کیرالہ ریاست منی پور اور دیگر ریاستوں سے آنے والوں کے لیے ’دوسرا گھر‘ کیوں بن رہا ہے؟

1980 کی دہائی سے 2000 کی دہائی کے اوائل تک جنوبی پڑوسی ریاست تمل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش اور مغربی ریاست مہاراشٹر سے مزدور کیرالہ آئے۔ پچھلی دو دہائیوں سے یہاں شمالی اور مشرقی ریاست بنگال، آسام، بہار اور شمال مشرقی ریاستوں سے لوگ آنے لگے ہیں۔
kerala
Getty Images

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص جنوبی ہند کی ریاست کیرالہ میں صحت کی سہولیات کے برانڈ ایمبیسیڈر بن گئے ہیں۔ یہ ڈاکٹر ویسازو کیچی ہیں اور ان کی ملیالم زبان میں بنائی گئی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔

مختلف مصنوعات کے برانڈ ایمبیسیڈرز کے لیے اپنے ویڈیوز کو متعدد مقامی زبانوں میں ڈب کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن ناگالینڈ کے دارالحکومت کوہیما کے رہنے والے 29 سالہ ڈاکٹر ویسازو کیچی کا معاملہ مختلف ہے۔

وہ روانی سے ملیالم بولتے ہیں، اگرچہ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بہت مشکل زبان ہے۔

کیچی نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو زبان آپ کے لیے ایک مجبوری بن جاتی ہے کیونکہ آپ کو اپنے مریضوں سے بات کرنے کے لیے زبان سیکھنی پڑتی ہے۔‘

اگست سنہ 2013 میں جب ڈاکٹر کیچی ریاست کیرالہ کے شہر کوزی کوڈ پہنچے تو وہ شمال مشرق سے تعلق رکھنے والے پہلے شخص تھے جنھوں نے سرکاری میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کورس میں داخلہ لیا تھا۔

صرف دو سال بعد شمال مشرق سے لوگ وہاں آنا شروع ہو گئے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ان کا ’دوسرا گھر‘ بننے لگا۔

کیرالہ کے بارے میں ان کی اجنبیت اس وقت ختم ہوگئی جب ان کے اساتذہ اور ہم جماعت ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئے۔ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوا جیسا کہ ناگالیند کے دارالحکومت کوہیما میں ان کے ملیالی پڑوسی نے انھیں اپنی ریاست کے بارے میں کہا تھا۔

ڈاکٹر کیچی نے اپنا ایم بی بی ایس کورس کوزی کوڈ میں مکمل کیا اور تیروننتھاپورم میڈیکل کالج ہسپتال میں سرجری میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری میں داخلہ لیا۔

ان کے مطابق کیرالہ تعلیم اور صحت کے معاملے میں ایک ماڈل ریاست ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی کے پاس پیسے نہیں ہیں تو بھی وہ بغیر کسی خوف کے ہسپتال جا سکتا ہے اور ریاست کی مختلف سکیموں کے تحت اپنا علاج کروا سکتا ہے۔‘

لیکن جو چیز ڈاکٹر کیچی کو برانڈ ایمبیسیڈر بناتی ہے وہ کیرالہ کا خود کو ایک ایسی ریاست کے طور پر ظاہر کرنے کا عزم ہے جہاں ’کسی بھی انڈین کو تعلیم حاصل کرنے، کام کرنے اور رہنے کے لیے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔‘

جیسا کہ ایک اہلکار نے کہا کہ ریاست بار بار یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ یہ ’خدا کا اپنا ملک‘ ہے جو ریاست کی مقبول ٹیگ لائن بھی ہے۔

’سبھی کا استقبال‘

ماہرین کیرالہ حکومت کے اس پالیسی فیصلے کے پیچھے کئی وجوہات بتاتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے مہاجر مزدوروں کو مہمان کارکن کہا ہے۔ ریاست کی مجبوری ہے کہ وہ سب کا استقبال کرنے والا بورڈ لگائے تاکہ ریاست سے باہر جانے والے ملیالی مزدوروں کی آبادی یہاں آنے والے مہاجر مزدوروں کے ساتھ متوازن ہو سکے۔

کیرالہ کے لوگ خاص کر 20 سے 40 سال کی عمر کے افراد روزگار کے لیے دوسرے ممالک میں جاتے ہیں اور وہاں سے وہ پیٹرو ڈالر یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں پیسے بھیجتے ہیں جس سے ریاست کی معیشت چلتی ہے اور اس کی سالانہ مالیت ایک لاکھ 10 ہزار کروڑ روپے ہے۔

