مدھیہ پردیش کے سرکاری کاغذات میں مردہ قرار دیے گئے لوگ:’وہ مجھ سے میرے زندہ ہونے کا ثبوت مانگ رہے تھے‘

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں شیو پوری ضلع کے کھوگھر گاؤں کے رہائشی اشوک جاٹو اپنے گھر میں ہر طرح کا کام کرتے نظر آئیں گے، لیکن سرکاری دستاویزات کے مطابق وہ مر چکے ہیں۔

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں شیو پوری ضلع کے کھوگھر گاؤں کے رہائشی اشوک جاٹو اپنے گھر میں ہر طرح کا کام کرتے نظر آئیں گے، لیکن سرکاری دستاویزات کے مطابق وہ مر چکے ہیں۔

وہ ان زندہ لوگوں میں شامل ہیں جنھیں سرکاری کاغذات پر مردہ قرار دیا گیا ہے۔

شیو پوری ضلع میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر امراؤ سنگھ مراوی کی قیادت میں کی گئی تحقیقات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکاری کاغذات میں مرنے والوں کی آخری رسومات اور ایکس گریشیا رقم کے نام پر تقریباً 94 لاکھ روپے نکالے گئے ہیں۔

ضلع مجسٹریٹ رویندر کمار چودھری کے مطابق اس معاملے میں دو چیف ایگزیکٹیو آفیسر، دو کلرک اور ایک آپریٹر ملوث تھے۔

ان تحقیقات یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن بینک اکاؤنٹس میں پیسے بھیجے گئے ان میں سے زیادہ تر شیو پوری اور ریاست سے باہر کے کھاتے تھے۔غبن کا یہ مبینہ سارا معاملہ سنہ 2019 سے 2022 کے درمیان کا ہے۔

46 سالہ اشوک کو دستاویزات میں اپنی موت کے بارے میں اس وقت پتہ چلا جب ’پردھان منتری کسان سمان ندھی یوجنا‘ یعنی وزیر اعظم کے غریب کسانوں کی امداد کے منصوبے کے تحت انھیں 6000 روپے سالانہ ملنے والی رقم گذشتہ ڈھائی سالوں سے ان کے پاس آنا بند ہو گئی۔

دیگر واقعات

ایسا ہی معاملہ 55 سالہ رمیش راوت کے ساتھ پیش آیا۔

جب انھیں بھی ڈیڑھ سال تک وزیر اعظم سمان ندھی کی رقم نہیں ملی تو انھوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ریکارڈ میں مر چکے ہیں۔

تین بیگھہ (ایکڑ) اراضی کے مالک اشوک محنت مزدوری کے ذریعے اپنی روٹی روزی کماتے ہیں۔

اہلیہ کے علاوہ ان کے خاندان میں دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بیٹیاں شادی شدہ ہیں لیکن بیٹے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

اس لیے وزیر اعظم کسان سمان ندھی سے ملنے والی یہ رقم ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔

جب وزیر اعظم کسان سمان ندھی کی رقم ان کے کھاتے میں نہیں آئی تو انھوں نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر کوششیں کیں۔

پھر انھیں معلوم ہوا کہ وہ سرکاری دستاویزات میں تو مر چکے ہیں۔ اس کے بعد جولائی میں انھوں نے ضلع مجسٹریٹ کے دفتر میں درخواست دی۔

اس درخواست میں انھوں نے لکھا: ’گاؤں کے روزگار معاون نے انھیں کورونا کے دور میں مردہ قرار دیا ہے۔ جبکہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کو منسوخ کیا جائے۔‘

4 جولائی میں دی جانے والی اس تحریری عرضی کے بعد ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اب اشوک کے لیے سب سے بڑا چیلنج خود کو زندہ ثابت کرنا ہے۔

اشوک نے بی بی سی ہندی کو بتایا: ’میرے بارے میں معلومات ملنے کے بعد پنچایت کے اہلکار بھی مجھ سے ملنے آئے لیکن وہ مجھ سے میرے زندہ ہونے کا ثبوت مانگ رہے تھے، حالانکہ ہمان کے بالکل سامنے زندہ کھڑے تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور ثبوت نہیں ہے۔'

