صحافیوں کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند گروہوں سے متعلق رپورٹنگ کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ سکیورٹی فورسز یا انتظامیہ کی تنقیدی کوریج، یہاں تک کہ روزمرہ کے شہری مسائل پر بھی قدغن لگانے کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
محمد سلطان کا خیال ہے کہ ان کے بیٹے آصف (2018 کی تصویر یہاں) کو ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا پانچ اپریل سنہ 2022 کو وسطی سرینگر کے بٹاملو میں سلطان کے گھر پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں موسم بہار کا ایک خوشگوار دن تھا، ساڑھے تین سال سے زائد عدالتوں اور تھانوں کے چکر لگانے کے بعد اُن کے گھر والوں کو ایک انتہائی خوشی کی خبر ملی، وہ یہ کہ ’آصف سلطان،‘ ایک صحافی، شوہر، باپ اور بیٹے کی ضمانت کی درخواست منظور ہو گئی۔
رشتہ دار اُن کے گھر پہنچے اور اُن کا انتظار شروع ہو گیا کہ کب وہ گھر آئیں گے، اسی انتظار میں جب گھنٹے دنوں میں تبدیل ہو گئے تو آصف کے گھر والے پریشان ہونے لگے۔
10 اپریل کو آصف پر ایک اور الزام عائد کر دیا گیا۔ جس کی بعد اُنھیں رہا نہیں کیا گیا اور انھیں کشمیر سے باہر ایک اور جیل میں منتقل کر دیا گیا، جس کے بعد اُن سے ملاقاتیں بھی مشکل ہو گئیں۔
ان کے والد محمد سلطان نے کہا کہ ’ہمارے پاس تو کُچھ نہیں رہا مگر ہم یہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ (آصف سلطان) بے قصور ہے اس لیے ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔‘
ان کی پانچ سالہ پوتی اریبہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور ان کی گود میں بیٹھ گئی، وہ چھ ماہ کی تھی جب ان کے والد کو گرفتار کیا گیا۔
آصف سلطان پر سب سے پہلے مسلم اکثریتی کشمیر میں عسکریت پسندی کی مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، جس سے انڈین حکومت کے خلاف سنہ 1989 میں بغاوت کو ہوا ملی۔
ان پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت الزام لگایا گیا ہے جسے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ (UAPA) کہا جاتا ہے جس میں ضمانت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ان کے خلاف دوسرا الزام ایک اور متنازع قانون، پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) کے تحت ہے، جو سکیورٹی اداروں کو دو سال تک بغیر کسی الزام کے حراست کی اجازت دیتا ہے۔
محمد سلطان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آصف کو ان کے کام کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا، خاص طور پر اُن کا وہ مضمون جو انھوں نے انڈیا مخالف ایک عسکریت پسند کے بارے میں لکھا تھا، جس کی اشاعت کے ایک ماہ کے بعد اگست سنہ 2018 میں انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔
آصف کے والد کہتے ہیں کہ ’آصف ایک پیشہ ور رپورٹر ہیں اور انھیں عسکریت پسندی کے بارے میں لکھنے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا۔ آصف کا ان [عسکریت پسندوں] سے کوئی تعلق نہیں ہے،‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’وہ (حکومت) آصف کو ایک مثال بنانا چاہتے تھے تاکہ کوئی بھی ایسے موضوعات پر لکھنے اور انھیں شائع کرنے کی جرات نہ کرے جو حکومت کی مرضی کے خلاف ہوں۔‘
بی بی سی نے انڈین حکومت کے خلاف الزامات کی تحقیقات میں ایک سال سے زیادہ وقت لگایا ہے کہ جن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ خطے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور اداروں پر دباؤ بڑہانے اور انھیں خاموش کرنے کے لیے ایک مذموم اور منظم مہم چلا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں (بی بی سی) صحافیوں سے چھپ کر ملنا پڑا، اور انھوں نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنے نام چھپانے کے لیے کہا۔
