انڈیا میں بڑھتی ہوئی خوراک کی قیمتیں اور برآمدات پر پابندیاں ایک عالمی مسئلہ کیوں؟

مئی 2022 میں کی جانے والی گندم پر پابندی کے بعد گشتہ مہینے انڈیا نے نان باسمتی سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی۔ گشتہ دور میں ہی وزارت خزانہ نے برآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے اور مقامی ترسیل بہتر کرنے کے لیے پیاز پر 40 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔
انڈیا میں پیاز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے
Getty Images
انڈیا میں پیاز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے

انڈیا عالمی زرعی تجارت میں ایک اہم فریق ہے لیکن بے ترتیبی سے بدلتی موسمی صورتحال نے انڈیا میں کھانے کی قیمتوں میں 11 فیصد اضافہ کیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس بار اگست کا مہینہ اس پوری صدی میں سب سے خُشک رہا۔

ابھی ٹماٹر کی قیمتوں میں کمی آ ہی رہی تھی کہ مقامی منڈی میں جون سے پیاز کی قیمت ایک چوتھائی بڑھ گئی۔ دالیں سال کے آغاز کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ مہنگی ہو گئی ہیں۔ کچھ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف جولائی کے دوران سبزیوں کی قیمتوں میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔

اس سال انڈیا کی کچھ اہم ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جبکہ اگلی گرمیوں میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ لہذا انڈیا کی حکومت نے کھانے کی اشیا کی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔

مئی 2022 میں گندم کی برآمد پر پابندی کے بعد گشتہ مہینے انڈیا نے نان باسمتی سفید چاول کی برآمدات پر پابندی لگا دی۔ گشتہ دور میں ہی وزارت خزانہ نے برآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے اور مقامی ترسیل بہتر کرنے کے لیے پیاز پر 40 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔

کیئرایج گروپ کی چیف اکانمسٹ رجنی سنہا کے مطابق اس سال یہ توقع کی جا رہی ہے کہ چینی کی پیداوار کم ہو گی اس کے ساتھ ’چینی کی برآمدات پر پابندی کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے ردعمل میں حکومت مزید اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک گذشتہ نوٹ میں عالمی بروکریج کے ادارے نومورا نے کہا چاول کی لگاتار برآمدی پابندی مقامی سطح پر چاول کی قیمتوں میں کمی نہیں لا سکی لہذا ’حکومت زیادہ جامع پابندی لگا سکتی ہے۔‘

تو کیا یہ خطرہ ہے کہ مقامی مہنگائی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھاتی انڈین حکومت دنیا میں مہنگائی لا سکتی ہے؟

انڈیا کی برآمدات پر پابندی کے بعد کینیڈا میں ایک گروسری سٹور نے چاول کے ایک بیگ کو ایک فیملی تک محدود کر دیا تھا
Getty Images
انڈیا کی برآمدات پر پابندی کے بعد کینیڈا میں ایک گروسری سٹور نے چاول کے ایک بیگ کو ایک فیملی تک محدود کر دیا تھا

دی انٹرنیشنل فوڈ ریسرچ پالیسی انسٹیٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی) کا ماننا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے، خاص طور پر چاول، چینی اور پیاز کے معاملے میں۔

گذشتہ دہائی میں انڈیا چاول بیچنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن کر اُبھرا اور چینی اور پیاز کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن گیا۔ چاول کی مارکیٹ میں 40 فیصد حصہ انڈیا کا ہے۔

جولائی کے مہینے میں اقوام متحدہ میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی رائس پرائس انڈیکس میں 2.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ ستمبر 2011 کے بعد سے اس کی بلند ترین سطح ہے۔

اس کی بڑی وجہ انڈیا میں چاول کی قیمت میں اضافہ ہے جس کی برآمد پر انڈیا نے پابندی لگا دی ہے۔ ایف اے او کے مطابق انڈیا کے اس اقدام کی وجہ سے دوسرے خطوں میں بھی چاول کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

آئی ایف پی آر آئی کے سینیئر ریسرچ فیلو جوزف ڈبلیو گلوبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے گذشتہ ماہ کے آخر میں پابندی کا اعلان کیا گیا تھا، تھائی چاول کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔‘

ایف اے او اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے 18 ’بھوک کے ہاٹ سپاٹس‘ کی نشاندہی کی ہے جہاں خوراک کی دستیابی کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ کھانے کی بڑھتی ہوئی قیمتیوں کا اثر تباہ کن ہو سکتا ہے خصوصاً غریب لوگوں کے لیے اور ان افراد کے لیے جو ان ہاٹ سپاٹس میں رہتے ہیں۔

چاول بنیادی غذا کا حصہ ہے جو پورے ایشیا اور افریقہ میں لاکھوں کیلوری کی کھپت کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اور ان مارکیٹس میں انڈیا ایک بڑا سپلائر ہے۔

آئی ایف پی آر آئی کے مطابق ایشیا اور ذیلی صحارائی افریقہ کے 42 ممالک اپنی کل درآمدات کا 50 فیصد انڈیا سے حاصل کرتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں یہ عدد 80 فیصد تک جاتا ہے۔ اور اس حصے کو ’دوسرے بڑے برآمد کنندگان جیسے ویتنام، تھائی لینڈ یا پاکستان کی درآمدات کے ساتھ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘

