بلوچ فٹبالر کی موت: ’سکیورٹی اہلکار ماں کے سامنے بھائی کو لے گئے اور پھر اس کی تشدد زدہ لاش ملی‘

اعجاز بلوچ کی تشدد زدہ لاش 16 ستمبر کو ایک اور شخص امیربخش زہری کی لاش کے ساتھ ضلع خضدار سے برآمد ہوئی تھی۔

'جب سکیورٹی فورسز کے اہلکار میرے بھائی اعجاز احمد بلوچ کو اٹھانے کے لیے گھر آئے تو میری والدہ ان کو دیکھ کر گر گئیں۔ والدہ نے اہلکاروں کو اللہ کا واسطہ دیا کہ وہ بھائی کو نہ لے جائیں لیکن انھوں نے ان کی کوئی بات نہیں سنی اور بھائی کو لے گئے۔‘

یہ کہنا تھا ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے سعید احمد کا، جن کے چھوٹے بھائی اعجاز بلوچ کی تشدد زدہ لاش 16 ستمبر کو ایک اور شخص امیربخش زہری کی لاش کے ساتھ ضلع خضدار سے برآمد ہوئی تھی۔

اعجازاحمد بلوچ کا شمار ضلع قلات کے معروف فٹ بالروں میں ہوتا تھا۔

دونوں افراد کے بارے میں سرکاری حکام نے بتایا کہ وہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے مگر نہ صرف اعجاز بلوچ کے اہلخانہ بلکہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنزنے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں پہلے سے ہی سکیورٹی فورسزکی تحویل میں تھے۔

بلوچستان کے وزیراطلاعات جان محمداچکزئی نے سکیورٹی فورسز پر لوگوں کے حراستی قتل کے الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کے بعد سکیورٹی فورسز کے اہلکار جب کارروائی کرتے ہیں تو ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگینڈہ کیا جاتا ہے۔

اعجاز بلوچ کون تھے؟

19 سالہ اعجاز احمد بلوچ کا تعلق ضلع قلات میں منگیچر کے علاقے رنگی علی آباد سے تھا۔

بلوچوں کے قبیلے محمد شہی سے تعلق رکھنے والے اعجاز احمد بلوچ نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ کاشتکاری کے علاوہ کاروبار بھی کرتے تھے۔

ان کا شمار ضلع قلات کے فٹ ال کے معروف کھلاڑیوں میں ہوتا تھا تاہم ان کا تعلق منگیچرمیں شہید ظہیر جان فٹ کلب سے تھا۔ وہ ڈسٹرکٹ فٹبال ایسوسی ایشن قلات کی جانب سے نہ صرف ضلعی سطح پر بلکہ صوبائی سطح پر بھی کھیلتے تھے۔

سعید احمد نے کہا کہ ’میرے بھائی کو فٹبال کا نشہ تھا۔ جنون کی حد تک محبت کے باعث ان کی زیادہ تر توجہ فٹبال کی جانب تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب اعجاز کی موت کی خبر آئی تو سوگ میں ضلع مستونگ میں فٹبال کا ایک ٹورنامنٹ منسوخ کردیا گیا تھا۔

اعجاز بلوچ کو کہاں سے اور کس طرح لے جایا گیا؟

سعید احمد نے بتایا کہ 23 اگست کی رات سوا دو بجے کے قریب سکیورٹی فورسز کے اہلکار ان کے گھر آئے اور اعجاز کو اٹھا کر لے گئے۔

’میں ہر روز جلدی سوتا تھا لیکن جس رات سکیورٹی اہلکار گھر آئے اس رات میں ٹیوب ویل سے دیر سے آنے کی وجہ سے دیرسے سویا تھا۔ میں اپنے کمرے میں سویا ہوا تھا کہ مجھے جگایا گیا۔ دیرسے سونے کی وجہ سے میں پہلے نہیں اٹھ سکا لیکن بعد میں جب میں جاگ گیا تو سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد نہ صرف ہمارے گھر کے صحن بلکہ چھت پربھی موجود تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ گھرکے بڑوں اور بچوں کو کمروں سے نکال کر صحن میں جمع کیا گیا۔

ان کے مطابق ’ہمیں وارننگ دی گئی کہ نہ کوئی بات کرے اور نہ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر ہو۔ میری بوڑھی والدہ نے بات کرنے کی کوشش کی تو ان کو بھی بات کرنے سے منع کیا گیا۔‘

’میری والدہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں کو دیکھا تو گر گئیں۔ میں والدہ کی جانب بڑھنے لگا تو مجھے سختی سے منع کیا گیا کہ میں اپنی جگہ پر رہوں لیکن والدہ کو گرتا دیکھ کر مجھ سے نہیں رہا گیا۔ میں والدہ کے پاس گیا اوران کو اٹھا کر دیوارکے ساتھ بٹھا دیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میری والدہ نے کہا کہ وہ قرآن لے آئیں گی۔ انھیں اس کا واسطہ دیں گے تاکہ وہ بھائی کو نہ لے جائیں لیکن میں نے کہا کہ قرآن کو نہیں لے آئیں اللہ پاک خیرکرے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اعجاز کو لے جانے کے ساتھ انھوں نے ہمارے گھر کی بھی تلاشی لی لیکن وہ گھر سے اسلحہ وغیرہ تو کیا ایک خنجر تک بھی برآمد نہ کر سکے۔

’مقامی انتظامیہ کو واقعے کے بارے میں اطلاع دی‘

سعید احمد نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ہم صبح لیویز فورس کے تھانہ گئے اور ان کو واقعے سے آگاہ کیا۔