کئی دوروں کے دوران ہم نے دو درجن سے زیادہ صحافیوں سے بات کی، ایڈیٹرز، رپورٹرز اور فوٹو جرنلسٹ جو آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں نیز ایسے صحافیوں سے بھی جو علاقائی اور قومی صحافتی اداروں کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، ان سب نے حکومتی اقدامات کو اپنے لیے ایک انتباہ کے طور پر بیان کیا۔
آصف پانچ سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ 2017 سے اب تک کم از کم سات دیگر کشمیری صحافیوں کو جیل بھیجا جا چُکا ہے۔ آصف سمیت چار افراد تاحال سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
ایک ڈیجیٹل میگزین کو ایڈٹ کرنے والے فہد شاہ کو فروری 2022 میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، ان پر ’دہشت گردی کے پرچار‘ کرنے کا الزام تھا۔
ان سے ایک ماہ قبل فری لانس صحافی سجاد گل کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب انھوں نے سوشل میڈیا پر مقامی لوگوں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں انڈیا مخالف نعرے لگائے گئے تھے۔ سجاد پر مجرمانہ سازش کا الزام تھا۔ دونوں کو نئے الزامات کے تحت دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے، تاہم ہر بار اُن کی ضمانت منظور ہو جاتی ہے۔
صحافیوں کی گرفتاری کے سلسلے میں تازہ ترین واقع اس سال مارچ میں پیش آیا۔ جس میں عرفان معراج نامی ایک ایسے صحافی کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے کے کے الزام میں حراست میں لیا گیا، معراج بین الاقوامی صحافتی اداروں کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے متعدد دیگر افراد پر بھی مقدمات درج ہیں۔
بی بی سی نے متعدد بار مقامی انتظامیہ اور پولیس سے ان الزامات کا جواب دینے کے لیے رابطہ کیا گیا۔ انٹرویو، اور مخصوص سوالات کے ساتھ ای میلز کی مدد سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
مئی میں سری نگر میں جی 20 اجلاس میں ہم (بی بی سی) نے خطے کے اعلیٰ منتظم منوج سنہا سے میڈیا پر کریک ڈاؤن کے الزامات کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ پریس ’مکمل آزادی سے اپنا کام کر رہی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ صحافیوں کو ’دہشت گردی کے الزامات اور سماجی ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوششوں کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، نہ کہ صحافت یا کہانیاں لکھنے کی وجہ سے۔‘
ہم نے متعدد لوگوں سے بات کی جو انتظامیہ کے ان دعوؤں کو جھٹلا رہے ہیں۔
ایک رپورٹر نے مجھے بتایا، ’یہاں پولیس کی طرف سے صحافی کو طلب کرنا بہت عام بات ہے۔ اور درجنوں ایسے واقعات ہیں جہاں رپورٹرز کو ان کی خبروں پر حراست میں لیا گیا ہے۔‘
’مجھے پولیس کی طرف سے اپنی کہانی کے بارے میں فون آنے لگے۔ وہ پوچھتے رہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ پھر مجھ سے ذاتی طور پر پوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ وہ میرے اور میرے خاندان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں جو میرے لیے بہت خوفناک تھا۔ میں نے اس بارے میں بہت سوچا ہے، چاہے مجھے گرفتار کیا جائے یا مجھے جسمانی طور پر نقصان پہنچایا جائے۔‘
میں نے جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ نے کہا کہ انھیں پولیس نے کم از کم ایک بار تو ضرور طلب کیا، بعض نے کہا کہ پولیس کا لہجہ شائستہ تھا۔ تاہم بعض نے کہا کہ انھیں بُرے روّیے، غصے اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک صحافی نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس خوف میں رہتے ہیں کہ کوئی بھی خبر ہمارے کیرئیر کی آخری خبر ہو سکتی ہے۔ اور پھر آپ جیل میں ہوں گے۔‘
ایک اور رپورٹر نے مجھے بتایا کہ ’کشمیر میں صحافت مر چکی ہے اور یہیں دفن ہے۔‘
میں نے جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ انھیں پولیس نے ’معمول کی پوچھ گچھ‘ کے لیے پچھلے کچھ سالوں میں متعدد بار بلایا گیا ہے۔
میں ایسی ہی ایک فون کال کی گواہ تھی۔
