سرسوں کے تیل میں تھوڑی سی کلونجی اور اس پر لیموں کا رس سادہ سی مسور دال کے ذائقے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔
سرسوں کے تیل میں تھوڑی سی کلونجی کا تڑکہ اور اُس پر لیموں کا رس سادہ سی مسور دال کے ذائقے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر گھروں میں مسور کی دال روزمرہ کھانوں کی ڈش میں شامل ہے۔یہ جہاں غذائیت سے بھرپور ہے وہیں یہ ہر گھر کا ذائقہ بھی ہے۔
’کُک بُک‘ کی مصنفہ ارچنا پداتھل کہتی ہیں کہ مسور کی دال ان کے لیے ’ایک نرم غذا ہے اور میں روزانہ دال کھاتی ہوں۔ جب میں تھکی ہوں، یا جب میرا دن خراب چل رہا ہو تو چاول کے ساتھ دال میرے موڈ کو جتنا بہتر کرتی ہے کوئی اور چیز نہیں کرتی، حتیٰ کہ کافی یا چاکلیٹ بھی نہیں۔‘
یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا اظہار پاکستان اور انڈیا میں بہت سے لوگ کرتے ہیں اور یہ ایک طرح سے قدر مشترک ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے دال محض ایک روزمرہ کی غذا نہیں ہے بلکہ سکون پرور غذا کے ساتھ ساتھ پروٹین کے حصول کا ایک آسان ذریعہ ہے۔
دال پورے انڈیا میں پکائی جاتی ہے۔ لیکن دال پکانے کا سب سے عام طریقہ یہ ہے کہ دال کو اس وقت تک پکائیں جب تک کہ وہ تقریباً نرم نہ ہو جائے۔ اس کے بعد اس میں سرسوں کے بیج، زیرہ اور کٹی ہوئی ہری مرچ ڈالیں اور پھر گاڑھی دال پر تازہ دھنیا کاٹ کر اسے پیش کریں۔
جیسا کہ پداتھل کا کہنا ہے کہ ’آپ مختلف قسم کے دال کے پکوان بنانے کے لیے ایک بنیادی جزو استعمال کر سکتے ہیں- کھٹے ذائقے کے لیے گونگورا کے پتے (سرخ سورل سبز)، یا پھر لوکی ڈال کر اسے مزید دلکش بنائیں۔‘
درحقیقت یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ دال پکانے کی اتنی ہی ترکیبیں ہیں جتناکہ ان کو پکانے والے۔
مسور کی دال بنانے کا نسخہ پداتھال کی سنہ 2022 میں شائع ہونے والی کک بک میں شامل ہے۔ اس کتاب میں ملک بھر سے دال پکانے کی 90 نسل در نسل منتقل ہونے والی ترکیبیں شامل ہیں، جو مختلف خواتین نے ان کے ساتھ شیئر کی ہیں۔
یہ ترکیبیں شیئر کرنے والی خواتین کوئی پیشہ ور کُک نہیں ہیں لیکن ایک بات جو ان میں قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ وہ کھانا پکانے کو ایک صحت بخش عمل کے طور پر دیکھتی ہیں، اپنے لیے بھی اور اپنے سے منسلک ان افراد کے لیے بھی جنھیں وہ کھانا بنا کر کھلاتی ہیں۔
مثال کے طور پر اداکارہ اروندھتی ناگ اپنے ابتدائی دنوں میں کبھی بھی اپنے شوہر کے اہلخانہ کا کھانا نہیں پکاتی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کا مطلب ان کی اپنی شناخت کا نقصان ہے۔ لیکن شوہر کی موت کے بعد وہ انھیں یاد کرنے کی خاطر باقاعدگی سے اپنے شوہر کے اہلخانہ کے لیے کھانا بناتی ہیں۔
جہاں تک شری میرجی کا سوال ہے جنھیں پداتھلا ایک آزاد مزاج اور خود مختار شخص کے طور پر بیان کرتی ہیں ان کے لیے کھانا پکانا خود کی دیکھ بھال کرنے جیسا ہے۔
