مہم میں آگے بڑھ سکتی ہے؟ اس صورت حال میں بلا تفریق مذہب و ملت اجتماعی سزا قانون کی حکمرانی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔'

وہ بتاتے ہیں کہ رپورٹس کے مطابق 'لوگوں کو اپنے گھر سے سامان ہٹانے کے لیے مناسب نوٹس یا وقت نہیں دیا جاتا اور انھیں متبادل رہائش تلاش کرنے کے لیے ایک دن کا وقت بھی نہیں دیا جاتا ہے۔'

سپریم کورٹ کے وکیل شادان فراست نے مزید کہا کہ شہریوں کے انفراسٹرکچر کو جان بوجھ کر تباہ کرنا کسی بھی قانون کے تحت جائز نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 'اگر آپ کسی پر تشدد کا الزام لگانا چاہتے ہیں، تو آپ کو انھیں گرفتار کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے۔ آپ صرف ایک دن کے اندر ان کا گھر تباہ نہیں کر سکتے۔'

نوح کے رہائیشی
Getty Images
نوح کے بہت سے رہائیشیوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ان کی تعمیرات کے دستاویزات ہیں

جسٹس لوکور کا کہنا ہے کہ حکام کے پاس غیر قانونی عمارتوں کو گرانے کا اختیار ہے لیکن صرف قانونی طور پر اور اس کے مطابق۔ انہدامی کارروائی سے پہلے مالک مکان کو نوٹس دینا ہوگا اور پھر اسے جرمانہ ادا کرنے یا اپیل دائر کرنے کا موقع دینا ہو گا۔

’حکام کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ صرف اسی حصے کو گرایا جائے جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ اگر ڈھانچہ مکمل طور پر غیر قانونی ہے، تو حکام کو اسے گرانے سے پہلے مالک کو ایک 'معقول' وضاحت فراہم کرنی چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ 'انہدام کی پوری مشق مبینہ طور پر من مانی اور آئینی حقوق کی مکمل خلاف ورزی میں کی جا رہی ہے۔'

نوح میں، پولیس نے کہا کہ انھوں نے مبینہ طور پر تجاوزات کرنے والوں کو نوٹس بھیجے، لیکن کئی خاندانوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں کوئی وراننگ نہیں ملی۔ دوسروں نے دعویٰ کیا کہ وہ فسادات کے وقت اپنے گھروں میں بھی نہیں تھے لیکن پھر بھی انھیں سزا دی گئی۔

20 سالہ مصیب اپنے آنسو نہیں روک سکے جب انھوں نے حکام کو اپنے والد کی بچت سے بنائی گئی اپنی ہفتہ پرانی ٹک شاپ کو منہدم کرتے دیکھا۔

چمن لال
BBC
چمن لال کا کہنا ہے کہ ان کی دکان بغیر کسی نوٹس کے گرا دی گئی

'زندگی پھر سے کیسے شروع کروں'

اس نے پوچھا کہ 'میں دوبارہ زندگی کیسے شروع کروں؟'

ان کے سوال کی بازگشت ہندوؤں سمیت دوسروں سے بھی سنی گئی۔ چمن لال کی حجامت کی دکان بھی تباہ ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے قرض لے کر بنایا تھا۔

انھوں نے کہا کہ 'اس دکان کی وجہ سے 10 افراد پر مشتمل ان کا خاندان گزارہ کرتا تھا۔'

دوسروں کو خدشہ ہے کہ فرقہ وارانہ تقسیم نوح میں امن کو تباہ کر سکتی ہے جہاں ہندو اور مسلمان دہائیوں سے زیادہ تر ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔

اگر چہ انہدام کی کارروائی ابھی کے لیے رک گئی ہے لیکن کچھ مسلمان رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اب خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔

مسٹر شیخ نے کہا: 'ہم پر روز ظلم ہو رہا ہے، اگر دوبارہ ایسا ہوا تو ہم کہاں جائیں گے؟'

لیکن سب کا ایسا خیال نہیں ہے کہ حکام نے جو کیا غلط کیا۔

اشوک کمار نے کہا کہ 'حکومت نے صحیح کام کیا ہے، ان فسادیوں کو سبق سکھایا جانا چاہیے۔' اشوک کمار اپنے دوستوں کے ساتھ اس انہدامی کارروائی کو دیکھنے آئے ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ ہرکیش شرما، جن کی پیزا کی جگہ کو منہدم کر دیا گیا تھا، انھوں نے بھی اگر مگر کے ساتھ اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ 'اگر حکومت صرف ان لوگوں کو سزا دیتی جو تشدد میں ملوث تھے، تو بہتر ہوتا۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US