جس صحافی کے ساتھ میں تھی اسے مقامی پولیس سٹیشن سے کال آئی، انھوں نے اپنے فون کا سپیکر آن کر دیا، پولیس افسر نے اپنا تعارف کرایا اور صحافی سے ان کا نام، پتہ اور وہ کہاں کام کرتے ہیں، سب پوچھا۔
جب صحافی نے پوچھا کہ ان تفصیلات کی ضرورت کیوں ہے تو افسر کا لہجہ دوستانہ رہا لیکن اس نے صحافی اور ان کے اہل خانہ کی تفصیلات پڑھ کر سُنائیں، جن میں ان کے والدین کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، ان کے بہن بھائی کہاں پڑھتے اور کام کرتے ہیں، ان کے بہن بھائیوں کی کیا ڈگریاں ہیں، اور اس کاروبار کا نام جو ان کے بہن بھائیوں میں سے ایک چلاتے ہیں۔
میں نے صحافی سے پوچھا کہ اس کال کے بعد انھیں کیسا لگا؟
اُن کا جواب تھا 'یہ تشویشناک ہے، میں سوچ رہا ہوں کہ کیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں، کیا وہ میرے خاندان کو دیکھ رہے ہیں، اس فون کال کی وجہ کیا بنی اور اب آگے کیا ہونے والا ہے؟‘
سری نگر میں صحافیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے انھیں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنا عام بات ہے دیگر صحافیوں نے کہا کہ ان سے مزید ذاتی تفصیلات بھی پوچھی گئیں جن میں ان کی ملکیت یا جائیداد کتنی ہے، ان کے کون سے بینک اکاؤنٹس ہیں، ان کے مذہبی اور سیاسی عقائد کیا ہیں۔
ایک صحافی نے کہا، ’کشمیر میں صحافیوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہم پر ملک دشمن، دہشت گردوں کے ہمدرد، اور پاکستان کے حامی رپورٹروں کا لیبل لگایا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سب کے بارے میں خبر رکھیں۔‘
کشمیر کا تمام علاقہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازع ہے اور دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ چین بھی اس کے کچھ حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسند گروپ پاکستان میں مقیم ہیں اور طویل عرصے سے خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں پاکستان کی خفیہ اداروں کی حمایت حاصل ہے، تاہم اسلام آباد اس الزام کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
کشمیر میں انڈین سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی طویل عرصے سے لگائے جاتے رہے ہیں، جس نے انڈین حکومت کے خلاف غم و غصے کو ہوا دی ہے اور خطے کے کچھ حصوں میں پاکستان نواز باغی گروہ کی حمایت کی ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ انڈین حکومت علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند گروہوں سے متعلق رپورٹنگ کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ سکیورٹی فورسز یا انتظامیہ کی تنقیدی کوریج، یہاں تک کہ روزمرہ کے شہری مسائل پر بھی قدغن لگانے کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
میں نے جن صحافیوں سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ وہ 2018 میں آصف سلطان کی گرفتاری کے بعد زیادہ پوچھ گچھ کا سلسلہ زیادہ ہو گیا ہے، اور اگست 2019 کے بعد سے معاملات بہت زیادہ خراب اور مشکل ہو گئے ہیں۔ یہ تب سے ہوا جب انڈیا نے خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا اور ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔
اب ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت قومی حکومت ان دونوں خطوں کا نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہے۔ انڈیا کی سپریم کورٹ میں ان دنوں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔
پانچ سالوں سے یہاں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے، اور جب چیف جسٹس نے اس ہفتے حکومت سے پوچھا کہ انتخابات کب ہوں گے؟ تو حکومت کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ وہ ابھی انتخابات کے وقت کے بارے میں کُچھ نہیں کہ سکتے۔
ایک صحافی نے کہا، ’چونکہ کوئی منتخب نمائندہ نہیں ہے جس سے ہم رابطہ کر سکیں، اسی وجہ سے حکومت ہر معاملے میں بس یہ کہ کر بری الذمہ ہو جاتی ہے کہ ابھی اس بارے میں کُچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘
کم از کم چار کشمیری صحافیوں نے عوامی سطح پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انھیں انّیا سے باہر جانے سے روکا گیا، ان کے بورڈنگ پاسز پر امیگریشن حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے ’منسوخی‘ کی مہر لگا دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ’پلٹزر‘ انعام یافتہ فوٹوگرافر جو ایوارڈ کی تقریب میں شرکت نہیں کر سکے۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ جن کشمیری صحافیوں کو انڈیا چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی اس فہرست میں درجنوں نام ہیں لیکن اس فہرست کو عام نہیں کیا گیا۔ ہم نے پولیس سے ان ’مطلوب افراد کی فہرست‘ کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھا، جیسا کہ ان کا سرکاری زبان میں حوالہ دیا جاتا ہے، مگر حکام کی جانب سے اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بعض صحافیوں نے بتایا کہ جب اُنھوں نے میعاد ختم ہونے والے پاسپورٹ سرکاری دفاتر میں جمع کروائے تاکہ نئے حاصل کیے جا سکیں تو ان کے پاسپورٹ بھی روک لیے گئے تھے۔ حالیہ ہفتوں میں، کچھ صحافیوں کو پہلے جاری کیے جانے والے پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان صحافیوں کو انڈیا کے لیے ’خطرناک‘ سمجھا جاتا ہے۔
ایک صحافی نے کہا کہ ’ہمارا دم گُھٹنے لگا ہے یہاں بہت گھٹن محسوس ہونے لگی ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’ہم سب خود کو سنسر کر رہے ہیں۔ میں ایک صحافی کی حیثیت سے اپنی رپورٹ ایک بار پڑھتا ہوں، پھر میں اسے پولیس والے کی طرح پڑھتا ہوں اور میں چیزوں کو حذف کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ شاید ہی یہاں کہیں ’صحافت‘ ہو رہی ہو یہاں تو بس حکومت کی ہی زبان بولی جا رہی ہے۔‘
ایڈیٹرز نے ہمیں بتایا ہے کہ انھیں اکثر انتظامیہ سے ہدایات ملتی ہیں کہ کس چیز کا احاطہ کرنا ہے اور کیا چھوڑنا ہے یعنی کس معاملے پر بات کرنی ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ انھیں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب مسلح باغیوں کا ذکر کرنا مقصود ہو تو ’عسکریت پسند‘ کی بجائے ’دہشت گرد‘ کا لفظ استعمال کریں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کا بہت زیادہ انحصار سرکاری اشتہارات پر ہے اور بہت سے لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ اُن کی مرضی کے مطابق کام نہیں کریں گے تو ان کو دیے جانے فنڈز نا صرف روک دیے جائیں گے بلکہ آئندہ کے لیے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک مُدیر نے کہا ’میں ہر روز جو کام کرتا ہوں اس سے مجھے نفرت ہو لگی ہے، لیکن میں جن لوگوں کو ملازمت دیتا ہوں ان کا کیا ہوگا؟ اگر میں بند کردوں تو ان کا کیا ہوگا؟۔‘
یہاں صحافت کے ساتھ کیا ہوا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ مقامی اخبارات کا مطالعہ کریں۔
میں نے کشمیر میں شائع ہونے والے درجنوں اخبارات کا روزانہ سرکاری پریس ریلیز سے موازنہ کرنے میں تین دن گزارے۔
تقریباً سبھی نے اپنے صفحہ اول پر ان کو جگہ دی تھی، کچھ نے اس میں کُچھ ترمیم کی، اور دوسروں نے اسے درحقیقت ویسا ہی شائع کیا جیسا کہ اُنھیں وہ موصول ہویی۔
باقی صفحہ اول پر حکومت یا سکیورٹی فورسز کے بیانات تھے۔ بہت سے فیچر تھے لیکن بمشکل کوئی ایسا کالم یا خبر ملی ہو جسے پڑھ کر صحافتی اصولوں کے بارے میں پتا چلا ہو۔
جون میں، انڈین فوجی اہلکاروں پر جنوبی کشمیر کے پلوامہ میں ایک مسجد میں داخل ہونے اور ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے کے الزامات سامنے آئے۔
عام حالات میں، تمام ہی اداروں کے صحافی پلوامہ میں موجود ہوتے اور تفصیلات کی تصدیق اور رپورٹ درج کرنے کے لیے وہاں تمام فریقین سے بات کرتے ہیں۔
اگلے دن، صرف مٹھی بھر اخبارات میں یہ کہانی سامنے آئی، تقریباً سبھی نے اسے مقامی سیاست دان محبوبہ مفتی کے اقتباس کے ذریعے رپورٹ کیا، جس نے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