مثال کے طور پر وشالکشی پدمانابھن ہیں جنھوں نے نہ صرف نامیاتی کھیتی شروع کی بلکہ بفیلو بیک کلیکٹو کے ذریعے فصل اگانے اور فروخت کرنے کے لیے کسانوں کی ایک تنظیم بھی قائم کی۔ انھوں نے رگیہالی (جنوبی ہندوستان کے شہر بنگلورو کے قریب) گاؤں کی خواتین کو روزی روٹی کمانے کے لیے اپنی کوکیز پکانے اور بیچنے کی تربیت بھی دی ہے۔
پداتھلا نے ان خواتین سے بات کرنے اور انھیں کھانا پکاتے دیکھنے اور ان کی ترکیبیں جاننے کے لیے پورے ملک میں 11,265 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کتاب کا عنوان، ’وھائی کک‘ گھریلو باورچیوں کو خراج تحسین ہے جو بار بار موروثی ترکیبوں کے ذریعے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہیں ایک ہی قسم کا ذائقہ پیدا کرنے کا انتظام کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کتاب میں پکوان کسی خاص موضوع یا زمرے کے تحت نہیں ہیں۔ پداتھلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے خواتین سے کھانا پکانے کی صرف بامعنی ترکیبیں شیئر کرنے کو کہا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ’آپ اپنے آپ کو پلیٹ کے ذریعے کیسے پیش کریں گی؟ آپ اپنی شناخت کو میز پر کیسے پیش کریں گی؟‘
مسور دال خاص طور پر بنگالی کمیونٹی میں خاصی پسند کی جاتی ہے۔ منیشا کیرالی جنھیں ان کے دوست مولی پکارتے ہیں۔
پداتھلا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’مولی نے یہ سوپ جیسی دال بنانا اپنی بنگالی دادی سے سیکھا، جنھوں نے انھیں یہ سکھایا کہ کھانے کو اچھا یا خاص ہونے کے لیے اس کا انواع و اقسام کا ہونا ضروری نہیں ہے۔‘ سرسوں کے تیل میں کلونجی اور لیموں کے رس سے اس سادہ سی ڈش کا ذائقہ بڑھ جاتا ہے جس میں ایک ہی وقت میں اس میں مصالحے اور کٹھے پن کا ذائقہ پیدا ہوتا ہے۔
مسور کی دال اس طرح سے چند منٹوں میں بنائی جا سکتی ہے اور اسے ابلے ہوئے چاولوں یا چپاتی کے ساتھ مزے سے کھایا جا سکتا ہے یا صرف سوپ کے طور پر پیا جا سکتا ہے۔
مسور دال بنانے کی ترکیب
چار لوگوں کے لیے پکنے والی دال:
پہلا مرحلہ
ایک کپ سرخ مسور کی دال کو اچھی طرح سے دھو کر ایک چھلنی میں نکال لیں۔ اسے پریشر ککر میں ڈالیں اور ڈھائی کپ پانی ڈالیں اور تین سیٹیوں (تقریباً 10-12 منٹ) تک پریشر ککر میں پکائیں۔ جب پریشر نکل جائے تو مسور کی دال کو اچھی طرح سے پھینٹ لیں اور اس میں ہلدی پاؤڈر ڈال کر ہلائیں۔ یا پھر دوسری طرح سے آپ دال کو تقریبا گل جانے تک 15 منٹ تک ابالیں۔
دوسرا مرحلہ
دال کو بگھارنے کے لیے سرسوں تیل کو گہرے اور موٹے تلے والے برتن میں گرم کریں۔ اس میں کلونجی، سوکھی سرخ مرچ اور سبز مرچ ڈالیں اور 20 سیکنڈ تک اسے درمیانی آنچ پر بھونیں۔ پکی ہوئی دال کو اس تیار کردہ مصالحے میں ڈالیں اور ساتھ میں حسب ذائقہ نمک ڈالیں اور دو منٹ تک پکنے دیں۔ اس میں اوپر سے دھنیے کے پتے ڈالیں اور اسے گرم گرم چاول کے ساتھ پیش کریں۔