منی پورمیں خوف کی فضا واضح ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی جب ’میتی‘ اور اقلیتی ’کوکی برادری‘ کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اس دوران بہیمانہ قتل اور خواتین کے خلاف جنسی جرائمبھی ہوئے۔ اب تک تقریباً 200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

انتباہ: اس تحریر میں ایسی پرتشدد تفصیلات موجود ہیں جو چند قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
چاول کی لہلہاتی فصلوں کے بیچ موجود ایک عارضی بنکر میں سیمنٹ کی بوریوں پر بندوقیں رکھ کر چار مرد جھکے بیٹھے ہیں۔ اس بنکر کی ٹن سے بنی چھت کو بانس کی مدد سے کھڑا کیا گیا ہے۔
دیسی بلٹ پروف جیکٹ پہنے یہ مرد پرانی سنگل اور ڈبل بیرل شاٹ گن کی مدد سے تقریباً ایک میل دور ایک اور بنکر کا نشانہ لیے ہوئے ہیں۔ ایک کھمبے پر بیلٹ لٹکی ہوئی ہے جس میں گولیاں ہیں۔
یہ مرد ایک ’دیہی دفاعی فورس‘ کے رکن ہیں۔ ان میں سے ایک ڈرائیور، ایک مزدور، ایک کسان اور تومبا شامل ہیں (جن کا نام ان کی شناخت چھپانے کے لیے بدل دیا گیا ہے)۔
تومبا رواں سال مئی کے مہینے میں انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی فسادات پھوٹنے سے پہلے موبائل فون ٹھیک کرنے کا کام کرتے تھے۔
دنیا کی ایسی معیشت جو تمام ملکوں سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، کے ایک کونے میں اب ایسا ماحول نظر آتا ہے جیسے دو ملکوں کے درمیان جنگ کے دوران سرحد ہو۔
تومبا کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے کیوںکہ ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی اور ہمیں محفوظ رکھے گا، مجھے خوف ہے لیکن اس خوف کو چھپانا پڑتا ہے۔‘
تومبا سمیت اس بنکر میں موجود تمام مرد اکثریتی میتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو ہندو مذہب کو مانتی ہے۔

منی پورمیں خوف کی فضا واضح ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی جب ’میتی‘ اور اقلیتی ’کوکی برادری‘ کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اس دوران بہیمانہ قتل اور خواتین کے خلاف جنسی جرائمبھی ہوئے۔ اب تک تقریباً 200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے دو تہائی کا تعلق ’کوکی برادری‘ سے ہے۔ یہ کوکی، زومی، چن اور میزو قبائل کا مشترکہ نام ہے جن کی اکثریت مسیحی ہیں۔
چار مئی کو دو کوکی زومی خواتین کو میتی مردوں کے ایک ہجوم نے برہنہ گھمایا تھا۔ ان میں سے کم عمر خاتون کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے والد اور 19 سالہ بھائی کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ہماری ملاقات اس خاتون کی والدہ سے ہوئی۔ انڈین قوانین کے تحت اس خاندان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔
ہم سے بات کرتے ہوئے یہ خاتون روتی رہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میرے شوہر اور بیٹے کو مارنے کے بعد میری بیٹی کے ساتھ اس وقت جو کچھ ہوا، میرا دل کیا میں بھی مر جاؤں۔ میرے شوہر چرچ کے بڑے تھے۔ وہ نرم گو اور شفیق انسان تھے۔ ان کے بازو چھریوں کے وار کر کے کاٹے گئے۔ میرا بیٹا بارہویں جماعت کا طالبِ علم تھا، ایک ایسا شریف بچہ جس نے کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا تھا۔ اُسے بھی طالمانہ طریقے سے ڈنڈوں سے مارا پیٹا گیا۔‘
’اسے اس لیے مار دیا گیا کیونکہ وہ اس ہجوم کے پیچھے اپنی بہن کو بچانے کے لیے بھاگا تھا۔ میری بیٹی ابھی تک سنبھل نہیں سکی۔ اس کے بھائی اور باپ کو اس کے سامنے مار دیا گیا۔ وہ کھا نہیں پاتی، سو نہیں پاتی۔ میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کے بعد میں کبھی سکون سے نہیں جی پاؤں گی۔‘