انھوں نے بتایا کہ ’انھوں نے پٹواریوں سے یہ بھی کہا کہ اب جب کہ ہمیں مردہ قرار دے دیا گیا ہے تو کچھ تو ایسا ہونا چاہیے کہ اب ہمیں زندہ قرار دیا جائے۔ لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔‘

’کیا ہمیں زندہ ہی مارنے والوں سزا ملے گی؟‘

دتارام جاٹو کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہ گزر بسر کے لیے مزدوری کرتے ہیں۔

دتارام جاٹو نے پردھان منتری روزگار یوجنا کے تحت قرض لینے کا سوچا اور اس بارے میں پوچھنے کے لیے پنچایت بھون گئے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ تو سرکاری کاغذات میں مردہ ہیں۔

دتارام کے دو بچے ہیں۔ وہ قرض سے اپنی زندگی میں تبدیلی کی امید کر رہے تھے۔ لیکن اب وہ خود کو زندہ ثابت کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور اب تک ان کی تگو دو کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

دتارام نے بی بی سی ہندی کو بتایا: ’میں کلکٹر کی عوامی سماعت میں گیا۔ وہاں میں نے اپنی بات رکھی اور سرکاری کاغذات میں دوبارہ زندہ کیے جانے کی درخواست کی لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔‘

وہ پوچھتے ہیں: ’میں کاغذ پر مر چکا ہوں۔ تو کیا ہوگا اگر آج کوئی مجھے مار دے؟ کیا اسے سزا ملے گی؟ کیا کوئی مردے کو بھی مار سکتا ہے؟‘

یہ بھی پڑھیے

مدھیہ پردیش: 14 سال پہلے ہونے والے تیسرے بچے کی پیدائش پر خاتون ٹیچر نوکری سے اب فارغ

مدھیہ پردیش: انڈین ریاست میں مسلمانوں کے مکانات کو کیوں مسمار کیا جا رہا ہے؟

زندہ ہیمنت راوت بھی کاغذ پر مردہ ہیں

25 سالہ ہیمنت راوت بھی سرکاری کاغذات کے حساب سے مر چکے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انھیں اس بارے میں کب علم ہوا تو وہ کہتے ہیں: ’دو سال سے زیادہ پہلے، میرے والد کو پنچایت کارکن کا فون آیا تھا۔ انھوں نے میرے والد کو بتایا کہ تمہارا بیٹا اور بہو فوت ہو گئے ہیں۔ ہیمنت کے والد نے اس پر اعتراض کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ ایسی بات کیوں کر رہے ہیں اور فون بند کر دیا۔‘

اس کے بعد ان کے دو بچے ہوئے لیکن جب ان دونوں کی ڈیلیوری سے ملنے والی رقم ان کے کھاتے میں نہ آئی تو انھوں نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ کاغذات میں تو وہ مر چکے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’اب مجھے کسی سرکاری سکیم کا فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ سارا پیسہ پھنسا ہوا ہے۔ اب تو بس یہی انتظار ہے کہ کسی طرح زندہ ہو جائیں جو تاکہ جو نقصان ہوا ہے وہ مزید نہ ہو۔‘

اسی طرح گاؤں کے آشارام اور رمیش راوت کو بھی کاغذ پر مردہ قرار دیا گیا ہے۔ دونوں نے بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ انھیں جلد از جلد زندہ قرار دیا جائے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوں۔

کیا مسئلہ ہے؟

صرف کھوگھر میں ایسے سات افراد ہیں۔ اگر ہم پورے شیو پوری ضلعے کی بات کریں تو اب تک ایسے 26 لوگوں کی شناخت ہو چکی ہے جو کاغذات میں تو مرچکے ہیں لیکن حقیقت میں زندہ و جاوید ہیں۔

کھوگھر کے علاوہ کپرانہ، سوڈ، اٹما اور کھجوری جیسے گاؤں میں رہنے والے کئی لوگوں کو بھی کاغذات پر مردہ قرار دیا گیا ہے۔