ایف اے او کے سینئر اکانمسٹ اُپالی گلکیٹی کہتے ہیں عالمی سطح پر کھانے کی اشیا کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک میں مضمرات بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ خوراک کی برآمدات کے بلوں میں اضافہ جس کی وجہ سے قیمتی زر مبادلہ کا استعمال ہو جاتا ہے۔ ’اس طرح ادائیگیوں کا توازن بگڑتا ہے اور افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

لیکن عالمی سطح پر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا الزام صرف انڈیا کے اقدامات پر نہیں لگایا جا سکتا۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ’بلیک سی گرین انیشی ایٹیو‘ کا خاتمہ اور دنیا بھر میں انتہائی موسمی حالات اہم کردار ادا کرنے والے دیگر عوامل ہیں۔

انڈیا میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 11 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے
Getty Images
انڈیا میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 11 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے

اُپالی گلکیٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ مارکیٹ کے ان عوامل کے نتیجے میں ’گذشتہ سال کے وسط سے خوراک کی بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کے رجحان کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘

چین جیسے دنیا کے کئی حصوں میں سست روی کے باوجود عالمی خوراک کی قیمتیں تاریخی بلندیاں چھو رہی ہیں۔ ان جگہوں سے مانگ کی وجہ سے خوراک کی بین الاقوامی قیمتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

عالمی بینک کو توقع ہے کہ تیل اور اناج کی کم قیمتوں کی وجہ سے 2022 کے مقابلے 2023 میں خوراک کی قیمت کا انڈیکس اوسطاً کم رہے گا۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل کی قیمتوں کی رفتار کا انحصار ایل نینو موسمی رجحان کے اثرات پر ہو گا، جس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں اور یہ خوراک کی منڈیوں پر مزید دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

غیر یقینی صورتحال کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سمیت مختلف حلقوں سے انڈیا سے اہم اشیا کی برآمد پر پابندی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

نومورا کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خوراک کی عالمی سطح کی مہنگائی میں حصہ ڈالنے کے علاوہ، ’برآمدات پر پابندی کے دیگر منفی پہلو بھی ہیں جیسے کہ انڈیا کی ایک قابل بھروسہ سپلائر کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچنا اور کسانوں کو عالمی سطح پر منافع بخش قیمتوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنا۔‘

’تجارت میں پابندی سے قیمتوں کے اتار چڑھاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2015-16 میں دالوں کی مہنگائی کی وجہ سے انڈیا کو درآمدات میں نمایاں اضافہ کرنا پڑا لیکن مون سون اور مضبوط مقامی پیداوار کی وجہ سے اگلے سال سپلائی زیادہ ہو گئی اور 2017-18 میں قیمتیں گر گئیں۔‘

انڈیا میں کچھ فوڈ آؤٹ لیٹس نے حال ہی میں اپنے مینو سے ٹماٹر ختم کر دیا ہے
Getty Images
انڈیا میں کچھ فوڈ آؤٹ لیٹس نے حال ہی میں اپنے مینیو سے ٹماٹر نکال دیے ہیں

جوزف ڈبلیو گلوبر جیسے دیگر لوگ خبردار کرتے ہیں کہ ’اگر درآمد کنندگان دوسرے زیادہ قابل اعتماد پارٹنرز کو تلاش کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں اگر سپلائرز کو متنوع بنانے کے فوائد قیمت کے متعلق تحفظات سے کہیں زیادہ ہوں۔‘

لیکن ایف اے او کے مطابق سب سے اہم خطرہ اس امکان سے آتا ہے کہ مزید ممالک برآمدی پابندیوں کا سہارا لے سکتے ہیں جو ’عالمی تجارتی نظام پر اعتماد کو مجروح کرے گا۔‘

لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر موجودہ حساس وقت کے دوران انڈیا میں سیاست اور خوراک میں خود کفالت کو بڑھانے کا عزم دیگر تحفظات کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

ماضی میں پیاز جیسی فصلوں کی بڑھتی قیمت انڈیا میں انتخابی شکست کا باعث بن چکی ہے۔ اس کے ساتھ پہلے سے ہی کھپت معمول پر آنے کا عمل بھی غیر مستحکم ہے۔

ایک عام انڈین کے خرچے کا بڑا حصہ خوراک پر ہوتا ہے، ان کی قیمت میں اضافے سے آنے والے تہواروں کے مہینوں میں لوگوں کو اضافی آمدن خرچ کرنا پڑے گی۔

انڈیا کا مرکزی بینک پہلے ہی چھ بار سود کی شرح بڑھا چکا ہے، اور خوراک کی افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے کم ہی کچھ کر سکتا ہے کیونکہ یہ سپلائی کا مسئلہ ہے۔

لہٰذا حکومت کے پاس تجارتی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ بہت کم اوپشنز بچی ہیں۔

رجنی سنہا کا کہنا ہے ’اس وقت تمام ممالک اپنی اپنی معیشتوں میں افراط زر کو کنٹرول کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ میں کہوں گی کہ اس سے پہلے کہ وہ عالمی افراط زر کے بارے میں فکر مند ہونے لگیں انڈیا کو بھی اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہوگا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US