مئی میں ہی پولیس مقدمہ درج ہو جانے کے باوجود، اس واقعے پر اس وقت تک کوئی تفتیش نہیں کی گئی جب تک جولائی کے مہینے میں اس واقعے کی ایک ویڈیو منظر عام پر نہیں آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب منی پور تنازعے نے انڈیا سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔
تب ہی انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی منی پور پر اپنی خاموشی کو توڑا۔

منی پور میں تشدد کا آغاز کیسے ہوا؟ اس معاملے پر لوگ متفق نہیں۔ میتی برادری ریاست کی امپھال وادی میں رہائش پذیر ہے جو منی پور کے رقبے کا تقریباً دس فیصد ہے اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ بھی۔
باقی ریاست جو پہاڑی علاقوں پر محیط اور کم ترقی یافتہ ہے میں کوکی سمیت دیگر اقلیتی گروہ آباد ہیں۔ کوکی برادری کو ایس ٹی (درج فہرست قبائل) حیثیت حاصل ہے۔ یہ انھیں آئینی تحفظ فراہم کرتی ہے جس کا مقصد انڈیا کی تاریخی طور پر پسماندہ برادریوں کی زمین، ثقافت، زبان اور شناخت کی حفاظت کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میتیوں کو پہاڑی علاقوں میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں جبکہ کوکی اس ریاست میں جہاں چاہیں زمین خرید سکتے ہیں۔
تین مئی کو کوکی قبائل نے میتیوں کو قبائلی درجہ دینے کے سرکاری اقدام کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
کوکیوں نے سخت گیر میتی گروہوں پر دارالحکومت امپھال اور آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے اقلیتی خاندانوں کے خلاف منظم حملے کرنے کا الزام لگایا جبکہ میتیوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کوکی افراد کی ریلی میں حصہ لیا تھا اور انھوں نے پہلے تشدد کا سہارا لیا۔
بی بی سی آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ کیا ہوا اور کس نے فسادات شروع کیے لیکن تشدد پھوٹ پڑنے کے ابتدائی چند دنوں کے اندر زیادہ تر ہلاک ہونے والوں کا تعلق کوکی اقلیتی برادری سے تھا۔
دونوں برادریوں کے لوگوں کے سینکڑوں گھروں کو نذر آتش یا تباہ کر دیا گیا، گرجا گھروں اور مندروں کو جلا دیا گیا۔ دونوں برادریوں کے تقریباً 60,000 افراد بے گھر ہو گئے جن میں سے زیادہ تر اب بھی گھر واپس نہیں جا سکے ہیں اور وہ سکولوں، کھیل کے میدانوں اور دیگر پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔

چار مہینے گزر چکے ہیں لیکن اب بھی میتی اور کوکی برادریاں مکمل طور پر ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے غلبے والوں علاقوں میں ان کا داخلہ ممنوع ہے۔
امپھال سے ہم نے 60 کلومیٹر جنوب میں کوکی اکثریتی علاقے چورا چند پور کا سفر کیا تو ہمیں راہ میں پولیس اور فوج کی سات چوکیوں سے گزرنا پڑا۔
دونوں طرف کے چیک پوائنٹس پر ہمیں اپنے پریس کے کارڈز دکھانے پڑے اور ان کے بہت سے سوالوں کے جواب دینے پڑے۔ کئیچیک پوائنٹس درجنوں سویلین خواتین کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں۔ ہم ان کی منظوری کے بغیر وہاں داخل نہیں ہو سکتے تھے جو کہ اس بات کا غماز ہے کہ وہاں حکومتی کنٹرول کم ہی ہے۔
جب ہم میتی کے بنکر کے پاس تومبا سے ملے تو ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ اور دیگر لوگ کس قدر کھلے عام ہتھیار لے کر چل رہے تھے۔ ان سب کو بظاہر پولیس یا سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں پکڑے جانے کا کوئی خوف نہیں تھا۔