اگلے چند دنوں میں، مزید اخبارات نے اس خبر کو پیش کیا، لیکن صرف اس واقعے کی تحقیقات کرنے والی انڈین فوج کے بارے میں ایک کہانی کے طور پر۔ بمشکل کسی نے زمینی حقائق سے متعلق کوئی خبر دی ہو گی۔
جب کہ زیادہ تر صحافیوں نے جن سے میں نے بات کی، کہا کہ وہ ریاست کی طرف سے انتقامی کارروائیوں سے ڈرتے ہیں، کچھ نے یہ بھی کہا کہ وہ عسکریت پسندوں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
عسکریت پسند گروہوں نے اپنی ویب سائٹس پر صحافیوں کو دھمکیاں دینے والے بیانات شائع کیے ہیں۔
میں نے ایک صحافی سے بات کی جسے دھمکی ملی تھی۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر میں صحافی کی زندگی تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ آپ ہر وقت خوف کے سائے میں رہتے ہیں۔
’تمہیں کس بات کا ڈر ہے،‘ میں نے پوچھا۔
انھوں نے کہا ’میری طرف آنے والی گولی کا۔ جب میں اپنے قریب ایک موٹر سائیکل کو رکتے دیکھتا ہوں، تو مجھے خوف آتا ہے کہ کوئی بندوق نکال کر مجھے گولی مار دے گا، اور یہ کہ کسی کو یہ پتہ نہیں چلے گا کہ یہ کس نے کیا اور جسے گولی لگی وہ کون تھا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے 2018 میں معروف ایڈیٹر شجاعت بخاری کو ان کے سری نگر کے دفتر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پانچ سال بعد بھی ان کے قتل کا مقدمہ شروع ہونا باقی ہے۔
تنازعات کے شکار خطے میں، ایک ایسی جگہ جہاں صحافی آزادانہ طور پر مل سکتے تھے، کہانیوں پر بات کر سکتے تھے اور اپنی پریشانیوں کو شیئر کر سکتے تھے، وسطی سری نگر میں کشمیر پریس کلب تھا۔ یہ خاص طور پر ان آزاد صحافیوں کے لیے پناہ گاہ تھی جن کے دفتر نہیں ہیں۔
لیکن یہ صرف اتنا نہیں تھا۔ یہ اس خطے میں ایک اہم ادارہ بھی تھا جس نے صحافت کے حقوق اور آزادی کا دفاع کیا۔
پچھلے سال حکومت نے اسے بند کر دیا تھا۔ کہانیوں کے بارے میں جاننے اور ان پر کام کرنے کے لیے جس ادبی جگہ کے میں نے اکثر چکر لگائے، اب اس میں ایک پولیس آفس ہے۔
وسطی سری نگر میں سابقہ کشمیر پریس کلب، جسے اب پولیس آفس کے طور پر تبدیل کیا گیا ہے صحافیوں کا کہنا ہے کہ جب انھیں خطرہ محسوس ہوتا ہے تو ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
غیر ملکی صحافیوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کے لیے وزارت داخلہ کی اجازت درکار ہوتی ہے اور انھیں یہ اجازت کم ہی ملتی ہے۔ مئی میں ہونے والے جی 20 اجلاس وہ موقع تھا جب گذشتہ چند سالوں میں پہلی بار غیر ملکی صحافیوں کو سری نگر کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن رسائی کو انتہائی محدود رکھا گیا تھا، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ وہ کن علاقوں کا دورہ کر سکتے ہیں اور کن باتوں کا احاطہ کر سکتے ہیں۔
گذشتہ دہائی کے دوران، پورے انڈیا میں آزادی صحافت کا فقدان دیکھنے میں آیا ہے، جس کی عکاسی عالمی درجہ بندی، صحافیوں کے خلاف مقدمات اور میڈیا ہاؤسز کے خلاف چھاپوں سے ہوتی ہے۔ لیکن کشمیر میں گراوٹ کی کوئی حد نہیں، ہمیں اس بات کا ثبوت ملا ہے کہ یہاں پریس کی آزادی ختم ہو چکی ہے۔
سلطان گھرانے میں اُس میگزین کی ایک کاپی اب بھی کمرے کے شیلف میں رکھی ہے جس کے لیے آصف سلطان لکھتے تھے۔
ان کے والد نے میگزین کھولا اور بائی لائن میں آصف کی تصویر کی طرف اشارہ کیا۔ محمد نے اپنی پوتی سے پوچھا کہ تصویر میں نظر آنے والا شخص کون ہے۔
’میرے پاپا۔۔۔ وہ جیل میں ہیں۔‘ اریبہ نے جواب دیا۔
محمد کو امید ہے کہ آصف اُس وقت سے پہلے گھر واپس آجائیں گے کہ جس کے بعد اریبہ کو اُس اصل کہانی کا علم ہو جائے گا کہ اُن کے والد کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
’میں بوڑھا ہو رہا ہوں،‘ آصف کے والد نے کہا۔ ’لیکن میں اس کے لیے باپ اور دادا دونوں بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں یہ کب تک کر سکتا ہوں؟‘