مدھیہ پردیش حکومت کے پاس دو سکیمیں ’سنبل‘ اور ’مدھیہ پردیش بلڈنگ اینڈ ادر کنسٹرکشن ورکرز ویلفیئر بورڈ' ہیں۔ یہ معاملہ ان دونوں سکیموں کے تحت کیے جانے والے گھپلے سے متعلق ہے۔

ان سکیم کے تحت رجسٹرڈ مزدوروں کی موت پر چھ ہزار روپے آخری رسومات کی ادائیگی کی امداد کے طور پر اور ایکس گریشیا کے طور پر عام موت کی صورت میں دو لاکھ روپے اور حادثاتی موت کی صورت میں چار لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔

کھوگھر کے سرپنچ ملکھان جاٹو نے بی بی سی کو بتایا: ’جو کیسز سامنے آ رہے ہیں وہ میرے دور سے پہلے کے ہیں۔ میں پچھلے سال ہی سرپنچ بنا ہوں۔ میرے علاقے کے یہ لوگ پریشان ہیں اور مجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ انھیں زندہ قرار دیا جائے۔ ہم نے ضلع اور پنچایت دونوں میں ان کے بارے میں شکایت کی ہے، لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔‘

ملکھان کہتے ہیں: ’انتظامیہ کو جلد از جلد ان کا مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ یہ لوگ کسی بھی قسم کی سرکاری سکیم کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔‘

انتظامیہ کا کیا موقف ہے؟

ضلع کلکٹر رویندر کمار چودھری نے اس پورے معاملے کے بارے میں بتایا: ’اس میں زندہ لوگوں کو مردہ قرار دے کر ان کے ناموں پر پیسے نکالے گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’اس معاملے میں پہلے ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس بنیاد پر جب تفتیش کی گئی تو کئی معاملات سامنے آئے۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رویندر کمار چودھری کے مطابق گرفتار کیے گئے افراد میں دو چیف ایگزیکٹیو آفیسر، دو کلرک اور ایک آپریٹر شامل ہیں۔

تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

کلکٹر نے کہا: ’ان لوگوں نے فرضی ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنا کر پورٹل پر اپ لوڈ کیا۔ ان کے پاس آفیشل آئی ڈی دستیاب تھیں، جس کے ذریعے ان کے قریبی لوگوں کے اکاؤنٹس میں رقم بھیجی جاتی تھی۔‘

ضلع مجسٹریٹ نے کہا: ’ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ جن لوگوں کو سرکاری سکیم کا فائدہ نہیں ملا ہے، انھیں پہلے کی طرح ہی فائدہ ملے اور اب تک ہونے والے نقصان کی تلافی ملزم کی جائیداد سے کی جائے گی۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ شیلیندر پرمار جو اس وقت ضلع پنچایت میں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کر رہے تھے کے طرز زندگی کا مشاہدہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ مہنگی کاروں میں سفر کرتے تھے اور بہت عیش و آرام سے رہتے تھے۔

ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ سٹاک مارکیٹ کے ذریعے کمائی کر رہے تھے لیکن جوں جوں پرتیں کھلتی گئیں تو یہ باتیں سامنے آنے لگیں کہ وہ زندہ لوگوں کو مردہ ظاہر کر کے یہ رقم کما رہے تھے۔ اب وہ پولیس کی حراست میں ہیں۔

مقامی صحافی رنجیت گپتا کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کے نام پر رقم نکلوائی گئی وہ بہت غریب ہیں اور اتنے پڑھے لکھے نہیں کہ آسانی سے معلومات حاصل کر سکیں۔ یہاں کچھ لوگوں کو پتہ چل گیا اس لیے یہ معاملہ سامنے آیا ورنہ کسی کو خبر تک نہ ہوتی۔

پولس نے اس معاملے میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور جانچ کر رہی ہے کہ اس طرح کے اور کتنے معاملے ہیں۔

تاہم متاثرین کی لڑائی اب بھی جاری ہے اور وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ زندہ ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US