کوکی اور میتیوں کے علاقوں کے درمیان ڈی فیکٹو سرحدوں کے قریب ہم نے اکثر شہریوں کو کھلے عام ہتھیاروں کے ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا، بعض اوقات پولیس اور سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں بھی وہ ہتھیار سے لیس تھے۔ بی بی سی نے نابالغوں کو بھی بندوقیں اٹھائے ہوئے دیکھا۔
تومبا اپنی تیس کی دہائی میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے دو مہینے پہلے ہی میرے گاؤں کے سابق فوجی اہلکاروں نے بندوق چلانے کی ٹریننگ دی۔ گاؤں والوں نے یہ بندوقیں اکٹھی کیں اور ہمیں دیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’وہ چوبیس گھنٹے چوکس رہتے ہیں اور پہرہ دیتےہیں۔ یہ ہر خاندان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے گھر کا ایک مرد چوکی پر ڈیوٹی دے اور ایک عورت چیک پوسٹ پر تعینات رہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کبھی بھی پولیس کو بر وقت تعینات کیے جاتے نہیں دیکھا اور ہمیں مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی سکیورٹی فورسز پر بھروسہ نہیں۔ وہ کوکیوں کی طرف تعینات ہیں، پھر بھی کوکی ہمارے گاؤں میں کیسے چلے آتے ہیں؟‘
ہم جیسے ہی بنکر سے باہر نکلے تو ایک دھماکہ ہوا جس کی آواز مارٹر گولے کی طرح تھی۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ اسے کس طرف سے داغا گیا تھا۔
تومبا کے جواب اس پیچیدہ تنازع کی مزید ایک تہہ کو بے نقاب کرتے ہیں۔ منی پور پولیس ریاستی حکومت کو رپورٹ کرتی ہے اور یہ وزیر اعلی این بیرن سنگھ کے ماتحت ہے۔ کوکی برادری کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہبیرن سنگھ یا منی پور پولیس پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔
منی پور میں آسام رائفلز کے دستے بھی تعینات ہیں۔ یہ بغاوت کے انسداد والی فورس ہے اور یہ دلی کی مرکزی حکومت کو رپورٹ کرتی ہے۔ میتی کمیونٹی کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ آسام رائفلز کوکیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔
میتی کے غلبے والے علاقوں میں پولیس کے اسلحہ خانے سے ہزاروں ہتھیار لوٹ لیے گئے۔

منی پور پولیس اور آسام رائفلز نے بی بی سی کے ان سوالات کا جواب نہیں دیا جس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا انھوں نے کسی ایک کمیونٹی کا ساتھ دیا اور یہ کہ تمام مسلح شہریوں کو پکڑ کر وہ ان کے لائسنس کی جانچ کیوں نہیں کرتے۔
پولیس نے ہمیں اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر جانے کے لیے کہا جہاں وہ چھینے اور ضبط کیے گئے ہتھیاروں کی تصاویر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ تشدد شروع ہونے کے بعد سے منی پور میں کم از کم چھ پولیس افسران کے مارے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
آسام رائفلز کے ڈائریکٹر جنرل نے ہمیں پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو خطاب بھیجا جس میں کہا گیا کہ ’وہ ہتھیار ضبط کر رہے ہیں اور غیر جانبدارانہ طریقے سے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔‘
جہاں تومبا موجود تھے، وہاں سے ایک میل سے بھی کم فاصلے پر اسی طرح کے مخالف گروہ کے ایک بنکر میں ہماری ملاقات کھاکھم (اصلی نام نہیں) سے ہوئی جو ڈبل بیرل والی شاٹ گن پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کا تعلق کوکی زومی قبائل سے ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے مزدور اور کسان ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہاں برے ارادوں کے ساتھ نہیں۔ ہم تشدد نہیں چاہتے۔ ہم میتیوں کے خلاف اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہیں۔‘
