گاؤں والوں نے مہانند کے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد مہانند کی بیوی گھر چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ساتھ محفوظ مقام پر چلی گئی۔ بیوی نے کہا کہ مہانند کے رویے کی وجہ سے اُنھیں کبھی اُن پر شک نہیں ہوا۔ وہ ایک ’مخلص‘ شوہر اور باپ تھے۔
سنہ 2009 میں گوا پولیس نے مہانند نائیک کو ایک خاتون کا گلا دبانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
ایک ایک کر کے 16 خواتین کو قتل کرنے کی کڑیاں ملزم تک پہنچ رہی تھیں۔ یہ قتل سنہ 1994 سے سنہ 2009 کے درمیان کیے گئے تھے۔
سیریل کلر نائیک کی زندگی کسی تھرلر ویب سیریز سے کم نہیں تھی۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ایک حالیہ ویب سیریز اور مہانند کی زندگی میں بہت سی چیزیں ملتی جُلتی ہیں۔
اس انکشاف کے بعد، سیاحوں کے لیے مشہور مقام گوا میں کھلبلی مچ گئی۔ مہانند نائیک جنھیں میڈیا میں ’دوپٹہ کلر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، لڑکیوں کو شادی کے لیے تیار کرتا اور پھر انھیں قتل کر دیتا تھا۔
حال ہی میں انھیں پیرول پر رہائی ملی ہے، جس کی وجہ سے یہ باب ایک مرتبہ پھر سرخیوں میں آ گیا ہے۔
پہلا شکار بیوی کی بہن
میڈیا رپورٹس کے مطابق مہانند رکشہ چلاتے تھے۔ سنہ 1995 میں اُن کا پہلا شکار ان کی بیوی کی بہن یعنی اُن کی سالی بنیں جن کا نام گلابی گاونکر تھا۔
گلابی کی عمر تقریباً 30 سال تھی۔ وہ کپڑے سلائی کر رہی تھیں، اُن کا سر تن سے جُدا کر دیا گیا۔ تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایک داڑھی والا شخص ان کے پاس اکثر آیا کرتا تھا۔ اس شک کی بنیاد پر پولیس نے مہانند کو حراست میں لے لیا۔
مہانند نے دعویٰ کیا کہ جب اُن کی سالی کا قتل ہوا تو وہ اُس وقت رکشہ سٹینڈ پر تھے۔ دوسرے رکشہ چلانے والوں نے اس کی تصدیق کی تو مہانند کو بچا لیا گیا۔
سکیورٹی کیمرے فعال نا ہونے کی وجہ سے پولیس کے پاس ضروری شواہد نہیں تھے جن کی بنا پر مہانند کو جانے دیا گیا لیکن اس ساری صورتحال نے مہانند کو حوصلہ دیا۔ جس کے بعد مہانند نے اگلے 15 سال میں مزید 15 افراد کو قتل کیا۔

'دوپٹہ کلر‘ کے نام سے مشہور
ایمیزون پرائم پر ریلیز ہونے والی ویب سیریز ’دہاد‘ کی کہانی کے مطابق ایک سیریل کلر یکے بعد دیگرے 27 لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے۔ ایسے خاندانوں کی لڑکیاں جو جہیز نہیں دے سکتیں مگر وہ اپنے ہی جال میں پھنس جاتی ہیں۔
سیریل کلر ان سے شادی کا وعدہ کر کے ان کا جنسی استحصال کرتا ہے اور ان کے زیورات، موبائل اور رقم لوٹ لیتا ہے۔ اس کے بعد انھیں سائینائیڈ نامی انتہائی مہلک زہر دے کر مار دیتا ہے۔
مہانند کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ وہ ایسی لڑکیوں کو ڈھونڈتا جو شادی کی عمر کی ہوں لیکن جہیز نہ لا سکتی ہوں اور جنھیں مناسب رشتہ بھی نہ مل رہا ہو۔
وہ کھیتوں، جنگلوں، ہوٹل یا اپنے گھر میں بھی خواتین کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتا۔ ایک بار جب مہانند ان خواتین کے ساتھ اعتبار کا تعلق بنا لیتا تو لڑکی کو اچھی طرح تیار ہو کر آنے کو کہتا تاکہ اُن کے خاندان سے ملاقات ہو سکے۔
جیسے ہی مناسب وقت یا موقع ملتا تو وہ خواتین کو اُن کے ہی دوپٹے کی مدد سے مار ڈالتا۔ اسی لیے مہانند میڈیا میں 'دوپٹہ کلر‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد مہانند مقتول کے زیورات اس بہانے فروخت کرتے کہ اُن کی بیوی بیمار ہے۔ وہ نقدی اپنے پاس رکھتے اور سم کارڈ کو ناکارہ کر دیتے تاکہ ان کا پتا نہ چل سکے۔
اس کے زیادہ تر متاثرین مالی طور پر کمزور تھے اور کچھ کچے مکانوں میں رہتے تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق درشنا، وسنتی، سنیتا، دیپالی، نرملا، کیسر، نین اور سشیلا سمیت 14 مزید لڑکیوں کا شکار کیا گیا۔ مہانند کا آخری شکار یوگیتا تھیں۔
یوگیتا قتل کیس میں ہائیکورٹ نے انھیں ڈکیتی، شواہد کو تباہ کرنے سمیت مختلف جرائم میں عمر قید اور جرمانے اور قید کی سزا سنائی۔
پیرول پر رہائی
مہانند کھیتوں، جنگلوں، ہوٹل اور اپنے گھر میں بھی خواتین کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتاشیروڈا کے گاؤں والے اس وقت حیران رہ گئے جب اس سلسلہ وار قتل میں مہانند کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ ان کے لیے یہ ناقابل تصور تھا کہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہنے والا شخص اس طرح کے قتل کا ارتکاب کر سکتا ہے۔
گاؤں والوں نے مہانند کے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ اس کے بعد مہانند کی بیوی گھر چھوڑ کر اپنی بیٹی کے ساتھ محفوظ مقام پر چلی گئیں۔
بیوی نے کہا کہ مہانند کے رویے کی وجہ سے اُنھیں کبھی اُن پر شک نہیں ہوا۔ وہ ایک ’مخلص‘ شوہر اور باپ تھے۔
مہانند نے گزشتہ دو سال کے دوران دو مرتبہ پیرول حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا۔ جیل جانے کے بعد وہ پہلی بار جون جولائی کے دوران باہر آئے۔ حال ہی میں انھیں جیل سے 21 دن کی رخصت دی گئی۔
مہانند کے خلاف کئی دیگر مقدمات عدالتی کارروائی کے مختلف مراحل میں ہیں۔ کچھ معاملات میں، مہانند نے جرم کا اعتراف کیا لیکن مقتولین کی لاشیں نہیں ملیں یا وہ انتہائی بوسیدہ حالت میں تھیں، جس سے پولیس اور سرکاری وکیلوں کے لیے کیس کی پیروی کرنا مشکل ہو گیا تاہم کچھ کیسز زیر سماعت ہیں۔ جس سے مستقبل میں اس کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