’ہم نے انھیں بتایا کہ وہ اس واقعے کی ایف آئی آردرج کریں لیکن انھوں نے ایف آئی آر تو درج نہیں کی بلکہ اس واقعے کا اندراج روزنامچہ میں کر دیا۔‘

سعید احمد نے بتایا کہ ان کے بھائی کا تعلق نہ تو کسی جماعت سے تھا اور نہ ہی کسی کالعدم تنظیم سے بلکہ انھوں نے فٹبال کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا تھا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ لیویز اور پولیس فورس کے اہلکار زیادہ تر ان لاپتہ افراد کی ایف آئی آر کا اندراج نہیں کرتے، جن میں الزام ریاستی اداروں کے اہلکاروں پر ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے وقت جبری گمشدگیوں کے مقدمات کا اندراج پولیس اور لیویز فورس کے اہلکار کرتے تھے لیکن ان کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔

سعید احمد نے بتایا کہ ہمیں بالکل یہ یقین نہیں تھا کہ ہمارا لاڈلہ بھائی ہمیں ایسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اعجاز اب اس دنیا میں نہیں لیکن ہمیں یقین نہیں آرہا کہ وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا۔

’چونکہ ہمارا بھائی کسی غلط کام میں ملوث نہیں تھا اس لیے ہمیں یہ بالکل یہ یقین نہیں تھا کہ انھیں اس طرح مار دیا جائے گا۔‘

لاپتہ افراد کے لیے احتجاج
Getty Images
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج (فائل فوٹو)

اعجاز بلوچ کی لاش کہاں سے ملی؟

اعجاز بلوچ کی لاش خضدار شہر میں صدر پولیس کی حدود میں جعفرآباد کے علاقے سے ملی تھی۔

خضدار پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ دونوں افراد سی ٹی ڈی کے ساتھ اس علاقے میں مقابلے کے دوران مارے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاشوں کو تحویل میں لینے کے بعد خضدار شہر میں ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں سے شناخت کے بعد انھیں ان کے ورثا کے حوالے کیا گیا۔

لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ اعجاز بلوچ کے علاوہ دوسری لاش کی شناخت امیربخش زہری کے نام سے ہوئی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ امیر بخش کا تعلق خضدار سے تھا اور ان کو بھی اعجاز بلوچ کی طرح پہلے سے ہی 5 ستمبر کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کو مار کر ان کی لاشیں پھینکنے کا سلسلہ مبینہ طور پر سنہ 2009 سے جاری ہے لیکن دو تین ہفتوں سے اس میں دوبارہ تیزی آئی ہے۔

خیال رہے کہ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کے حوالے سے میڈیا کو جو معلومات فراہم کی جاتی رہیں ان کے مطابق 29 اگست سے لے کر اب تک ان کارروائیوں میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔

نصراللہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ اس دوران بعض افراد کی تشدد زدہ لاشیں بھی ملی ہیں، جن میں خضدار کے علاقے زہری سے تعلق رکھنے والے لاپتہ فرد غلام فاروق زہری کی لاش بھی شامل تھی، جن کو ایک سال قبل لاپتہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں مارے جانے والے 20 سے زائد افراد میں سے 9 کی شناخت ان لوگوں کے طور پر ہوئی جو پہلے سے ہی جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔

سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟

اس بارے میں بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ الزامات پہلی بار نہیں لگ رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت نے اس حوالے سے ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا تھا، جس نے ایسے الزامات اور دعوؤں کو غلط ثابت کیا۔ ان کے مطابق اس کمشین کی ’یہ تحقیقاتی رپورٹ اب بھی وزارت داخلہ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک لاپتہ افراد کے حوالے سے تنظیم کی بات ہے تو اس کا اپنا ایک بیانیہ ہے۔ ’یہ لوگ صرف الزامات لگاتے رہتے ہیں اور حکومت کے سامنے کبھی بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا۔‘

جان اچکزئی نے کہا کہ دو تین اضلاعمیں دہشت گردی کے واقعات ہوئے تو ایسے میں یہ لازم تھا کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت نے کارروائی کرنی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی سکیورٹی فورسز کے اہلکار دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو ہمارے اداروں کے خلاف اس طرح کا بے بنیاد پروپیگینڈہ کیا جاتا ہے۔

ان الزامات کے حوالے سے سی ٹی ڈی اور سکیورٹی سے متعلق اداروں کے مؤقف کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

تاہم جب مارچ سنہ 2022 میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک خبر کے حوالے سے سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر اہلکار سے رابطہ کیا گیا تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت دشمن پاکستان کو بدنام کرنے اور عوام کو حکومتی اداروں کے خلاف کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘۔

واضح رہے کہ حکومت کے قائم کردہ کمیشن کے مطابق لاپتہ افراد کے 8381 کیسز رپورٹ کیے گئے۔ ان میں سے 6163کیس عدالتی تحقیقات کے بعد ختم کر دیے گئے۔ کمیشن روزانہ کی بنیاد پر کیسس کی پیروی کرتا ہے۔

اہلکار کے مطابق تحقیقات کے مطابق زیادہ تر افراد کو دہشت گرد تنظیمں اغوا کر کے قتل کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔

ان کا کہنا تھا یہ سب کچھ پاکستان دشمن عناصر کی پشت پناہی میں کیا جاتا ہے۔ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف چند لوگوں کو امن و آمان قائم رکھنےکے لیے گرفتار کرتے ہیں اور تحقیقات کے بعد کارروائی آگے بڑھائی جاتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US