ابراہیم اور ان کے والد کھوماان کا کہنا ہے کہ ’ایسے واقعات ہوئے ہیں جب پولیس نے انھیں بھاگنے کی اجازت دی لیکن ان پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
کھاکھم کی بندوق حاصل کرنے اور ٹریننگ لینے کی کہانی تومبا کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔
دونوں طرف جنگ کی زبان استعمال ہو رہی ہے۔ دو بنکروں کے درمیان کے علاقے کو جنگی محاذ یا ’فرنٹ لائن،‘ ’بفر زون‘ یا ’نو مینز لینڈ‘ کہا جاتا ہے۔
کھاکھم نے کہا کہ ’ہم میتیوں کے ساتھ دوبارہ کبھی نہیں رہ سکتے۔ یہ ناممکن ہے۔‘
جب آپ تشدد کی تفصیلات سنتے ہیں تو یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ دشمنی اتنی تلخ اور جلدی کیسے شدید ہو گئی۔
33 سالہ کوکی ڈیوڈ ٹولر ’گاؤں کی دفاعی فورس‘ لانگزا کا حصہ تھے۔ ڈیوڈ کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ کو ان کے گاؤں سے پکڑ لیا گیا اور 2 جولائی کو میتی ہجوم نے انھیں قتل کر دیا۔
ان کی موت کے فوراً بعد منظر عام پر آن لائن آنے والی ایک ویڈیو میں ان کا مسخ شدہ جسم اور کٹا ہوا سر ایک باڑ پر اٹکا دکھائی دے رہا ہے۔
سلبیا اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے پریشان ہیںڈیوڈ کے چھوٹے بھائی ابراہیم نے ہمیں بتایا کہ ’اسے دیکھنا انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مجھے سونے میں تکلیف ہو رہی ہے۔میں اس کی تصاویر بھی اپنے فون پر نہیں رکھتا کیونکہ جب میں انھیں دیکھتا ہوں تو وہ تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس سے تکلیف ہوتی ہے اور میں پریشان کن چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔‘
ابراہیم کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پیٹ پیٹ کر مارا گیا اور باقیات کو جلایا گیا۔ انھیں ڈیوڈ کی صرف چند ہڈیاں ملی ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان کی ہی ہیں۔
سات جولائی کو ڈیوڈ کی موت کے پانچ دن بعد میتی برادری سے تعلق رکھنے والا 29 سالہ نگلیبا سگولسیم منی پور کے شمال میں کوکی اکثریتی علاقے کے قریب سے لاپتہ ہو گئے۔
ایک دن بعد ان کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس میں وہ زمین پر گھٹنے ٹیکے تھے، ان کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے، چہرے سے خون نکل رہا تھا، کچھ لوگ انھیں پیٹ رہے تھے اور وہ رو رہے تھے۔ ا
س ویڈیو کے دو ماہ بعد ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں انھیں اسی حالت میں دکھایا گیا، پھر انھیں سر میں گولی مار کر ایک گڑھے میں دھکیل دیا گیا۔
نگلیبا کے اہلخانہ کا خیال ہے کہ انھیں کوکی لوگوں نے قتل کیا تھا۔
وہ 10 سال پہلے اپنی بیوی سلبیا سے ملے تھے اور ان دونوں کو اس وقت محبت ہوئی تھی جب وہ ابھی سکول میں تھے۔
سلبیا نے جب اس کے بارے میں بتانا شروع کیا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اپنے شوہر کے بارے میں سلبیا نے کہا کہ ’وہ ایک سادہ آدمی تھا، اسے ہر کوئی پسند کرتا تھا۔ اس میں بچوں جیسی خوبی تھی اور وہ ہمارے بچوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ ہماری زندگی خوش و خرم اور اطمینان بخش تھی۔‘
ان کے دو بیٹے ہیں۔ ایک چار سال کا اور دوسرا سات ماہ کا ہے۔
لنتھوئنگامبی کے والد اپنی بیٹی کا ابھی بھی انتظار کر رہے ہیںوہ پھر رو پڑیں اور کہا کہ ’میرا بڑا بیٹا پوچھتا رہتا ہے کہ اس کے والد کہاں ہیں۔ چونکہ ہمیں ان کی لاش نہیں ملی، تو کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ وہ واپس آجائیں گے۔ میں دروازہ کھول کر انھیں ڈھونڈتی ہوں۔ میں ان کے فون پر کال کرتی ہوں۔‘