کیرالہ میں ان خاندانوں کو گھر بنانے والے معمار، الیکٹریشن، بڑھئی، کھیت اور صنعتوں میں کام کرنے والے مزدوروں وغیرہ کی شکل میں انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔

1980 کی دہائی سے 2000 کی دہائی کے اوائل تک جنوبی پڑوسی ریاست تمل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش اور مغربی ریاست مہاراشٹر سے مزدور کیرالہ آئے۔ پچھلی دو دہائیوں سے یہاں شمالی اور مشرقی ریاست بنگال، آسام، بہار اور شمال مشرقی ریاستوں سے لوگ آنے لگے ہیں۔

سنٹر فار مائیگریشن اینڈ انکلوسیو ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر بنوئے پیٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یومیہ اجرت پر کام کرنے والے 40 فیصد مزدور بنگال سے اور 20 فیصد آسام سے آتے ہیں جبکہ باقی اڑیسہ اور دیگر شمال مشرقی ریاستوں جیسے تریپورہ، منی پور، سے آتے ہیں۔ ان میں ناگالینڈ اور میگھالیہ ریاستوں سے آنے والے بھی شامل ہیں۔‘

حیدرآباد یونیورسٹی کے سکول آف اکنامکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ججاتی کے پریدا بتاتے ہیں کہ آخر دوسری ریاستوں سے ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدور کیرالہ کیوں آرہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اتر پردیش، اڈیشہ (اڑیسہ)، بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں جو لوگ زراعت کے شعبے میں روزگار کھو رہے ہیں وہی لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ وہ کیرالہ میں مزدوری کے مواقع کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ اگر ہم اوڈیشہ کی بات کریں تو کیرالہ میں اجرت وہاں کے لوگوں کے مقابلے میں تقریباً چار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔‘

مزدور
Getty Images

دیگر ریاستوں سے زیادہ اجرت

پریدا کا کہنا ہے کہ ’اگر اوڈیشہ میں یومیہ اجرت 200 روپے ہے، تو کیرالہ میں یہ 800 روپے ہے۔ یہ فرق بڑے پیمانے پر یہاں مزدوروں کے آنے کی بنیادی وجہ ہے۔ کیرالہ کی معیشت میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے بغیر کیرالہ کی معیشت متاثر ہوگی۔‘

پروفیسر پریدا نے 2021 میں کیرالہ پلاننگ بورڈ کے رکن ڈاکٹر روی رمن کے ساتھ ’مائیگریشن، غیر رسمی روزگار اور کیرالہ میں شہر کاری پر‘ ایک مطالعہ کی مشترکہ تصنیف کی۔

پریدا نے کہا کہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ’بہت کم جگہیں ایسی تھیں جہاں اوسط آمدنی تھوڑی بہت کم تھی۔ کچھ جگہیں ایسی تھیں جہاں مقامی لوگوں کا رویہ مہاجر مزدوروں کے ساتھ اچھا نہیں تھا لیکن مجموعی طور پر تعلقات اچھے تھے۔ کچھ جگہوں پر مقامی لوگوں نے مہاجر مزدوروں کو مقامی کارکنوں سے بہتر پایا۔ مہاجر مزدور 30 منٹ زیادہ کام کرتے تھے جبکہ مقامی کارکنان وقت سے زیادہ کام کرنے سے انکار کرتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ کیرالہ میں سنہ 2017-18 میں 31 لاکھ مہاجر مزدور تھے۔ ان میں سے 17.5 لاکھ تارکین وطن مزدور تعمیرات میں، 6.3 لاکھ صنعت میں، 3 لاکھ زراعت اور متعلقہ خدمات میں، 1.7 لاکھ سروس سیکٹر میں، 1 لاکھ خوردہ یا تھوک تجارت میں اور 1.6 لاکھ دیگر ملازمتوں میں تھے۔

مطالعہ کے مطابق ’اوسط ادائیگی کی معلومات کی بنیاد پر، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر سال کیرالہ سے دیگر ریاستوں کو 7.5 بلین روپے جاتے ہیں۔‘

لیکن پریدا کیرالہ حکومت کی تازہ ترین تجویز سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ایسی اطلاعات ہیں کہ پولیس تارکین وطن کارکنوں سے ان کی ریاست کے ہاں سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ چاہتی ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ بمشکل ایک یا دو فیصد لوگ جرائم میں ملوث ہیں۔ کیرالہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اسے دنیا کو دکھانا چاہیے کہ دوسری جگہ ملیالیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔‘

یہ بھی پڑھیے

32 ہزار لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی فلم کو ’مسلم مخالف پروپیگنڈا‘ کیوں کہا جا رہا ہے؟

انڈیا میں کیرالہ کی ہتھنی کی موت نے ’انسانیت کا جنازہ نکال دیا‘

دو خواتین کی مبینہ قربانی، باغیچے سے جسم کے 61 ٹکڑے برآمد

طلبہ و طالبات
Getty Images

بیرون ملک مقیم طالب علم

جب رواں سال تین مئی کو انڈیا کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں تشدد کی لہر پھوٹ پڑی تو کیرالہ حکومت نے ’سب کے استقبال یا خوش آمدید‘ کی پالیسی جاری رکھی۔

اینتھروپولوجی کی پی ایچ ڈی کی 25 سالہ طالبہ کمشی لہینکیم نے صرف ایک ماہ قبل منی پور کے دارالحکومت امپھال میں ایک ’خوفناک تجربے‘ کے بعد کنّور یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب تشدد شروع ہوا تو میں کرائے کے کمرے میں رہ رہی تھی جب کہ میرے والدین چورا چاند پور میں تھے۔ ہم نے تمام کوکیوں کو مار ڈالو جیسے نعرے سنے۔ چار مئی کو ہم ڈی جی پی کے گھر پہنچے۔ ہم 300 لوگ تھے اور پھر بھی ہم پر دن دیہاڑے حملہ کیا گیا۔ شام کو جب ڈی جی پی واپس آئے تو ہم سب کو منی پور رائفلز کے فوجی کیمپ بھیج دیا گیا۔‘

کمشی نے کہا کہ ’بہت سے لوگوں نے اپنے خاندان کے افراد کو الوداع کہنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں یقین نہیں تھا کہ ہم مشتعل ہجوم سے بچ سکیں گے۔‘

کمشی اور ان کے دوسرے ساتھی کسی طرح نو مئی کو امپھال سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور دہلی پہنچے جہاں انھوں نے نوکریوں کی تلاش شروع کی۔

انھوں نے بتایا کہ ’مجھے ایک کال سینٹر میں نوکری بھی مل گئی۔ کیرالہ کوکی سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی اپیل کا جواب دینے والی پہلی ریاست تھی۔ میں بلا تردد اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے کنّور چلی آئی۔ میں نے ایک بار سنا تھا کہ میرے ہائی سکول کے کچھ اساتذہ کیرالہ سے تھے۔‘

کمشی اور 34 دیگر طلباء کو ان کے موبائل پر دستیاب دستاویزات کی بنیاد پر داخلہ دیا گیا۔ بہ بتاتی ہیں کہ’ہمارے پاس فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔‘

کمشی کو سب سے زیادہ پسند یہ آيا کہ یہاں کے لوگ ’بہت سادہ دل اور مہمان نواز ہیں۔ اور ہم یہاں محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں فراہم کردہ مواقع کے لیے ہم کیرالہ حکومت اور یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے بہت شکر گزار ہیں۔ ہم یہاں کے لوگوں کے بھی شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمیں بہت پیار دیا ہے۔‘

اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں مہاجر مزدوروں کے 81 فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں پائل کماری نے کچھ ماہ قبل ڈگری کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے غیر ملکی کمیونٹی کے لیے نام روشن کیا ہے۔ پائل ارناکولم میں ایک پینٹ شاپ پر سیلز مین کی بیٹی ہیں۔ وہ ریاست بہار میں پیدا ہوئیں اور انھوں نے کیرالہ میں پرورش پائی کیونکہ ان کے والد وہیں آباد ہو گئے۔

پائل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب صحافیوں نے میرا انٹرویو کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران اور خوش ہوئے کہ میں ملیالم زبان بولتی ہوں۔ ایک بار جب آپ ملیالم جان لیں تو آپ کو یہاں قبول کیا جاتا ہے‘۔

پائل کا بھائی ایک این جی او میں فنانس آفیسر ہے اور ان کی بہن پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ پائل فی الحال سول سروسز کی تیاری کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر کیچی نے کہا کہ ’میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کیرالہ کا مزا لینے کے لیے آپ کو اس کی ثقافت اور زبان سیکھنی ہوگی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US