عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کے لیے جمعے کا آغاز ہی غلط نوٹ پر ہوا تھا۔ وہ غصے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کمرۂ عدالت سے یہ کہہ کر باہر نکل آئے کہ ’میں آپ کی عدالت میں نہیں آؤں گا۔‘

جب جمعے کے روز سابق وزیر اعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے ریلیف نہ مل سکا تو ان کے وکیل لطیف کھوسہ غصے میں چیف جسٹس عامر فاروق کو کمرۂ عدالت سے یہ کہہ کر باہر نکل آئے کہ ’اب آپ کی عدالت میں جو ہوگا آپ کریں، میں آپ کی عدالت میں نہیں آؤں گا۔‘
ان کے یہ کہتے ہی پی ٹی آئی کے وکلا نے ’شیم شیم‘ اور ’فکس میچ نامنظور‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
ہوا یہ تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کو عمران خان کی توشہ خانہ میں سزا معطلی کے خلاف اپنے دلائل مکمل کرنے تھے۔
لیکن ان کے ایک اور وکیل دوست نے روسٹرم پر آکر بتایا کہ ’امجد پرویز آج بیمار ہیں اور عدالت نہیں آسکتے۔‘ انھوں نے عدالت سے توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
اتنی دیر میں عمران خان کے وکیل کھوسہ بھی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’دِس از ان فئیر می لارڈ‘ (یہ ناانصافی ہے مائی لارڈ)۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو جمعے کے روز ڈویژنل بینچ نہیں لگتا لیکن ہم نے آپ کا کیس سننے کے لیے آج آپ سب کو بلا لیا ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ پیر تک اس معاملے کو ملتوی کر کے پھر پیر کو باقاعدہ سماعت کا آغاز کرتے ہیں۔‘
یہ سنتے ہی لطیف کھوسہ نہ صرف برہم ہوئے اور کہنے لگے کہ ’یہ ناانصافی ہے۔‘ وہ یہ کہتے ہوئے باہر نکل آئے کہ ’اب میں آپ کی عدالت میں نہیں آؤں گا۔‘ اور یہ کہہ کر جہاں وہ لفٹ کی جانب بڑھے وہیں تمام تر رپورٹرز سیڑھیوں سے گراؤنڈ کی جانب جانے لگے۔
یہاں یہ بتانا بھی لازم ہے کہ لطیف کھوسہ صاحب کے لیے جمعہ کا آغاز ہی غلط نوٹ پر ہوا تھا۔ اور اس کی ابتدا بھی لفٹ سے ہوئی تھی۔
ساڑھے گیارہ بجے ہائی کورٹ پہنچنے پر سیڑھیوں سے جانے کے بجائے میں نے لفٹ سے جانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی تقریباً پانچ لوگ اور اندر آئے ہی تھے کہ لفٹ آپریٹر نے لفٹ کا دروازہ بند کرنے کا بٹن دبا دیا۔
لیکن اچانک سے لفٹ کے دروازے کو کھولا گیا اور ایک قدآور شخص نے اندر داخل ہوتے ہی لفٹ آپریٹر سے غصے سے کہا کہ ’تمھیں دِکھ نہیں رہا کہ لطیف کھوسہ صاحب آرہے ہیں؟‘ اور اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی، جسے لطیف کھوسہ نے روکتے ہوئے کہا کہ ’ارے کوئی بات نہیں۔‘

کالا کوٹ پہنے قدآور شخص نے کہا کہ ’نہیں سر انھیں بڑے چھوٹے کی تمیز نہیں ہے۔‘ اس پر لفٹ آپریٹر نے آرام سے کہا کہ ’زیادہ لوگ ہونے سے لفٹ رک جاتی ہے۔‘
’چپ ہو جاؤ، تمھیں نہیں پتا ہے کہ بڑا کون ہے چھوٹا کون ہے،‘ قدآور شخص نے پھر سے کہا۔
اس دوران لفٹ بجائے تیسری منزل پر جانے کے پہلے بیسمنٹ کی طرف گئی، اس کے بعد پہلی منزل پر رُکی اور پھر آخر کار تیسری منزل تک پہنچی جہاں پر جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں پی ٹی آئی کا مقدمہ لگا ہوا تھا۔
لفٹ آپریٹر خاموشی سے پہلی منزل پر اتر چکا تھا جس پر میرے ساتھ کھڑی ایک خاتون وکیل نے کہا کہ ’سی، ان کا یہی مسئلہ ہے، کسی کی تمیز نہیں ہے۔‘
ایک وکیل نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’ایک تو سر عامر فاروق بھی کہاں تیسری منزل پر جا کر بیٹھ گئے ہیں۔‘ اس بات کو لطیف کھوسہ نے جانے دیا۔ پھر کسی نے کہا کہ ’آج جمعے کا مبارک دن ہے‘ جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’سبھی دن مبارک ہوتے ہیں۔‘
ہنستے مسکراتے ہوئے جب لطیف کھوسہ عامر فاروق کی عدالت میں پہنچے تو تب تک دونوں ججز نہیں آئے تھے۔ گیارہ بج کر 51 منٹ پر چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری عدالت پہنچے اور سماعت شروع ہی ہوئی تھی کہ اچانک ختم ہوگئی اور لطیف کھوسہ غصے میں باہر نکل گئے۔

اس دوران وائس نوٹ پر خبر دینے کے نتیجے میں لفٹ سے نہیں بلکہ سیڑھیوں سے اتری اور گراؤنڈ فلور پر وہی خاتون وکیل اب بندے جمع کر رہی تھیں کہ ’ان کا دم گھونٹ کر مار دینے کا پلان ہے۔ ان کو لفٹ سے فوراً نکلوایا جائے۔‘ تب پتا چلا کہ لطیف کھوسہ غصے میں لفٹ کی طرف چلے گئے تھے اور لفٹ سیکنڈ فلور پر نہ صرف پھنس چکی تھی بلکہ ان کے ساتھ پی ٹی آئی کہ دیگر وکلا بھی پھنس چکے تھے۔
اب شور ہوا کہ ان کو کسی طرح لفٹ سے نکالو۔ کہیں سے سکیورٹی اہلکار کو بلایا گیا، جنھوں نے لفٹ آپریٹر کو ڈھونڈنا شروع کیا۔
اتنی دیر میں شور مچا کہ ’یہ سازش ہے اور پی ٹی آئی کے وکیل کو لفٹ میں بند کر دیا گیا ہے۔‘
بعض وکلا نے لفٹ کے دروازے کو لاتیں مارنا شروع کر دیں۔ پھر وہی لفٹ آپریٹر پہنچا جس کو کچھ دیر پہلے پی ٹی آئی کے وکیل نے ڈانٹا تھا اور اس کی مدد سے لطیف کھوسہ کو لفٹ سے نکالا گیا۔
اسی جگہ کھڑے ایک صحافی نے کہا ’آج تو پاکستان تحریکِ انصاف کے زیادہ تر معاملات لفٹ کے اردگرد ہی گھومتے رہے ہیں۔
’پہلے عدالت میں لفٹ نہیں ملی اور اب نے لفٹ نے چلنے سے انکار کر دیا۔‘