امپھال شہر میں ایک اور خاندان اپنی بیٹی کی گمشدگی پر مایوس اور پریشان ہے۔ 6 جولائی کو 17 سالہ میتی لڑکی لِنتھوئنگامبی ہیجام اپنے دوست ہیمن جیت سنگھ کے ساتھ کوکی اکثریتی علاقے کے قریب سے لاپتہ ہوئیں۔
ان دونوں کے فون بند ہیں۔ اپنی برادری کے لوگوں کی مدد سے ان کے والد کلجیت ہیجام کا دعویٰ ہے کہ انھیں معلوم ہوا کہ لڑکے کا فون کچھ دن بعد ایک کوکی خاتون کے نام پر رجسٹرڈ سم کارڈ سے آن ہوا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا یہ جاننے میں کوئی ہماری مدد نہیں کر رہا۔‘
’میں جانتا ہوں کہ اگر وہ اپنے پاس موجود لوگوں سے بات کرنے کے قابل ہو گی تو وہ انھیں اس بات پر راضی کر لے گی کہ وہ اسے جانے دیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ واپس آ کر مجھے حیران کر دے گی۔‘
فریقوں کے درمیان رابطے کی کوئی سہولت نہ ہونے اور پولیس کی کوکی علاقوں کا دورہ کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے کلجیت جیسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، جہاں سے انھیں ان کے سوالوں کے جواب مل سکیں۔
زمین کے حقوق صرف جزوی طور پر اس کشیدگی کی وضاحت کرتے ہیں۔ ریاست میں میتیوں کا زیادہ سیاسی اثر و رسوخ ہے اور اس کے زیادہ تر وزرائے اعلیٰ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
تناؤ کا ایک اور نکتہ جنگ زدہ میانمار سے کوکیوں سے ملتے جلتے قبائل کے لوگوں کی آمد ہے۔ میانمار کی منی پور ریاست کے ساتھ طویل سرحد ملتی ہے۔ پہاڑیوں میں پوست کی غیر قانونی کاشت بھی تنازعے کا باعث بنی ہوئی ہے۔
میتی اور کوکی برادریوں کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ منی پور کی ریاستی حکومت سے ناخوش ہیں۔ کوکی حکومت پر ان کی برادری کے خلاف تشدد کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ میتیوں کا الزام ہے کہ حکومت نے تشدد کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کے دفتر نے انٹرویو کے لیے بی بی سی کی درخواست یا ای میل کے ذریعے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
دونوں کمیونٹیز انڈیا کی مرکزی حکومت سے مایوسی کا اظہار کرتی ہیں۔
تومبا نے بنکر میں بیٹھتے ہوئے پوچھا کہ ’مجھے مایوسی ہوئی کہ وزیر اعظم مودی صرف کوکی خواتین کی ویڈیو کے بعد بولے۔ اس نے مجھے مایوس کیا۔ کیا منی پور انڈیا کا حصہ نہیں؟ پھر ہمیں کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟‘
منی پور کی حکومت بھی مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) چلا رہی ہے اور اس طرح، ریاست میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مرکزی حکومت چاہے تو وہ اس بحران کو جلد حل کر سکتی ہے۔
کھاکھم نے کہا کہ ’ہم نے مہینوں سے ان (انڈین حکومت) سے کچھ نہیں سنا۔ ہمیں لگتا ہے کہ انھیں بہت سے معصوم انڈین شہریوں کی زندگیوں یا ان کی پریشانیوں کی پرواہ نہیں۔ ہم واضح طور پر ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔‘
کھاکھم نے مزید کہا کہ کوکی ریاست میں الگ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انڈیا کے وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ ’منی پور میں آہستہ آہستہ امن بحال ہو رہا ہے۔‘
لیکن صرف پچھلے تین ہفتوں میں تشدد کے کم از کم پانچ واقعات ہوئے ہیں۔ تازہ ترین واقعہ اتوار کو اس وقت واقع ہوا جب چھٹی پر گئے ایک انڈین فوجی کو امپھال میں اس کے گھر سے اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔
بہر حال ہزاروں مسلح، مشتعل اور خوفزدہ شہریوں کے ساتھ ریاست کی صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہے۔